وزیراعظم نریندر مودی 44 سال پہلے یعنی اسی ماہ جون میں لگائی جانے والی ایمرجنسی کے لیے نہرو، اندرا گاندھی اور کانگریس کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ اب مودی اور امت شاہ کی قیادت والی بی جےپی کو ایسے اندیشوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، جن کے مطابق ایمرجنسی جیسے حالات بنتے جا رہے ہیں۔ اس سے انہیں بنگال میں ممتا کو کنارے کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
میدان سیاست کے جغادری اصحاب کو اب جاگ جانا چاہیے۔
پرشانت کنوجیا اور پرینکا شرما کے معاملات دو صوبوں کے وزرائے اعلیٰ پر سنگین الزامات کی طرح ہیں۔ حالانکہ دونوں کا تعلق الگ الگ سیاسی مکتبہ فکر سے ہے، لیکن ان معاملات سے دونوں کی جاگیردارانہ ذہنیت صاف نظر آتی ہے۔ ان دونوں معاملات میں متعلقہ افراد کی گرفتاری اصل میں ایک اشاریہ ہے، ان فعال سماجی کارکنان کے لیے جو سرکار کو کٹہرے میں کھڑا کرتے رہتے ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ واقعات ایسے وقت میں رونما ہو رہے ہیں، جب وزیر اعظم نریندر مودی 2019 کا عام انتخاب ایک عام آدمی اور مبینہ شاہی گھرانے کے وارث یا ان کے الفاظ میں کامدار اور نامدار کے بیچ کی جنگ بتا کر واضح اکثریت سے جیت چکے ہیں۔ ایسی بھاری بھرکم جیت کے بعد بی جے پی اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے لیے اس کے کوئی معنی نہیں ہیں کہ وہ
کنوجیا کے خلاف جابرانہ کارروائی کرتے ہیں یا ضرورت سے زیادہ پرجوش افسر کے خلاف کوئی قدم کیسے اٹھاتے ہیں۔ ایسے حالات میں ممتا بنرجی کا طریقہ کار حیران کن ہے کہ وہ موقع بے موقع خود کو فخریہ عام انسان بتاتی رہی ہیں، لیکن آخرکار وہ بھی
ایک مغرور، جابر اور اتاولے حکمراں کی شکل میں سامنے آ ہی گئیں۔
پرانے زمانے کی بات ہے جب کچھ تنظیمیں اور سماجی حلقے اظہار رائے کی آزادی کے لیے، خصوصاً کفریہ یا فحش کلمات کہنے کو لے کر ایک حد متعین کرنے کے حق میں تھے۔ مغربی یورپ کے کچھ جمہوری ممالک میں اس طرح کے متروک قانون نافذ کیے گئے تھے، لیکن وہ مؤثر ثابت نہیں ہوئے۔ ہندوستان کے تناظر میں ایک سرسری نظر ڈالنے پر ہی پتہ چل جاتا ہے کہ یہاں کے سیاسی طبقے کا اظہار رائے کی آزادی کے معاملے میں ریکارڈ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے۔ اصل میں تو قانون ساز اداروں میں ہوئے مباحث اور جواہر لعل نہرو سرکار کے ابتدائی کچھ سالوں پر نظر ڈالنے سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کو کانگریس نے ہمیشہ ہی محدود کرنے کے لیے کام کیا ہے۔
نہرو سرکار آئین کی شق 19 کے تحت ‘احکامات عامہ’اور’دوستانہ تعلقات والے ممالک سے وابستگی’ کے بیچ معاملات کو ایک دوسرے سے وابستہ کرنے میں ماہر تھی۔ ‘دوستانہ تعلقات والے ممالک سے وابستگی’ کا تو ایسا اثر تھا کہ مودی سرکار تک نیتاجی سبھاش چندر بوس کے مخصوص دستاویزات جاری کرنے میں اسی کی آڑ لیتی ہے۔ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم اور بظاہر اول درجے کے جمہوریت پسند انسان میڈیا کے بارے میں کوئی اچھے خیالات نہیں رکھتے تھے۔ درحقیقت اولین دور میں نہرو سرکار نے ہی اظہار رائے کی آزادی سے متعلقہ قانون میں آئین کی شق 19 (2) کے تحت ترمیم کر کے ‘احکامات عامہ’ اور ‘دوستانہ تعلقات والے ممالک سے وابستگی’جیسے الفاظ شامل کیے تھے۔ 28 مئی 1951 کو ٹائم میگزین میں شائع ایک رپورٹ میں نہرو کے الفاظ اس بابت ان کے خیالات واضح کرتے ہیں۔
نہرونے کہا ؛ہندوستانی پریس کا ایک حصہ غلیظ ہے، وہ ‘فحاشی، بدتہذیبی اور دروغ گوئی’ میں ملوث ہے۔ اسے تہذیب سکھانے کے لیے نہرو نے ہندوستانی آئین میں ترمیم کی تجویز پیش کی تھی، جس سے اظہار رائے کی آزادی کو زبردست خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ انہوں نے حکام سے پریس کے پر کترنے اور اس سے وابستہ لوگوں اور اخبارات کو ‘توہین عدالت، ہتک عزت اور جرم کی تحریک دینے’ جیسے معاملات میں سزا دینے کی ہدایات دیں۔ نہرو نے پارلیامنٹ میں کہا کہ’یہ دیکھ کر میں شدید تناؤ میں ہوں کہ کس طرح غیر ذمہ دارانہ ڈھنگ سے خبریں تیار کی جا رہی ہیں…یہ مجھے اور ایوان کو زیادہ زک نہیں پہنچا رہی ہیں، بلکہ نئی نسل کے ذہنوں میں زہر بھر رہی ہیں۔’
بولنے کی آزادی پر لگام کسنے کی یہ روایت اندرا گاندھی کے ذریعے لگائی گئی ایمرجنسی میں بھی جاری رہی۔ راجیو گاندھی کے دور اقتدار میں یہ ہتک عزت بل کی شکل میں نظر آئی، جس کے تحت ‘مجرمانہ بہتان’اور’عریاں نگاری’جیسے الفاظ کی مدد سے اسے نئے جرائم میں شامل کیا جانا تھا۔ اسے لے کر نیوز پیپر انڈسٹری کے ذریعے ملک گیر پیمانے پر کی گئی کامیاب ہڑتال اور لگاتار شدید ہوتے مظاہروں نے راجیو گاندھی کو یہ بل واپس لینے پر مجبور کر دیا۔ دراصل ہتک عزت بل 1988 منظور ہو جانے پر مرکزی سرکار کو یہ اختیار حاصل ہو جاتا کہ وہ اخبارات و پبلشرز سے حساس تکنیکی اور مالیاتی معلومات حاصل کر لے۔ یہ مجوزہ قانون منظور نہ ہونے کے باوجود برسراقتدار پارٹی اور اس کے لیڈران پر تنقید کرتے رہنے والے اخبارات پر راجیو گاندھی سرکار نے 1988 اور 1989 کے دوران خاصہ دباؤ ڈالا تھا۔
تب راجیو گاندھی کے میڈیا مینجرس نے صحافیوں کے درمیان درار پیدا کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔ بزرگ صحافی یاد کرتے ہیں کہ کیسے دوردرشن پر کچھ انٹرویو نشر کیے گئے تھے، جن میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ میڈیا سے جڑی بہت سی شخصیات اس بل پر سرکار سے بات کرنے کے خلاف نہیں تھیں۔ ان سے سازباز کر یہ قبول کرنے کے لیے بھی راضی کر لیا گیا تھا کہ میڈیا میں ایسے عناصر ہیں، جو بہت دور نکل گئے ہیں اور ان کی لگام کسی جانے کی ضرورت ہے۔ ایسے ہی راجیو نے پوسٹل بل لانے کی کوشش کی تھی جس کی رو سے سرکار خط و کتابت کو چیک اوع انہیں سینسر کر سکتی تھی۔ وہ دور صدر جمہوریہ گیانی ذیل سنگھ و راجیو سرکار کے بیچ سخت سیاسی اختلافات کا تھا، سو ذیل سنگھ نے اس کالے قانون پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔
فوٹو بہ شکریہ:پی آئی ایکس اے وائی/ دی وائر
اندرا گاندھی نے 21 مہینے تک ایمرجنسی لگا رکھی اور اس دوران میڈیا پر سینسرشپ تھی۔ پریس پر سخت کنٹرول کے لیے انہوں نے ‘ملک کے تحفظ’ اور’بڑھتی بے اطمینانی’ کو حربہ بنایا۔ ہندوستان کے ماس کمیونی کیشن سسٹم کو انہوں نے ڈیڑھ سال سے زائد یرغمال بنائے رکھا۔ کئی اخبارات کے صفحات سرکاری خبروں، اندرا و ان کے بیٹے سنجے گاندھی کے فوٹوز کے ساتھ ایسے سرکاری اشتہارات سے بھرے رہتے تھے، جن میں اندرا گاندھی کی تعریف ہوتی تھی۔ اظہار رائے کی آزادی کو دبانے کے لیے اندرا اور ان کے وزیر اطلاعات وی سی شکلا مختلف حربوں کے سہارے گیٹ کیپر کا رول ادا کیا کرتے تھے۔ شکلا نے ہی نیوز ایجنسیز و اخبارات کی لائف لائن ‘ٹیلی پرنٹر’ کاٹنے کی دھمکی کا طریقہ ایجاد کیا تھا۔
اندرا کی رشتے کی بہن صحافی و ادیب نین تارا سہگل کو ایمرجنسی کے دوران گرفتار نہیں کیا گیا، لیکن ایک موقع پر تب بنگال کے وزیر اعلیٰ سدھارتھ شنکر رے نے ان کی بہن سے کہا کہ ،ہم اسے میسا میں کسی بھی وقت بند کر سکتے ہیں۔’ مینٹننس آف انٹرنل سکیورٹی ایکٹ یعنی میسا ایمرجنسی کے دوران ایسا ہتھیار تھا، جس سے ہر کسی کو ڈرایا گیا۔ نین تارا نے بعد میں لکھا کہ شکلا نے ان کی والدہ وجے لکشمی پنڈت سے کہا کہ نین تارا میں سیاست پر لکھنے کی اہلیت ہی نہیں ہے۔ تب نہرو کی بہن نے فی الفور جواب دیا تھا کہ سیاست ایسا واحد موضوع نہیں ہے، جس پر نین تارا نہیں لکھ سکتی۔
مجاہد آزادی، معروف صنعت کار و گاندھی وادی رام کرشن بجاج کو بھی میسا کے دوران مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مبینہ طور پر ودیا، اوم مہتا و امبیکا سونی نے خود کو ‘گاندھی کا قلی’ کہنے والے بجاج کے ہاتھ سے وشو یووک کیندر چھین لینے کی ہر ممکن کوشش کی۔ دہلی کے قلب میں واقع یہ ایک غیر سیاسی مرکز تھا، جہاں نوجوانوں کو ٹریننگ دی جاتی تھی۔ ایمرجنسی کے دوران فلمی دنیا کی معروف شخصیات دیو آنند و پران کے ساتھ ہی کشور کمار کو بھی پریشانیاں اٹھانی پڑیں۔ ان لوگوں نے سرکاری چینل اور ریڈیو پر سرکار کی تعریف کرنے سے منع کر دیا تھا۔
وزیراعظم نریندر مودی 44 سال پہلے یعنی اسی ماہ جون میں لگائی جانے والی ایمرجنسی کے لیے نہرو، اندرا گاندھی اور کانگریس کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ اب مودی اور امت شاہ کی قیادت والی بی جےپی کو ایسے اندیشوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، جن کے مطابق ایمرجنسی جیسے حالات بنتے جا رہے ہیں۔ اس سے انہیں بنگال میں ممتا کو کنارے کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
(صحافی اور قلمکار رشید قدوائی اوآرایف کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔ان کا کالم پیر کے روز شائع ہوتا ہے، پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔ )