گلوبل سول سوسائٹی الائنس ‘سی آئی وی آئی سی یو ایس’ نے کہا ہے کہ یہ پوری طرح سے ہندوستان میں پریس کی آزادی پر حملہ ہے اور نیوز ویب سائٹ نیوز کلک کی تنقیدی اور آزاد صحافت کے خلاف انتقامی کارروائی ہے۔ یو اے پی اے کے تحت اس ویب سائٹ پر الزام عائد کرنا، آزاد میڈیا، کارکنوں اور شہریوں کو خاموش کرانے اور ہراساں کرنے کی ایک بے شرم کوشش ہے۔
پربیر پرکایستھ، نیوز کلک کے ڈائریکٹر اور ایڈیٹر۔ (بہ شکریہ: یوٹیوب اسکرین شاٹ)
نئی دہلی: گلوبل سول سوسائٹی الائنس’سی آئی وی آئی سی یو ایس’ نے ہندوستانی حکام سے یو اے پی اے کے تحت نیوز ویب سائٹ نیوز کلک کے خلاف کارروائی بندکرنے اور اس کے ایڈیٹر اور عملے کو
رہا کرنے کی اپیل کی ہے۔
گزشتہ 3 اکتوبرکو
نیوز کلک کے چیف ایڈیٹر پربیر پرکایستھ اور اس کے ایچ آر ہیڈ امت چکرورتی کو دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے دہشت گردی اور مجرمانہ سازش کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ یہ اس وقت ہوا جب پولیس نے نیوز کلک سے وابستہ 70 سے زائد مقامات پر
چھاپہ مارا، جس میں اس کے ملازمین،کنٹری بیوٹراور صلاح کاروں کے گھر بھی شامل تھے۔
سی آئی وی آئی سی یو ایس (سی وی کس) دنیا بھر میں شہری کارروائی اور سول سوسائٹی کو مضبوط کرنے کے لیے وقف 10000سے زیادہ سول سوسائٹی اور کارکنوں کا ایک گلوبل الائنس ہے ۔
سی آئی وی آئی سی یو ایس میں وکالت اور مہم کے رہنما
ڈیوڈ کوڈے نے کہا،’یہ پوری طرح سےہندوستان میں پریس کی آزادی پر حملہ ہے اور نیوز کلک کی تنقیدی اور آزاد صحافت کے خلاف انتقامی کارروائی ہے۔ یو اے پی اے کے تحت نیوز آؤٹ لیٹ پر الزام لگانا، آزاد میڈیا، کارکنوں اور شہریوں کو خاموش کرانے اور ہراساں کرنے کی ایک بے شرم کوشش ہے۔ ہم پربیر پرکایستھ اور امت چکرورتی کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ نیوز کلک کے خلاف تمام الزامات کو خارج کیا جانا چاہیے۔
چھاپے ماری 3 اکتوبر کو شروع ہوئی تھی، جب پولیس نے صحافیوں کے موبائل فون، لیپ ٹاپ اور ہارڈ ڈسک سمیت الکٹرانک آلات ضبط کر لیے تھے۔ پولیس اب تک نیوز کلک سے وابستہ کم از کم 46 صحافیوں سے پوچھ گچھ کر چکی ہے۔
ان صحافیوں سے بنیادی طور پر 2020 کے
دہلی فسادات، مودی حکومت کے قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک اور کووڈ 19 بحران جیسے معاملوں پر سوال پوچھے گئے۔
نیوز کلک کے خلاف معاملہ واضح طور پر
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ پر مبنی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پورٹل کو ایک امریکی کروڑ پتی سے فنڈنگ حاصل ہوئی، جس نے چینی پروپیگنڈے کو آگے بڑھایا۔ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کی بنیاد پر لوک سبھا میں
بی جے پی کے ایم پی نشی کانت دوبے نے دعویٰ کیا تھا کہ نیوز کلک اور راہل گاندھی جیسے کانگریس لیڈروں کو’ہندوستان مخالف ماحول’ بنانے کے لیے چین سے پیسے ملے تھے۔
تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ جن افراد کے یہاں چھاپے مارے گئے یا پوچھ گچھ کی گئی، ان کے خلاف کیا الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ منگل کو پولیس کے ذریعے استعمال کیے گئے تلاشی نوٹس میں یو اے پی اے کی مختلف دفعات کے تحت سازش (دفعہ 120بی،آئی پی سی) اور مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا (153اے) کے تحت الزام لسٹڈ ہیں۔
ماضی میں سی آئی وی آئی سی یو ایس یعنی سی وی کس مانیٹرنے نے اختلاف رائے کو دبانے کے لیے کارکنوں کے خلاف ہندوستانی حکام کی طرف سے یو اے پی اے قانون کے غلط استعمال کا دستاویزتیار کیا ہے۔
کوڈے نے کہا، ‘آزاد میڈیا کے خلاف یہ کارروائی ہندوستان میں سول اسپیس کے زوال کا ایک اور ثبوت ہے۔ حکام کو کارکنوں، سول سوسائٹی اور صحافیوں کے خلاف یو اے پی اے جیسے جابرانہ قوانین کا غلط استعمال بند کرنا چاہیے۔ انہیں بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین اور معیارات کے تحت ہندوستان کی ذمہ داریوں کی تعمیل کرنی چاہیے۔’
انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔