نجکاری کے لیے بینک آف انڈیا جیسے چار بینکوں کا انتخاب: رپورٹ

12:30 PM Feb 17, 2021 | دی وائر اسٹاف

سرکار نے نجکاری  کے لیے جن چار بینکوں کا انتخاب کیا ہے وہ  بینک آف مہاراشٹر،  بینک آف انڈیا، انڈین اوورسیز اور سینٹرل بینک آف انڈیا ہیں۔ سرکار کا یہ قدم اس کے اس بڑےمنصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت وہ سرکاری املاک  کو بیچ کر ریونیو بڑھانے کی تیاری کر رہی ہے۔

(فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: مرکزی حکومت نے درمیانی درجے کےسرکاری سطح پرچلنے والے چار بینکوں کونجکاری  کے لیےمنتخب کیا ہے۔ تین سرکاری ذرائع نے اس کی جانکاری دی۔سرکار کا یہ قدم اس کے اس بڑےمنصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت وہ سرکاری املاک  کو بیچ کر ریونیو بڑھانے کی تیاری کر رہی ہے۔

خبررساں  ایجنسی رائٹرس کے مطابق،سرکار کی بھاری بھرکم حصہ داری والے ان بینکوں میں سینکڑوں ہزاروں ملازمین کام کرتے ہیں اور بینکنگ سیکٹر کی  نجکاری سیاسی طور پر جوکھم بھری ہے کیونکہ اس سے نوکریوں پر خطرے کا اندیشہ ہے۔

اس کے باوجود وزیر اعظم  نریندر مودی کی سرکاری  دوسرے درجے کے بینکوں کے ساتھ اپنے ہدف  کو شروع کرنا چاہتی ہے۔اس معاملے کے فی الحال عوامی  نہ ہونے کی وجہ سے اپنا نام خفیہ  رکھنے کی شرط پر دو عہدیدارو ں  نے رائٹرس کو بتایا کہ جن چار بینکوں کا انتخاب کیا گیا ہے وہ بینک آف مہاراشٹر، بینک آف انڈیا، انڈین اوورسیز اور سینٹرل بینک آف انڈیا ہیں۔

انہوں  نے کہا کہ ان میں سے دو بینکوں کی فروخت کے لیےانتخاب اپریل سے شروع ہونے والے مالی سال2021-22 میں ہوگا۔ اس سے پہلے بینکوں کے انتخاب  کی جانکاری سامنے نہیں آئی تھی۔دراصل گزشتہ1 فروری کو پیش بجٹ میں وزیر خزانہ  نرملا سیتارمن نے سرمایہ کاری منصوبےکے تحت دو بینکوں کی  نجکاری کا اعلان کیا تھا۔

اس کے بعد 7 فروری کو صحافیوں  سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اس بارے میں بتانے سے انکار کیا تھا کہ کس یا کن بینکوں کو فروخت کے لیے منتخب کیاجا رہا ہے۔انہوں نے اس بارے میں پوچھے جانے پر کہا تھا، ‘ہم آپ کو بتائیں گےجب سرکار بتانے کے لیے تیار ہوگی۔’

انہوں نے کہا تھا کہ سرکار بجٹ میں اعلان کردہ بینک نجکاری منصوبہ کے نفاذ کے لیے ریزرو بینک کے ساتھ مل کر کام کرےگی۔

عہدیداروں  نے کہا کہ اپنے فیصلے کا صحیح صحیح اندازہ  کرنے کے لیے پہلے مرحلہ میں سرکار درمیانی  اور چھوٹے بینکوں کی  نجکاری پر غورکر رہی ہے۔ آنے والے سالوں میں وہ ملک  کے کچھ بڑے بینکوں پر بھی ایسا ہی فیصلہ کر سکتی ہے۔

حالانکہ سرکار ملک کے سب سے بڑے بینک اسٹیٹ بینک آف انڈیا میں اپنی اکثر حصہ داری برقرار رکھےگی جو کہ دیہی قرض  دینے جیسی پہل کو نافذ کرنے کے لیے ایک اسٹریٹجک بینک ہے۔وزارت خزانہ  کے ایک ترجمان  نے اس معاملے پر تبصرہ  کرنے سے انکار کر دیا۔

ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہےکہ وبا کی وجہ سےہندوستان کی معیشت میں درج کی جا رہی گراوٹ بڑے پیمانے پراصلاحات  کی مانگ کر رہی ہے۔

ایسے میں مرکزی حکومت بینکنگ سیکٹر میں بنیادی تبدیلی لانا چاہتی ہے جواین پی اےکی وجہ سے بھاری دباؤ میں چل رہی ہیں اور جب بینکوں کو قرض  کی زمرہ بندی  کرنے کی اجازت دی جائےگی تب وبا میں خستہ حالی  کی وجہ سےان کے اور بڑھنے کا ہی امکان  ہے۔

مودی سرکار نے شروعات میں چار بینکوں کو آئندہ مالی سال میں فروخت کے لیے رکھا ہے، لیکن حکام  نے ملازمین کی نمائندگی کرنے والےیونینوں کے احتجاج  سے محتاط رہنے کی صلاح دی ہے۔

بتا دیں کہ بینک یونینوں کے اندازے کے مطابق، بینک آف انڈیا میں لگ بھگ 50000اسٹاف  ہیں اور سینٹرل بینک آف انڈیا میں 33000 جبکہ انڈین اوورسیز بینک میں 26000 اور بینک آف مہاراشٹر میں لگ بھگ 13000 ملازمین ہیں۔

ذرائع نے کہا کہ بینک آف مہاراشٹر میں ملازمین کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے اس کی نجکاری آسان ہو سکتی ہے اور اس لیےممکنہ طور پراس کوسب سے پہلے بیچا جا سکتا ہے۔ایک سرکاری ذرائع  نے بتایا کہ حقیقی نجکاری کاعمل شروع ہونے میں 5-6 مہینے لگ سکتے ہیں۔

اس بیچ سوموار کو مزدوروں  نے بینکوں کی  نجکاری اور بیمہ اور دیگر کمپنیوں کی حصہ داری بیچنے کے سرکار کے قدم کی مخالفت  میں دو روزہ  ہڑتال شروع کی۔ذرائع  نے کہا، ‘ملازمین  کی تعداد، ٹریڈ یونینوں کا دباؤ اورسیاسی نتیجہ جیسے فیصلے آخری فیصلے کومتاثر کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان وجہوں سے آخری وقت پر کسی خاص بینک کی نجکاری کا فیصلہ بدل سکتا ہے۔’

سرکار کو امید ہے کہ ملک  کا بینکنگ ریگولیشن ریزرو بینک آف انڈیا(آر بی آئی)جلد ہی انڈین اوورسیز بینک پر قرض دینے کی پابندیوں کو آسان بنا دےگا، کیونکہ قرض دہندہ  کی مالیات میں اصلاح  کے بعد اس کی فروخت  میں مدد مل سکتی ہے۔

کچھ ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ چھوٹے اور کمزور بینکوں کی خستہ حالت کو دیکھتے ہوئے خریداری کے لیے بہت کم لوگ سامنے آ سکتے ہیں اس لیے مودی کو پنجاب نیشنل بینک یا بینک آف بڑودہ جیسے بڑے بینکوں کی فروخت  پرغور کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ خرچ کرنے میں مدد کے لیے سرکار کو چھوٹے بینکوں کی فروخت  سے خاص مدد ملنے کاامکان  نہیں ہے۔

فچ ریٹنگ ایجنسی کی ہندوستانی  اکائی، انڈیا ریٹنگس کے ماہرین اقتصادیات دیویندر پنت نے کہا، ‘سرکار کو یہ غور کرنا چاہیے کہ بڑھتی ہندوستانی معیشت  کے مالی اعانت فراہم کرنےکے اپنے طویل مدتی اہداف سے سمجھوتہ کیے بغیر اسے بہتر ویلیو کیا دیتی ہے۔’