راجیہ سبھا میں وزیر زراعت پرشوتم روپالا نے کہا کہ سرکار کی جانب سے کسانوں کی معاشی حالت کو ٹھیک کرنے کے لیے کئی پروگرام عمل میں لائے جا رہے ہیں لیکن خودکشی کرنے والے کسانوں کو معاوضہ دینے کا اہتمام موجودہ وقت میں چلائی جا رہی کسی پالیسی میں نہیں ہے۔
علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس
نئی دہلی: حکومت نے ملک میں کسانوں کو سودخوروں کے قرض کے جال سے نجات دلانے کے لیے بینکنگ سیکٹرکی مالی مدد کو بڑھاوا دینے پر زور دیتے ہوئے مانا ہے کہ خودکشی کرنے والے کسانوں کے اہل خانہ کو کسی بھی طرح سے معاوضہ دینے کا فی الحال کوئی اہتمام نہیں ہے۔وزیر زراعت پرشوتم روپالا نے راجیہ سبھا میں وقفہ سوال میں کسانوں کو قرض کے جال سے نجات دلانے کی تدابیرسے جڑے ایک سوال کے جواب میں یہ جانکاری دی۔
قرض کی وجہ سے خودکشی کرنے والے کسانوں کے اہل خانہ کو کسی اسکیم کے تحت معاوضہ دینے سے جڑے ذیلی سوال کے جواب میں روپالا نے کہا، ‘سرکار کی جانب سے کسانوں کی مالی حالت کو ٹھیک کرنے کے لیے کئی پروگرام عمل میں لائے جا رہے ہیں لیکن خودکشی کرنے والے کسانوں کو معاوضہ دینے کا اہتمام موجودہ وقت میں چلائی جا رہی کسی پالیسی میں نہیں ہے۔’
ایک اور سوال کے جواب میں روپالا نے واضح کیا کہ کسانوں کو چار فیصد انٹریسٹ کی شرح پر دیا جا رہا قرض صرف زراعتی کاموں کے لیے ہے، اس میں زراعتی کاروبار شامل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کو سودخوروں کے قرض کے جال سے آزاد کرانے کے لئے سرکار نے ادارہ جاتی قرض کے تحت سبھی بینکوں کو زراعتی قرض کو آسان طریقے سے جاری کرنے کو بڑھاوا دیا گیا ہے۔
روپالا نے بتایا کہ مالی اداروں سے کسانوں کو حاصل رعایتی قرض کی دستیابی کا ہدف2016-17 میں نو لاکھ کروڑ روپے سے بڑھاکر 2019-20 میں 13.50 لاکھ کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔ اس مد میں اس سال 30 اگست تک 6.96 کروڑ روپے جاری کر دیے گئے ہیں۔وہیں، سال 2015 سے 2019 کے بیچ قرض کے دباؤ میں آکر خودکشی کرنے والے کسانوں کی تعداد کی جانکاری مانگے جانے پر روپالا نے این سی آربی رپورٹ کا حوالہ دیا۔
انہوں نے بتایا کہ سال 2015 کے دوران زراعت کے شعبے (8007 کسان/کھیتی کرنے والےاور 4595 اس سے متعلق کام کرنے والےسمیت)کل12602 لوگوں نے خودکشی کی۔ سال2016 کے دوران زراعت کے شعبے(6270 کسان/کھیتی کرنے والےاور5109اس سے متعلق کام کرنے والے سمیت)کل 11379 لوگوں نے خودکشی کی۔
وہیں، 2015 کی رپورٹ کے مطابق دوالیہ اور قرض کی وجہ سے3097 کسانوں نےخودکشی کی۔ حالانکہ، انہوں نے کہا کہ سال 2017 اور آگے کی رپورٹ ابھی تک شائع نہیں ہوئی ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)