شدت پسندہندوتوا لیڈریتی نرسنہانند غازی آبادواقع ڈاسنہ دیوی مندر کے مہنت ہیں۔ وہ مسلم مخالف بیان بازیوں کو لےکرسرخیوں میں رہتے ہیں۔اس مہینے کی شروعات میں انہوں نے الزام لگایا تھا کہ ایک مسلم لڑکے کو ان کی جاسوسی کے لیے بھیجا گیا تھا۔ اسی سال مارچ میں ڈاسنہ مندر میں ایک مسلم لڑکے کے پانی پینےکی وجہ سے اس کی پٹائی کی گئی تھی۔ جس شخص نے لڑکے کو پیٹا تھا، نرسنہانند نے اس کی حمایت کی تھی۔
نرسنہانند سرسوتی۔ (فوٹو: فیس بک)
نئی دہلی: اتر پردیش کی غازی آباد پولیس نے ڈاسنہ دیوی مندر کےمہنت اور شدت پسندہندوتوا لیڈریتی نرسنہانند سرسوتی کے خلاف ‘غنڈہ ایکٹ’ لگانے کی کارروائی شروع کر دی ہے۔
انہیں حال میں جونا اکھاڑا کا مہامنڈلیشورمقرر کیا گیا تھا۔
پولیس نے اس سلسلے میں منظوری کے لیےسب ڈویژنل مجسٹریٹ کو ایک فائل بھیجی ہے، جس کے بعد یہ ضلع پولیس سربراہ اور ضلع مجسٹریٹ کی منظوری کے لیے بھیجی جائےگی۔
نرسنہانند نے خود کے جونا اکھاڑا کے مہامنڈلیشورمقرر کیے جانے کے بارے میں حال میں اپنے فیس بک پیج پر جانکاری شیئر کی تھی۔
سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس پون کمار نے کہا کہ انہوں نے مارپیٹ،قتل کی کوشش،غیرمہذب زبان کا استعمال اور مندر کے باہر جانچ سے پولیس کو روکنے جیسی سرگرمیوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے کارروائی شروع کی ہے۔
افسر نے کہا کہ نرسنہانند ضلع کےلاء اینڈ آرڈر کے لیے خطرہ بن گئے ہیں۔
نرسنہانندمتنازعہ تبصروں کو لےکرسرخیوں میں رہے ہیں۔انہوں نے اس مہینے کی شروعات میں الزام لگایا تھا کہ ایک مسلم لڑکے کو ان کی جاسوسی کے لیے بھیجا گیا تھا اور لڑکے کی کمیونٹی میں اس کی عمر کے تربیت یافتہ قاتل ہیں۔
سوشل میڈیا پر سامنے آئے ایک ویڈیو کلپ میں نرسنہانند کو بغل میں کھڑے لڑکے پر مندر احاطے میں ‘ریکی’ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔
اس سے پہلے ملک کے اعلیٰ ترین شعبوں میں کوئی بھی مسلمان ہند نواز نہیں ہو سکتا کہتے ہوئے انہوں نے سابق صدر اےپی جے عبدالکلام کو ایک‘جہادی’ کہا تھا۔ انہوں نے کلام پر ایٹم بم کا فارمولہ پاکستان کو بیچنے کاالزام لگایا تھا۔
خواتین کے خلاف توہین آمیز تبصرہ کرنے کو لےکر ان پر تقریباً دو مہینے پہلے ایک معاملہ درج کیا گیا تھا۔
دی وائر نے اپنی رپورٹس میں بتایا تھا کہ کس طرح نرسنہانند کی جانب سے دی گئی ہیٹ اسپیچ کی وجہ سے فروری2020 میں شمال-مشرقی دہلی میں بھیانک دنگے بھڑکے تھے۔
نرسنہانند اور ان کے نام نہاد شاگر کومسلسل مسلمانوں کے خلاف پرتشدد اور اشتعال انگیز بیانات دیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
اس سال مارچ مہینے میں غازی آباد کا ڈاسنہ مندر اس وقت تنازعہ میں آیا تھا، جب مندر میں پانی پینے گئے 14 سال کے ایک مسلم لڑکے کی وہاں کام کرنے والے شرنگی نندن یادو نام ایک شخص نے بے رحمی سے پٹائی کی تھی۔ اس شخص کو گرفتار کیا گیا تھا۔ حالانکہ بعد میں نرسنہانند نے ملزم کی حمایت کی تھی۔
دی وائر نے پہلے بھی اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ نرسنہانند نے میڈیاتنظیموں کو ایک بیان دیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دارالعلوم دیوبند جیسے کچھ چنندہ تعلیمی اداروں کےطلبا ہندوستان کے آئین کے لیےسچی عقیدت اور احترام کا جذبہ نہیں رکھ سکتے اورہندوستان کی سالمیت اور یکجہتی کو بنائے نہیں رکھ سکتے۔
اس کے علاوہ دہلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پیغمبرمحمد کےخلاف غیرمہذب تبصرہ کرنے پر مذہبی جذبات مجروح کرنے کے الزام میں نرسنہانند کے خلاف اس سال اپریل میں بھی معاملہ درج کیا گیا تھا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)