ربیحہ عبدالرحیم نے کہا کہ ،میں نے یہ قدم صرف اس لیے نہیں اٹھایا کہ مجھے وہاں سے نکال دیا گیا اور نامعلوم وجوہات کی بنا پر میرے خلاف امتیازی سلوک کیا گیا بلکہ میں نے شہریت ترمیم قانون، این آر سی اور طلبا پر پولیس کے مظالم کی مخالفت کرنے والے طلبا کے ساتھ یکجہتی میں ایسا کیا ہے۔‘
ربیحہ عبدالرحیم، فوٹوبہ شکریہ، فیس بک
نئی دہلی : پانڈی چیری یونیورسٹی کی گولڈ میڈل جیتنے والی اسٹوڈنٹ ربیحہ عبدالرحیم کاالزام ہے کہ اس کو سوموار کو ہوئے کنووکیشن میں شامل ہونے سے روکا گیا، جس میں صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند مہمان خصوصی تھے۔ کیرل کی رہنے والی ربیحہ نے ماس کمیونی کیشن سے ماسٹر ڈگری پوری کی، لیکن انہوں نے شہریت ترمیم قانون کے خلاف مظاہرہ کر رہے طلبا کی حمایت میں گولڈ
میڈل لینے سے انکار کر دیا۔ ربیحہ نے دعویٰ کیا کہ کنووکیشن شروع ہونے سے پہلے اس کو ایک سینئر پولیس حکام نے آڈیٹوریم چھوڑنے کے لیے کہا تھا۔
صدر جمہوریہ کے جانے کے بعد انہیں اس وقت آڈیٹوریم میں جانے کی اجازت دی گئی، جب تقریب میں طلباکو گولڈ میڈل اوراسناد دیا جا رہا تھا۔ ربیحہ عبدالرحیم نے کہا کہ وہ اصل وجہ نہیں جان سکی کہ پولیس حکام نے آڈیٹوریم چھوڑنے کے لیے کیوں کہا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں ڈگری اسکرال حاصل ہوا، لیکن شہریت قانون کے خلاف مظاہرہ کر رہے طلباکی حمایت میں انہوں نے گولڈ میڈل قبول کرنے سے منع کر دیا۔
صدر جمہوریہ کے کیمپس چھوڑنے کے بعد کنووکیشن جاری رہا اوریونیورسٹی کے ایک اہلکار نے طلبا کومیڈل اور اسناد دیا۔ یونیورسٹی کے ایک افسر نے خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا کہ انہیں نہیں پتہ تھا کہ باہر کیا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کنووکیشن اچھی طرح سے اختتام پذیر ہوا۔
اس تقریب میں ایل جی کرن بیدی اوروزیر اعلیٰ وی نارائن سامی نے بھی شرکت کی تھی۔یونیورسٹی رجسٹرار بی چترا نے کہا کہ وی سی گرمیت سنگھ نے پروگرام کی صدارت کی۔
بی بی سی کی ایک خبر کے مطابق، شعبہ ابلاغیات کی گولڈ میڈلسٹ ربیحہ عبدالرحیم کا کہنا ہے کہ وہ وہاں موجود تھیں اور مخالفت کرنے والوں میں شامل نہیں تھیں لیکن انھیں صدر کے آنے سے قبل باہر بلایا گیا اور صدر کے جانے کے بعد ہی انھیں اندر جانے کی اجازت دی گئی۔ربیحہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’مجھے یہ نہیں معلوم کہ انھوں نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا لیکن اس بات نے مجھے ہمت دی کہ میں فیصلہ کر سکوں۔ میں نے اپنا گولڈ میڈل مسترد کر دیا اور صرف سند قبول کی۔‘
انھوں نے مزید کہا ’میں نے یہ قدم صرف اس لیے نہیں اٹھایا کہ مجھے وہاں سے نکال دیا گیا اور نامعلوم وجوہات کی بنا پر میرے خلاف امتیازی سلوک کیا گیا بلکہ میں نے شہریت ترمیم قانون، این آر سی اور طلبا پر پولیس کے مظالم کی مخالفت کرنے والے طلبا کے ساتھ یکجہتی میں ایسا کیا ہے۔‘
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)