وزارت خزانہ نے پارلیامنٹ کو بتایا کہ 2014 میں نریندر مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ڈس انویسٹمنٹ اور عوامی شعبے کی کمپنیوں کی اسٹریٹجک فروخت سے 4.04 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ اکٹھے کیے گئے ہیں۔سب سے زیادہ 1.07 لاکھ کروڑ روپے کی رقم 59 معاملوں میں فروخت کی پیشکش کے ذریعے اکٹھی کی گئی ہیں۔ اس کے بعد، ایکسچینج ٹریڈڈ فنڈ سے حصہ داری فروخت سے سرکاری خزانے کو کل 98949 کروڑ روپے ملے ہیں۔
نئی دہلی: 2014 میں نریندر مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سےحکومت نے ڈس انویسٹمنٹ اور پبلک سیکٹر انٹرپرائزز (سی پی ایس ای) کی اسٹریٹجک فروخت سے 4.04 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ اکٹھا کیا ہے۔ وزارت خزانہ نے منگل (20 دسمبر) کو یہ جانکاری دی۔
اس میںسب سے زیادہ 1.07 لاکھ کروڑ روپے کی رقم 59 معاملوں میں فروخت کی پیش کش (او ایف ایس) کے ذریعے اکٹھی کی گئی ہے۔ اس کے بعد، ایکسچینج ٹریڈڈ فنڈ (ای ٹی ایف ) کے ذریعے 10 قسطوں میں حصہ داری کی فروخت کے ذریعے کل 98949 کروڑ روپے اکٹھے کیے گئے ہیں۔
پچھلے آٹھ سالوں میں ایئر انڈیا سمیت 10 کمپنیوں کی اسٹریٹجک فروخت سے سرکاری خزانے کو 69412 کروڑ روپے ملے۔ جبکہ 45 معاملات میں شیئر بائ بیک سے 45104 کروڑ روپے ملے۔
اسٹریٹجک فروخت کے لیےسال 2014-15 سے 17 پی ایس یو زلسٹ ہوئے، جن سے 50386 کروڑ روپے حاصل ہوئے ۔
اس میں سے حکومت کو صرف انشورنس کمپنی ایل آئی کے آئی پی او سے 20516 کروڑ روپے ملے۔
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، وزارت نے کہا کہ نئی لسٹنگ کے ذریعے 7.31 لاکھ کروڑ روپے کا اضافی مارکیٹ کیپٹلائزیشن حاصل کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ، حکومت نے پارادیپ فاسفیٹ لمیٹڈ، آئی پی سی ایل اور ٹاٹا کمیونی کیشن میں اپنا باقی حصہ بالترتیب 472 کروڑ روپے، 219 کروڑ روپے اور 8847 کروڑ روپے میں فروخت کیا ہے۔
اس کے علاوہ، حکومت نے لوک سبھا میں پیش کردہ اعداد و شمار میں بتایا، سال 2017-18 میں ڈس انویسٹمنٹ کے لیے 100000 کروڑ روپے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا، اس سال ڈس انویسٹمنٹ کی وصولیاں 100057 کروڑ روپےرہیں۔
اسی طرح سال 2018-19 میں ڈس انویسٹمنٹ کا ہدف 80000 کروڑ روپے اور ڈس انویسٹمنٹ کی وصولیاں 84972 کروڑ روپے، 2019-20 میں ڈس انویسٹمنٹ کا ہدف 65000 کروڑ روپے اور ڈس انویسٹمنٹ کی وصولیاں 50299 کروڑ روپے،2020-21 میں ڈس انویسٹمنٹ کا ہدف 32000 کروڑ روپے اور ڈس انویسٹمنٹ کی وصولیاں 32845 کروڑ روپے اور 2021-22 میں ڈس انویسٹمنٹ کا ہدف 78000 کروڑ روپے اور ڈس انویسٹمنٹ کی وصولیاں 13531 کروڑ روپے رہیں۔
حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ کووڈ کی وبا کی وجہ سے گزشتہ چند برسوں کے دوران اقتصادی اور بازار کے ماحول میں شدید غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی۔ عالمی اقتصادی بحران اور جغرافیائی سیاسی تناؤ نے سرمایہ کاری کے عمل، جاری سودوں کو مکمل کرنے اور نئے سودوں کی شروعات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
بینکوں کی نجکاری سے متعلق ایک سوال کے جواب میں حکومت نے کہا، ‘کسی بھی بینک کو ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے ذریعے پبلک سیکٹر بینک (پی ایس بی) یا نجی شعبے کے بینک (پی وی بی) کے طور پر درجہ بندی کی جاتی ہے۔ا لائف انشورنس کارپوریشن آف انڈیا کی جانب سے51 فیصد کنٹرولنگ حصص کے حصول کے بعد ٓر بی آئی نے مورخہ 14/3/2019 کے نوٹیفکیشن کے ذریعے آئی ڈی بی آئی بینک کی ایک 21/1/2019 سے ایک نجی شعبے کے بینک کے طور پر درجہ بندی کی ہے ۔
معلوم ہو کہ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے 2021-22 کے لیے اپنی بجٹ تقریر میں کہا تھا کہ بھارت پیٹرولیم کارپوریشن لمیٹڈ (بی پی سی ایل)، ایئر انڈیا، شپنگ کارپوریشن آف انڈیا، کنٹینر کارپوریشن آف انڈیا، آئی ڈی بی آئی بینک، بی ای ایم ایل لمیٹڈ، پون ہنس، نیلاچل اسپاٹ نگم لمیٹڈ سمیت کئی ڈس انویسٹمنٹ پروگرام 2021-22 میں مکمل ہو جائیں گے۔
حکومت نے سرکاری شعبے کے اداروں اور مالیاتی اداروں میں حصص کی فروخت (ڈیس انویسٹمنٹ یا نجکاری) سے مالی سال 2021-22 میں 1.75 لاکھ کروڑ روپے اکٹھا کرنے کا ہدف مقرر کیا تھا۔ اس وقت حکومت نے اگلے مالی سال میں پبلک سیکٹر کے دو بینکوں اور ایک انشورنس کمپنی میں اپنا حصہ بیچنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا تھا۔
وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے بجٹ 2021-22 میں پبلک سیکٹر انٹرپرائز (پی ایس ای) کی پالیسی پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ چار اسٹریٹجک شعبوں کو چھوڑ کر دیگر شعبوں میں سرکاری کمپنیوں کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ یہ پالیسی اسٹریٹجک اور غیر اسٹریٹجک شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے واضح خاکہ پیش کرے گی۔
انہوں نے کہا تھا کہ اگلے مالی سال میں آئی ڈی بی آئی بینک، بی پی سی ایل، شپنگ کارپوریشن، نیلاچل اسپات نگم لمیٹڈ اور دیگر کمپنیوں کا ڈس انویسٹمنٹ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ 2021-22 میں ایل آئی سی کےآئی پی او کے لیے قانون سازی میں ترمیم بھی لائی جائے گی۔ ایل آئی سی کاآئی پی او اسی مئی کے شروع میں لایاجا چکاہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)