غزہ کے مکینوں کو راحت کی چند سانسیں لینے کا موقع ملا ہے۔ مگر کب تک؟ جب تک فلسطین کے مسئلہ کا کوئی پائیدار حل عمل میں نہیں لایا جائےگا، تب تک جنگ بندی عارضی ہی رہےگی۔ پائیدار حل ہی میں اسرائیل کی سلامتی بھی ہے۔
علامتی تصویر، بہ شکریہ: UNICEF/UNI448902/Ajjour
اسرائیل کی وحشت ناک بمباری، جس نے 49 دنوں میں تقریباً 15 ہزار افراد کو ہلاک کردیا، جس میں چھ ہزار کے قریب بچے اور چار ہزار خواتین شامل ہیں، اس کے بعد ایک عارضی جنگ بندی نے فلسطینی خطہ غزہ پٹی کے مکینوں کو سانس لینے کا موقع فراہم کردیا ہے۔
اس خطہ میں لگاتار موت کے رقص کے دوران، لوگ کس طرح زندگی گزار رہے تھے، فری لانس صحافی صفاء الحسنات کا کہنا ہے کہ بس ادھار کی زندگی جی رہے تھے اور یہ پتہ نہیں تھا کہ اگلے ایک منٹ کے بعد زندہ ہوں گے یا نہیں۔
ان 49 دنوں کے دوران، جب اسٹوری یا تفصیلات جاننے کے لیےکبھی ان کو فون کرنے کی کوشش کرتے تھے، یا تو کال ہی نہیں لگتی تھی یا مسلسل رنگ کے باوجود وہ فون نہیں اٹھاتی تھی۔
جنگ بندی کے اگلے دن ان سے رابطہ ہوا اوراس سے قبل کہ شکایت کے لیے لبوں کو حرکت دیتا،انہوں نے کسمپرسی کی ایسی ہوشربا دردرناک داستان بیان کی،جس نے ہو ش اڑا دیے۔
شمالی غزہ کی مکین الحسنات کے شوہر 7اکتوبر سے قبل ہی انتقال کر گئے تھے۔ وہ ابھی سوگ کی حالت میں ہی تھیں کہ جنگ شروع ہوگئی اور اسرائیل نے شمالی غزہ کو خالی کرنے کا فرمان جاری کردیا۔ چار یتیم بچوں کو لےکر وہ جنوبی غزہ کی طرف روانہ ہوگئیں، جہاں وہ کسی کو نہیں جانتی تھیں۔ خیر کسی نے ان کو مہمان بنایا۔ مگر اسی رات ان کے پڑوس میں شدید بمباری ہوگئی اور وہ کسی دوسرے ٹھکانے کی تلاش میں نکل گئیں۔
دوسرا ٹھکانہ تو مل گیا، مگر صبح سویرے اس مکان پر بھی بمباری ہوگئی اور بڑی مشکل سے بچوں کے ساتھ وہ جان بچاکر ملبہ سے باہر آگئیں۔ اس دوران ان کے ایک بچے کو چوٹ بھی آئی۔ مگر اس وقت زخم کو کون دیکھتا، زندگی بچ گئی تھی۔ مگر اب کوئی ٹھکانہ نہیں رہ گیا تھا۔
رات گئے تک وہ غزہ کی سڑکوں پر گھوم گھوم کر اپنے اور بچوں کے لیے چھت تلاش کرتی رہی۔ خیر سلطان محلہ میں ایک کمرہ میں جگہ مل گئی، جہاں تین خاندان پہلے ہی رہ رہے تھے۔
پناہ تو مل گئی، مگر پیٹ کی آگ بھی بجھانی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ صبح سویرے بچوں کو الوداع کرکے بیکری کے باہر ایک لمبی قطار میں روٹی کا انتظار کرنا پڑتا تھا اور کسی وقت باسی روٹی ہی مل پاتی تھی، جس پر پھپھوندی جمی ہوئی ہوتی تھی۔ ہمہ وقت اسرائیلی بمباری کا خطرہ ہوتا تھا۔
اکثر اسرائیلی بمبار طیارے اسی طرح کے ہجوم کو نشانہ بناتے تھے۔ خیر روٹی کے ملنے کے بعد پانی کی ایک بوتل ڈھونڈنے کا مرحلہ طے کرنا ہوتا تھا۔ چونکہ گیس یا دیگر ایندھن کے ذرائع مسدود کردیے گئے تھے، اس لیے پرانے زمانے کے مٹی کے چولہے پر کھانا بنانے اور روٹی کو گرم کرنے کے لیے لکڑی اور کوئلہ کی تلاش میں سرگردان ہونا پڑتا تھا۔
الحسنات کہہ رہی تھیں کہ صبح سویرے جب بچوں کو الوداع کرتی تھی، تو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ واپس روٹی، پانی اور لکڑی لےکر آؤں گی یا میری لاش ان کے پاس پہنچ جائےگی۔
جس گھرمیں کسی عزیز کی لاش پہنچتی تھی، وہ بھی اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرتے تھے کہ انہوں نے عزیز کا جنازہ پڑھا۔ ورنہ بمباری سے ملبہ کے اندر ہی لاشیں دب جاتی تھیں یا ان کی شناخت ہی نہیں ہوپاتی تھی اور پھر گھر والوں کو لاش ڈھونڈنے کی تگ ودو کرنی پڑتی تھی۔
وہ بتا رہی تھیں کہ؛
گھر سے نکلتے وقت اکثر مجھے لگتا تھا کہ شاید آخری بار بچوں کا چہرہ دیکھ رہی ہوں۔کیا پتہ اس دورا ن اسرائیلی بمباری سے یہ ٹھکانہ بھی مسمار ہو جائے۔ یہ بچے حال ہی میں یتیم ہو گئے تھے اوران کی آنکھیں اور اداس معصوم چہرے بتاتے تھے کہ اب وہ ماں کے آنچل سے اتنی جلدی محروم نہیں ہونا چاہتے تھے۔
کھانا حاصل کرنے کی اس تگ و دو کے بعد صحافتی ذمہ داریاں بھی نبھانی تھی اور پھر اسٹوری حاصل کرنے کے لیے میدان میں آنا پڑتا تھا۔ یہ میرے پورے ایک دن کا ٹائم ٹیبل تھا۔ اس لیے اگر میں نے اس دورا ن فون نہیں اٹھایا یا کال کا جواب نہیں دیا،، تو مجھے معافی ملنے کا پورا حق ہے۔
اس گفتگو کے بعد پھر کون شکایت کرتا۔ یہ نہ صرف الحسنات، بلکہ پورے 20لاکھ غزہ کے مکینوں کی کہانی تھی۔ اسرائیلی بمباری کے سایے میں 49دن انہوں نے کم و بیش اسی طرح گزارے۔
بتایا جاتا ہے کہ اس عارضی جنگ بندی کو لاگو کروانے اور اس پر اسرائیل کو راضی کروانے کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے درمیان 13 بار فون پر بات چیت کے دور ہوئے اور اس کے علاوہ امریکی صدر نے مسلسل قطر کے امیر تمیم بن حماد الثانی کے ساتھ رابطہ بنائے رکھا۔
انقرہ، دوحہ اور بیروت میں مقیم مذاکرات کاروں نے راقم کو بتایا کہ قطر نے گو کہ اس معاہدے کی ثالثی میں اہم کردار ادا کیا، مگر اس میں ایران، مصر اور ترکیہ نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔
چھ صفحات پر مشتمل جنگ بندی دستاویز میں اسرائیلی فوجی سرگرمیاں بند کرنے، جنوبی غزہ پر اسرائیلی پروازوں پر پابندی اور شمالی فضائی حدود میں کارروائیوں کو محدود کرنے کی شرط رکھی گئی ہے۔اس کے علاہ قیدیوں کے تبادلہ کا نظم بھی وضع کردیا گیا۔
اس کی داغ بیل اور خد و خال 25 اکتوبر کو قطری وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمن الثانی اور وہائٹ ہاؤس کے مشرق وسطیٰ کے کوآرڈینیٹربریٹ میک گرک کے ساتھ طے پائے گئے تھے۔ عالمی سطح پر احتجاج اور عرب ممالک خاص طور پر اس کے حکمرانوں کے احتجاج نے امریکہ کو اسرائیل پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے پر مجبور کردیا۔
ان مذاکرات پر نظر رکھنے اور جلد فیصلہ لینے کے لیے قطر، امریکہ اور اسرائیل کے نمائندوں کا ایک ‘سیل’ ترتیب دیا گیا۔ اس میں امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز،قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان، اور میک گرک، اسرائیل کے موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا شامل کیے گئے۔
قطر کے امیر نے وزیر اعظم عبدالرحمن الثانی کو ‘سیل’ کے لیے نامزد کردیا تاکہ فیصلہ سازی میں آسانی ہو۔ بعد میں اس عمل میں ترک وزیر خارجہ حکان فیدان،جو ایک سابق انٹلی جنس سربراہ ہیں، اور مصری انٹلی جنس کے سربراہ عباس کامل نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔
اس سے قبل 20 اور 25 اکتوبر کے درمیان، بارنیا نے برنز کے ساتھ کئی بار بات چیت کی، اور بائیڈن نے اس عرصے کے دوران نتن یاہو سے چار بار بات کی تاکہ معاہدے کا خاکہ تیار کیا جا سکے، جس کے بعد 25 اکتوبر کو قطر کو ہری جھنڈی دی گئی۔
اس سے پہلے کہ مذاکرات کوئی سنجیدہ موڑ لیں، دوحہ، استنبول اور بیروت میں حماس کی سیاسی قیادت کو کہا گیا کہ وہ زمین پر اور عسکری قیادت پر اپنی گرفت کو ثابت کریں، تاکہ بعد میں معاہدہ کے بعد ان کی زمینی قیادت اس سے انکاری نہ ہو۔
اس کامظاہرہ کرنے کے لیے حماس نے 21 اکتوبر کو امریکی شہریوں جوڈتھ اور نٹالی رانان کو رہا کردیا، جس سے قطر کی ثالثی کی صلاحیتوں پر اعتماد بڑھ گیا اور حماس کی سیاسی قیادت پر اعتماد قائم ہوگیا۔
تاہم یہ مذاکرات دو بار تعطل کا شکار ہو گئے۔ پہلی بار جب اسرائیلیوں نے 29 اکتوبر کو زمینی حملہ کیا اور دوسری بار 15 نومبر کو جب اسرائیل نے غزہ کے الشفاء ہسپتال کا محاصرہ کردیا۔ لیکن سی آئی اے کے سربراہ نے قطری وزیر اعظم اور موساد کے سربراہ کو بات چیت جاری رکھنے پر آمادہ کردیا۔
ذرائع کے مطابق بائیڈن کی قطر کے امیر کے ساتھ براہ راست فون کال نے بھی بات چیت کی بحالی میں مدد کی۔ تل ابیب میں میک گرک نے اسرائیلی قیادت کو بائیڈن کا پیغام پہنچایا۔ الشفا ہسپتال پر اسرائیلی حملے کے بعد جب روابط دوبارہ منقطع ہو گئے، تو اس کو بحال کرنے میں دو دن لگ گئے۔
اس طرح 18 نومبر کو میک گرک اور برنز نے ایک مسودہ کے ساتھ قطری وزیر اعظم سے ملاقات کی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ قطری وزیراعظم نے اس مسودے پر حماس کے رہنماؤں سے کئی گھنٹے تک بات چیت کی۔اجلاس میں حماس کے سربراہ اسماعیل حانیہ، سابق سربراہ خالد مشعل اور دیگر اہم پولیٹ بیورو کے ارکان بھی شامل تھے، تاکہ بعد میں کسی کو شکایت کا موقع نہ ملے۔
ایک طویل اعصاب شکن بات چیت کے بعد بالآخر سی آئی اے کے سربراہ برنز اور قطری وزیر اعظم نے چھ صفحات پرمشتمل معاہدہ اسرائیل کے حوالے کرنے کے لیے تیار کردیا۔ اگلے دن میک گرک نے قاہرہ میں مصری انٹلی جنس چیف کامل سے ملاقات کی، جس نے کچھ باقی ماندہ خلا کو پر کرنے میں مدد کی۔اس دوران دوسرے ٹریک پر ایران بھی سرگرم تھا، جس کی وجہ سے تھائی لینڈ اور فلپائن کے قیدیوں کو رہائی مل گئی۔
حتمی تجویز اسرائیل کے سامنے پیش کی گئی تھی، مگر اس نے شمالی سرحد پر حزب اللہ کے بارے میں خدشات ظاہر کیے اور لبنان بارڈر پر بھی جنگ بندی پر زور دیا۔ اس کے جواب میں 23 نومبر کو بیروت میں حماس کے لیڈروں اسامہ ہمدان اور خلیل الحیاء نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصرا للہ سے ملاقات کی۔
حزب اللہ نے حماس کو بات چیت اور فیصلہ کرنے کا کلی اختیار دے دیا اور یہ باور کرادیا کہ حزب اللہ خود کسی بات چیت کا حصہ نہیں بنے گا، مگر حماس، جو معاہدہ کرےگا، وہ اس کی پاسداری کرے گا۔
اس تگ ودو کے بعد ہی غزہ کے مکینوں کو راحت کی چند سانسیں لینے کا موقع ملا۔ مگر کب تک۔ جب تک فلسطین کے مسئلہ کا کوئی پائیدار حل عمل میں نہیں لایا جائےگا، تب تک جنگ بندی عارضی ہی رہےگی۔ پائیدار حل ہی میں اسرائیل کی سلامتی بھی ہے، مگر ان کو کون سمجھائے۔