فرانس میں کیوں اردو بر صغیر کے پناہ گزینوں کی مشترکہ زبان بن رہی ہے؟

کیمپوں میں ایک ساتھ رہنے سے افغانی، پاکستانی اور بنگلہ دیشی کے لئے اردو خود بخود مُشترکہ زبان بَن گئی ہے۔ دراصل جِن کی مادری زبان اردو نہیں ہے، وہ سب کسی نہ کسی طرح اردو یا ہندی سےوابستہ ہیں۔ شمالی پاکستان اور پنجاب کے علاقوں میں اردو اگر ٹی وی چینلوں یا ریڈیو یا درسگاہوں میں غالب ہے تو افغانستان اور بنگلہ دیش میں بالی ووڈکی ہندی فلمیں یا انڈین ڈرامے کافی مقبول ہیں۔

 کیمپوں میں ایک ساتھ رہنے سے افغانی، پاکستانی اور بنگلہ دیشی کے لئے اردو خود بخود مُشترکہ زبان بَن گئی ہے۔ دراصل جِن کی مادری زبان اردو نہیں ہے، وہ سب کسی نہ کسی طرح اردو یا ہندی سےوابستہ ہیں۔ شمالی پاکستان اور پنجاب کے علاقوں میں اردو اگر ٹی وی چینلوں یا ریڈیو یا درسگاہوں میں غالب ہے تو افغانستان اور بنگلہ دیش میں بالی ووڈکی ہندی فلمیں یا انڈین ڈرامے کافی مقبول ہیں۔

migrants_paris_sipa

گزشتہ چند سالوں کے دوران یوروپ اور خصوصاً فرانس میں پناہ گزینوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے، جسے ہم مائگرینٹ کرائسِس کے نام سے جانتے ہیں۔2015میں 10لاکھ پناہ گزین یوروپ میں داخل ہوئے اور اب2018 میں یہ تعداد گھٹ کر تقریباً50ہزار ہوگئی ہے۔اصل میں مہاجرین کی تعداد ایشیاومشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک کے حالات کے مطابق مختلف زمانوں میں گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ فرانس کے ایک قومی رِیسرچ پروگرام (LIMINAL) کا ممبر ہونے کے ناطے میرا کام اردو بولنے والے پناہ گزینوں پر سماجی لسانیت (sociolinguistics)کے تناظر میں تحقیق کا تھا۔ کیا کیمپوں میں اردو بولی جاتی ہے ؟ اردو بولنے والے پناہ گزینوں کا ماخذ کیا ہے ؟ اُنہیں فرانس میں کِن مُشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ؟

کیا فرانس کی حکومت نے اردو مُترجم کا بندوبست کیا ہے ؟ کیا سرکاری ادارے میں مائگرینٹ سے متعلق دیگر معلومات کا اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے یا نہیں ؟ جب میں فیلڈ ورک کرنے کیمپوں میں پہنچا،تویہ سب سوالات میرے ذہن میں تھے اور مجھے انہی سوالات کے جوابات تلاش کرنے تھے۔برصغیر کے پناہ گزینوں میں پہلے نمبر پر افغانی شہری آتے ہیں، پھر پاکستان کے خیبر پختونخواہ ،سوات، فاٹا کے علاقوں سے بھی ہر مہینے بھاری تعداد میں لوگ جلا وطنی کر کے فرانس میں داخل ہوتے ہیں۔ اُس کے بعد کثیر تعداد میں بنگلہ دیش کے مائگرینٹ بھی فرانس میں داخل ہوتے ہیں۔

 فیلڈ ورک کے لئے میں فرانس کے شمالی شہر کالے (Calais) گیا اور پیرس کے تین کیمپوں کا دورہ کیا۔ میری مُلاقات زیادہ تر افغانیوں اور پاکستانیوں سے ہوئی اوران سے اردو میں میری گفتگوہوئی۔ بیشتر افغانیوں کی مادری زبان پشتو یا دَری ہے؛ لیکن اُن میں سے کئی پناہ گزیں ایسے بھی ہیں جو اردو فراٹے سے بولتے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جنہوں نے پاکستان میں طویل رِہائش کے بعداردو بولنا سیکھ لیا۔ شمالی پاکستان اور افغانستان سے متصل علاقوں سے آئے ہوئے پناہ گزینوں کی مادری زبان بھی پشتو ہے۔ دیگر پاکستانی افراد کی پہلی زبان پنجابی ہے ۔ اُن کی اردوپرگرفت اچھی نہیں ہے، پھر بھی وہ اردو میں اپنا کام چلا لیتے ہیں۔

 کیمپوں میں ایک ساتھ رہنے سے افغانی، پاکستانی اور بنگلہ دیشی کے لئے اردو خود بخود مُشترکہ زبان بَن گئی ہے۔ دراصل جِن کی مادری زبان اردو نہیں ہے، وہ سب کسی نہ کسی طرح اردو یا ہندی سےوابستہ ہیں۔ شمالی پاکستان اور پنجاب کے علاقوں میں اردو اگر ٹی وی چینلوں یا ریڈیو یا درسگاہوں میں غالب ہے تو افغانستان اور بنگلہ دیش میں بالی ووڈکی ہندی فلمیں یا انڈین ڈرامے کافی مقبول ہیں۔ مائگرینٹ کیمپوں میں، میں نے اکثر دیکھا ہے کہ کمسن افغانی لڑکے اپنے موبائل فون پر ہندی کارٹون اور ڈرامے دیکھتے ہیں۔ بنگلہ دیش سے آئے ہوئے کچھ پناہ گزینوں کا دعویٰ ہے کہ اُن کے باپ دادا بہار سے تھے اوراردو بولتے  تھے، جو ہندستان کی تقسیم کے وقت مشرقی پاکستان منتقل ہو گئے تھے۔

فرانس میں پناہ کی درخواست سے لےکر پناہ مِلنے تک کا پروسیس ایک سال سے تین سال تک کی مُدت لے سکتا ہے۔ اس مدت میں شروع شروع میں کئی راتیں  سڑک پر ہی گُزارنا پڑتی ہیں۔ شدید سردی میں کئی این جی او (NGO) کی جانب سے پناہ گزینوں کے لئے خیمے نصب کئے جاتے اور کھانے اور گرم کپڑوں کا انتظام کیاجاتاہے۔ اگر فرنچ نہیں آتی ہے، تو ایسی مشکل صورتِ حال میں آپ کو مترجم پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور آپ کے کام میں قدرے تاخیربھی ہوتی ہے۔

پناہ گزینوں سے جُڑی معلومات کا ترجمہ اردو میں ہوا ہے۔ افغانی، پاکستانی اور بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کے پاس یہ کتابچے میں نے دیکھے ہیں لیکن ان کے اندر ان کتابچوں کو پڑھنے کی کماحقہ صلاحیت نہیں ہے ۔ اجنبی اور پریشان کُن ماحول میں بر صغیر کے پناہ گزینوں کے لئے اردو ہی ایک مُشترکہ زبان ثابت ہوئی ہے ،جس کے ذریعے وہ اپنے تجربات اور غم کو بانٹ سکتے ہیں ۔ مادری زبان نہ ہونے پر بھی اردو نہ صرف ان کے لیے ابلاغ کا ذریعہ بنی؛ بلکہ اُس کے استعمال سے انھیں وقتی تسکین بھی حاصل ہوتی ہے۔

علاقائی یکسانیت نے اپنے اپنے وطن سے بہت دور انھیں یکجاکردیاہے اور گویا وہاں ہندوستان،پاکستان،بنگلہ دیش اور افغانستان کے مہاجرین  پر مشتمل ایک نئی آبادی وجود میں آگئی ہے،جس کی تہذیب وتاریخ میں بڑی حد تک یکسانیت ہونے کے ساتھ باہمی افہام و تفہیم کی زبان میں بھی بڑی حد تک اشتراک ہے اور جس کادکھ دردبھی یکساں ہے۔

اس طرح ان پناہ گزینوں کےدل و دماغ سے بڑی حد تک اجنبیت کا احساس دور ہوجاتا ہے اور وطن سے دوری کے غم میں مبتلارہنے کی بجائے وہ دوسرےاہم زمینی مسائل اور مشکلات کودور کرنے میں مشغول رہتے ہیں۔

(مضمون نگار انالکو ،پیرس میں شعبہ  جنوبی ایشیا اور ہمالیہ ڈپارٹمنٹ کےco-director ہیں۔)