بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق، ایک مجسٹریٹ نے بتایا کہ جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم ہونے کے بعد سے کم سے کم 4000 لوگوں کو گرفتار کرکے پی ایس اے کے تحت حراست میں رکھا گیا ہے۔
نئی دہلی: دو ہفتے پہلے 5 اگست کو مرکز کی بی جے پی حکومت کے ذریعے جموں و کشمیر سے خصوصی ریاست کا درجہ چھیننے کے بعد بدامنی پھیلنے کے ڈر سے ریاست میں ہزاروں لوگوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔سرکاری ذرائع نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو اس کی جانکاری دی۔اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ایک مجسٹریٹ نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ اس دوران کم سے کم 4000 لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور ان کو پبلک سیفٹی ایکٹ(پی ایس اے) کے تحت حراست میں رکھا گیا ہے۔
واضح ہوکہ ،پی ایس اےایک ایسا متنازعہ قانون ہے جس کے تحت انتظامیہ کو کسی کو بھی دو سال تک بنا کسی الزام یا سماعت کے حراست میں رکھنے کا اختیار مل جاتا ہے۔مجسٹریٹ نے کہا، ‘ان میں سے زیادہ تر کو کشمیر سے باہر کی جیلوں میں بھیجا گیا ہے کیونکہ یہاں کی جیلوں کی میں جگہ نہیں ہے۔ ‘
#BREAKING In Kashmir, at least 4,000 people detained since autonomy stripped: government sources pic.twitter.com/tvF9yivtlM
— AFP news agency (@AFP) August 18, 2019
انہوں نے یہ تعداد ریاست کے اپنے ساتھیوں سے رابطہ کرکے جمع کی ہے۔ انتظامیہ کے ذریعے ذرائع ابلاغ پر پوری طرح لگائی گئی پابندی کےبیچ اس کے لئے انہوں نے سیٹلائٹ فون کا استعمال کیا، جو ان کو حکومت کی طرف سے ملا ہے۔حالانکہ، اس دوران انتظامیہ ،حراست میں لئے گئے لوگوں کی اصل تعداد دستیاب کرانے سے لگاتارانکار کر رہی ہے۔ انتظامیہ نے صرف 100 سے زیادہ سیاستدانوں، کارکنان اور دانشوروں کی حراست میں لئے جانے کی تصدیق کی ہے جن کو 5 اگست کو آرٹیکل 370 کو ہٹاکر جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ چھیننے کے کچھ دنوں کے اندر ہی حراست میں لیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا، ‘علاقے میں امن بنائے رکھنے کے لئے احتیاطاً کچھ لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے، جو کہ پچھلی تین دہائیوں سے مسلح جدو جہد کر رہے ہیں۔ ‘جموں و کشمیر کے گورنر کے ترجمان روہت کنسل نے اس سے پہلے کہا تھا کہ حراست میں لئے گئے لوگوں کی کوئی مرکزی جانکاری دستیاب نہیں ہے۔حالانکہ،اے ایف پی نے پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ سرینگر میں کئی سرکاری افسروں سے بات کی جنہوں نے بڑی تعداد میں گرفتاریوں کی تصدیق کی۔اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر ایک پولیس افسر نے کہا، حراست میں لئے جانے کے بعد سرینگر کے کئی مقامات پر تقریباً6000 لوگوں کا میڈیکل ٹیسٹ کرایا گیا۔ پہلے تو ان کو سرینگر کے سینٹرل جیل میں لے جایا گیا اور بعد میں فوجی ایئرکرافٹ میں یہاں سے باہر لے جایا گیا۔
ایک دوسرے افسر نے کہا، ‘ ہزاروں لوگوں کو جیل بھیجا گیا لیکن اس میں ان لوگوں کے اعداد و شمار نہیں شامل ہیں جن کو حراست میں لئے جانے کو پولیس اسٹیشن میں درج نہیں کیا گیا ہے۔ ‘یہ انکشاف ایسے وقت میں ہوا ہے جب کسی بھی طرح کی بدامنی کو روکنے کے لئے انتظامیہ کے ذریعے لگائی گئی پابندیوں کے درمیان گزشتہ ہفتے ایک مظاہرہ کے دوران آٹھ لوگ زخمی ہو گئے تھے۔غور طلب ہےکہ، اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ہی 16 اگست کو سرینگر میں سیکڑوں مظاہرین پولیس سے بھڑ گئے تھے۔ اس کے جواب میں پولیس نے آنسو گیس کے گولے چھوڑے اور پیلیٹ گن سے گولی باری کی تھی۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان یہ جدو جہد تب ہوئی جب کئی ہزار لوگ سرینگر کی سڑکوں پر ریلی نکال رہے تھے۔
حالانکہ، مواصلاتی نظام پردو ہفتے پہلے لگائی گئی پابندی اورسکیورٹی اہلکاروں کی بھاری تعیناتی کو انتظامیہ آہستہ آہستہ کم کر رہی ہے۔ لیکن سنیچر کو جدو جہد کے بعد کچھ جگہوں پر پابندیوں کو بڑھا دیا گیا۔اس سے پہلے، انتظامیہ کسی بھی طرح کے تشدد یا کشیدگی کو خارج کر رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ کشمیر میں حالات ٹھیک ہیں۔سنیچر کو ریاستی حکومت کے ترجمان کنسل نے کہا تھا کہ جدو جہد میں آٹھ لوگ زخمی ہوئے ہیں لیکن انہوں نے اس کے آگے کی کوئی جانکاری مہیّا نہیں کرائی۔اتوار کو ایک سینئر سرکاری افسر نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ اتوار کی شام تک کئی دیگر ٹیلی فون ایکسچینج کام کرنے لگیںگے۔ وہیں، سوموار کو کئی علاقوں میں اسکول بھی کھل گئے۔