پولیس اصلاحات پر عمل در آمد نہیں کیا گیا تو ملک میں جمہوریت زندہ نہیں رہے گی: یوپی کے سابق ڈی جی پی

اتر پردیش اور آسام میں ڈی جی پی رہے پرکاش سنگھ نے کہا ہے کہ اگر وقت رہتے پولیس سسٹم میں اصلاحات نہیں کی گئی تو جمہوریت کو کافی نقصان ہوگا۔ ملک کی اقتصادی، سماجی اور سیاسی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ پولیس اصلاحات ہوں۔ جدید ہندوستان کے لیےضروری ہے کہ پولیس بھی جدید ہو۔

اتر پردیش اور آسام میں ڈی جی پی رہے پرکاش سنگھ نے کہا ہے کہ اگر وقت  رہتے پولیس سسٹم میں اصلاحات نہیں کی گئی تو جمہوریت کو کافی نقصان ہوگا۔ ملک کی اقتصادی، سماجی اور سیاسی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ پولیس اصلاحات ہوں۔ جدید  ہندوستان کے لیےضروری  ہے کہ پولیس بھی جدید ہو۔

(علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی:اتر پردیش اور آسام میں پولیس ڈائریکٹرجنرل(ڈی جی پی)رہے پرکاش سنگھ نے حکومتوں پر اپنے حساب سے پولیس کا استعمال کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اگر پولیس اصلاحات کو مکمل طور پرعمل میں نہیں لایا گیا تو مستقبل  میں ملک میں جمہوریت  خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

سنگھ کے مطابق، ملک کی اقتصادی، سماجی اور سیاسی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ پولیس اصلاحات ہوں۔ جدید  ہندوستان کے لیے ضروری  ہے کہ پولیس بھی جدید ہو۔پرکاش سنگھ نے دراصل انڈین پولیس فاؤنڈیشن کے تعاون  سے راجیندر پونیٹھا میموریل فاؤنڈیشن کے زیراہتمام منعقد ویبینار میں یہ بات کہی۔

انہوں نے کہا کہ اگر وقت رہتے پولیس سسٹم میں اصلاحات نہیں کی گئی تو جمہوریت  کو اس سے شدیدنقصان ہوگا کیونکہ تمام حکومتیں اپنے اپنے حساب سے پولیس کا استعمال کرتی ہیں اور یہ کسی بھی جمہوریت  کے لیےاچھا نہیں ہے۔

فاؤنڈیشن نے جاری بیان میں بتایا کہ آئی پی ایس کے سابق افسر نے کہا،اگر پولیس اصلاحات کو مکمل طور پر عمل میں نہیں لایا گیا تو مستقبل  میں ملک میں جمہوریت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔اس دوران سابق مرکزی وزیر اور ممبئی کے سابق پولیس کمشنر ستیہ پال سنگھ نے کہا کہ پولیس اصلاحات جمہوریت کی بنیادہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں پولیس اصلاحات میں سب سے بڑی رکاوٹ آئی اے ایس لابی ہے، جو نہیں چاہتی کہ پولیس جدید بنے۔انہوں نے پولیس کی امیج اور عزت کو لوٹائے جانے کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ جب تک سیاستداں اورمشینری پولیس کو عزت کی نظر سے نہیں دیکھیں گے تب تک اصلاحات ممکن نہیں ہیں۔

وہیں اتر پردیش میں اےڈی جی راجیو کرشن نے پولیس کی جانچ اور نظم ونسق  کو الگ الگ کرنے کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ اتر پردیش سرکار نے 2020 سے ہی اس کو عمل میں لانے کی شروعات کر دی ہے۔

بتا دیں کہ راجیندر پنیٹھا اتر پردیش کے سابق پولیس افسر تھے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)

Next Article

جموں و کشمیر: پاکستانی حملے میں 10 شہری ہلاک، پانپور میں لڑاکا طیارہ حادثے کا شکار

ہندوستان کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کےٹھکانوں کو نشانہ بنائےجانے کے بعد لائن آف کنٹرول سے متصل جموں کے پونچھ ضلع میں ایک رہائشی علاقے میں پاکستان کی طرف سےفائرنگ کیے جانے کے بعد محکمہ جنگلات کے ایک اہلکار سمیت کم از کم 10 شہری کی موت ہوگئی اور 45 دیگر زخمی ہوگئے۔

بدھ، 7 مئی 2025 کو راجوری، جموں و کشمیر کے اروان کھان یتر گاؤں میں لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد کے پار پاکستانی فورسز کی مبینہ طور پر رات بھر کی بھاری فائرنگ کے بعد لوگ تباہ شدہ املاک کے پاس۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

بدھ، 7 مئی 2025 کو راجوری، جموں و کشمیر کے اروان کھان یتر گاؤں میں لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد کے پار پاکستانی فورسز کی مبینہ طور پر رات بھر کی بھاری فائرنگ کے بعد لوگ تباہ شدہ املاک کے پاس۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

سری نگر: جموں و کشمیر میں بدھ (7 مئی) کی صبح اس وقت کشیدگی کا مشاہدہ کیا  گیا،  جب دارالحکومت سری نگر اور جموں کے اکھنور کے باہری علاقوں میں دو لڑاکا طیارے حادثے کا شکار ہو گئے۔ پاکستان کی جانب سے کیے گئے حملے میں مرکز کے زیر انتطام علاقہ  کے دو اضلاع کے رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔

جموں کے پونچھ ضلع میں لائن آف کنٹرول کے ساتھ ایک رہائشی علاقے پر پاکستان کی گولہ باری سے محکمہ جنگلات کے ایک اہلکار سمیت کم از کم 10 شہری ہلاک اور 45 دیگر زخمی ہو گئے۔

معلوم ہو کہ اس سے قبل بدھ کی صبح ہندوستان نے پاکستان اور پاکستان مقبوضہ کشمیر میں ‘دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے’والے نو مقامات کو نشانہ بنایا تھا۔ یہ فوجی کارروائی کشمیر کے پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کے دو ہفتے بعد کی گئی، جس میں 26 شہری مارے گئے تھے۔

فی الحال،حکام نے سری نگر اور جموں میں صرف دو شہری ہوائی اڈوں کو بند کیا ہے، جنہیں مبینہ طور پرہندوستانی فضائیہ نے اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔وہیں، لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور بین الاقوامی سرحد پر فائرنگ کی اطلاعات کے درمیان جموں و کشمیر کے کچھ حصوں میں تعلیمی اداروں کو بدھ کو بند رکھنے کو کہا گیا ہے۔

عینی شاہدین نے بتایا کہ سری نگر اور جنوبی کشمیر کے آس پاس کے علاقوں میں رہنے والے بہت سے لوگ منگل کی نصف شب کے قریب ایک زوردار دھماکے سے بیدار ہوئے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دھماکہ دارالحکومت سے تقریباً 20 کلومیٹر دور پانپور کے وویان علاقے میں ایک لڑاکا طیارہ کےگرنے کے بعد ہوا ۔

لڑاکا طیارہ گرنے کی خبر

پانپور کے ایک رہائشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دھماکے سے قبل آدھی رات کو کچھ لڑاکا طیارے شہر کے اوپر آسمان پر منڈلا رہے تھے۔ یہ شہراونتی پورہ کے ایئر فورس اسٹیشن سے زیادہ دور نہیں ہے۔

ایک مقامی باشندے نے بتایا کہ ‘اچانک ایک زوردار دھماکہ ہوا، جس نے ہمارے گھر کو ایسے ہلا کر رکھ دیا جیسے کوئی خوفناک زلزلہ آیا ہو۔ آسمان پر بھی ایسی روشنی دیکھی گئی، جیسے دن کا وقت ہو۔ میں نے فوراً اپنے بچوں کو جگایا اور نیچےگراؤنڈ فلور پر چلا گیا۔’

عینی شاہدین کے مطابق، طیارے کا ملبہ وویان کے علاقے میں تقریباً 500 میٹر کے دائرے میں بکھرا ہوا تھا، جسے سیکیورٹی فورسز نے فوری طور پر گھیرے میں لے لیا اور واقعے کی کوریج کے لیے آنے والے درجنوں صحافیوں کو واپس بھیج دیا گیا۔

پانپور کے ایک رہائشی نے بتایا، ‘کچھ ملبہ ایک اسکول کے قریب اور مسجد کے احاطے میں گرا ہے۔ شکر ہے کہ کوئی گھر متاثر نہیں ہوا۔’

وویان میں حادثے کے بعد ایک مقامی رہائشی نے فیس بک پر لائیو اسٹریم کیا، ویڈیو میں اسے یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ وہ ریسکیو آپریشن میں فائر فائٹرز کی مدد کر رہا تھا۔ فوری طور پر یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس حادثے میں کوئی جانی نقصان ہوا ہے یا نہیں۔

تباہ ہونے والے لڑاکا طیارہ کس کا ہے اور وہ کہاں تیار کیا گیا ہے، اس کے بارے میں فوراً کچھ پتہ نہیں چل پایا ہے۔ مرکزی حکومت نے پاکستانی لڑاکا طیاروں کو مار گرانے کے بارے میں کوئی دعویٰ نہیں کیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق، حادثے کی جگہوں کو ہندوستانی  فضائیہ کے اہلکاروں نے اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔

شمالی کشمیر کے کپواڑہ میں منگل اور بدھ کی درمیانی شب لائن آف کنٹرول کے اس پار سے ہونے والی گولہ باری میں کئی رہائشی مکانات کو نقصان پہنچنے کے بعد سوگ کا ماحول ہے۔

اطلاعات کے مطابق، گولیوں کے شیل کرناہ شہر کے رہائشی علاقے میں گرے تاہم کسی جانی و مالی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔

کرناہ میں جائے وقوعہ سے موصولہ ایک ویڈیو میں ایک رہائشی علاقے میں شدید آگ کو دکھایا گیا ہے، جس کے شعلے کم از کم تین سے چار گھروں سے اٹھ رہے ہیں اور فائر فائٹرز آگ پر قابو پانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

واقعے سے متعلق ایک ویڈیو میں ایک شخص کو روتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ اس کی گائے آگ لگنے سے مر گئی ہے، جبکہ ایک اور مردانہ آواز کیمرہ مین سے واقعے کاویڈیو بنانے کے لیے اصرار کرتا ہے۔

آواز آتی ہے، ‘سب کچھ برباد ہو گیا ہے۔ رپورٹ بناؤ۔’

دی وائر آزادانہ طور پر اس فوٹیج کی تصدیق نہیں کر سکا ہے۔

بارہمولہ اور پونچھ میں جنگ بندی کی خلاف ورزی

بارہمولہ اور پونچھ اضلاع سے بھی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی اطلاع ملی ہیں، جس کے بعد حکام نے مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے تعلیمی اداروں کو بدھ کو بند رکھنے کو کہا ہے۔

خبر رساں ایجنسی یو این آئی کے مطابق، ہلاک ہونے والے تین شہریوں کی شناخت محمد عادل، سلیم حسین اور روبی کور کے طور پر کی گئی ہے۔

کشمیر میں بارہمولہ، کپواڑہ اور بانڈی پورہ کے کچھ حصوں میں تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے ہیں، جبکہ جموں ڈویژن میں حکام نے راجوری، پونچھ، کٹھوعہ، جموں اور سانبہ اضلاع کے کچھ حصوں میں تعلیمی ادارے بند رکھنے کا حکم دیا ہے۔

پہلگام دہشت گردانہ حملے کے جواب میں 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب کو مسلح افواج کے ذریعے شروع کیے گئے ‘ آپریشن سیندور ‘ کے بعد جموں و کشمیر میں فوج اور بارڈر سیکورٹی فورسز کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ آپریشن سیندور کو پہلگام دہشت گردانہ حملے کا جوابی کارروائی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ اور دیگر ممالک نے نئی دہلی اور اسلام آبادسے تحمل سے کام لینے اور اپنے اختلافات کو سفارتی اقدامات کے ذریعے حل کرنے کی اپیل کی ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )

Next Article

مسلمان افسر محض علامت، اس سے کمیونٹی کے تئیں حکومت کی بے رخی نہیں دھل پائے گی

جس حکومت نے اب صوفیہ قریشی کو اپنا چہرہ بناکرپیش کیا ہے، وہ ایک فوجی کی بیوی کے ساتھ کھڑی نہیں ہوئی۔ صرف اس لیےاسےتنہا چھوڑ دیا گیا کہ وہ اپنی  تکلیف کے ساتھ اور اس کے باوجودمسلمانوں کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی۔

سات مئی کو 'آپریشن سیندور' کی میڈیا بریفنگ میں کرنل صوفیہ قریشی۔ (تصویر بہ شکریہ: پی آئی بی)

سات مئی کو ‘آپریشن سیندور’ کی میڈیا بریفنگ میں کرنل صوفیہ قریشی۔ (تصویر بہ شکریہ: پی آئی بی)

جس وقت ہندوستانی فوج کی افسر کرنل صوفیہ قریشی دہلی میں دنیا کو بتا رہی تھیں کہ ہندوستان نے 22 اپریل کو پاکستان کو جواب دے دیا ہے، اسی وقت ہندوستان کے ایک کونے اڑی میں رہنے والی فاطمہ پوچھ رہی تھی کہ وہ اپنے تین بچوں کو لے کر کہاں جائے؟

صوفیہ قریشی محض  ایک علامت ہے جبکہ اڑی کی فاطمہ ایک سیدھا سیدھانظر آنے والا منظر ، کوئی  علامت نہیں۔ وہ صوفیہ کی علامت کی جمالیات کو ختم کر دیتی ہے۔ اس کا سوال ایک شہری کا اپنی حکومت سے سوال ہے۔ اس قومی لمحے میں اس سوال کی کوئی جگہ نہیں ہے۔

ہندوستانی قوم پرستی کو خوبصورت بنانے کے لیےصوفیہ قریشی کااستعمال  ہے۔ تین بچوں والی فاطمہ  کے سر پر کوئی فوجی ٹوپی نہیں ہے۔ صوفیہ غیر معمولی ہے، فاطمہ بالکل عام ۔

صوفیہ قریشی اس وقت ہندوستانی قوم پرستی کی ترجمان ہیں۔ اس لیے قابل قبول ہیں۔ہندوستان نے، جو گزشتہ 10 سالوں میں ہندوراشٹر میں تبدیل ہوتا چلا گیا ہے، صوفیہ کو اپنا نمائندہ بنایا ہے۔ ویومیکا سنگھ کے ساتھ۔

صوفیہ قریشی کی آواز ہمارے مشتعل اعصاب کو سکون دینے کے لیےبہت مفید ہے۔ لیکن ایک عام گھریلو خاتون فاطمہ کا سوال ہمیں الجھن میں ڈال دیتا ہے۔ وہ حکومت سے سوال کر رہی ہے کہ اس کی حفاظت کے انتظامات کیوں نہیں کیے گئے۔

فاطمہ کا سوال حکومت کو اس کی ذمہ داری یاد دلاتا ہے اور اس لیے ہم سب کے لیے تکلیف دہ ہے۔ یہ وقت صرف حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کا ہے، اس سےسوال کرنے کا نہیں۔ کیا ہم جنگ کے آداب نہیں جانتے؟

‘سرحد کے قریب ایک ہندوستانی گاؤں پر پاکستانی فائرنگ سے 15 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔’ یہ ایک عام سی معلومات ہے۔ ہم ابھی یہ نہیں سننا چاہتے۔ یہ خبر کسی اخبار کی سرخی نہیں بنے گی۔ کوئی ٹی وی چینل چیخ چیخ کر ان کے لیے انصاف کا مطالبہ نہیں کرے گا۔ ان کے قتل میں ایسی کوئی ڈرامائیت نہیں ہے جیسا کہ 22 اپریل کو بائی سرن میں سیاحوں کے قتل میں تھی۔ یہ مارے گئے یا انہیں قتل کیا گیا؟جو  مارے گئے وہ مسلمان تھے، سکھ تھے۔ بچے، مرد، عورت، سب۔ ان پر حملہ ہندوستان پر حملہ ہے یا نہیں؟

یہ سارے  لوگ بچ سکتے تھے۔ اگر حکومت اپنا معمولی کام کرتی۔ یہ بات اُڑی کی فاطمہ اور پونچھ کی رنویر کور کہہ رہی ہیں۔ وہ پوچھ رہی ہیں کہ ہم سب سرحد کے صرف 7 کلومیٹر اندر ہیں۔ پاکستان کی فائرنگ کی زد میں۔ وہ پوچھ رہی ہیں کہ ان کی حفاظت کا کوئی انتظام کیوں نہیں کیا گیا؟ کوئی وارننگ کیوں نہیں دی گئی؟ کیوں انہیں بچاؤ کی کوئی ڈرل نہیں کرائی گئی؟ کیوں ان کے لیے بنکر نہیں بنائے گئے؟ انہیں وہاں سے ہٹا کر جموں جیسی محفوظ جگہ پر کیوں نہیں پہنچایا گیا؟

رنویر وہی پوچھ رہی ہیں جو فاطمہ پوچھ رہی ہے۔ کیا حکومت کو اندازہ نہیں تھا کہ پاکستان وہاں گولہ باری کرے گا؟ یہ ڈرل دہلی میں ہو رہی تھی، شمالی ہندوستان کے شہروں میں ہو رہی تھی۔ جہاں ہونا چاہیے تھا، وہاں نہیں۔کیوں حکومت کو یہ سادہ سی بات نہیں سوجھی۔

فاطمہ اور رنویر پوچھ رہی ہیں کہ حکومت اپنا معمولی  کام بھی کیوں نہیں کرتی؟

یہ سمجھنے کے لیے کسی انٹلی جنس کی ضرورت نہیں تھی کہ پاکستان فائر کھول سکتا ہے۔ اس کے لیے انتظامی چوکسی کی ضرورت تھی۔ ہر چیز پر نظر رکھنے والی مؤثر حکومت ان علاقوں کو نظر انداز نہیں کر سکتی تھی۔ جب وہ پاکستان پر حملے کی تیاری کر رہی تھی تو اسے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے تھی کہ اڑی اور پونچھ جیسے سرحدی علاقوں پر فائرنگ کرنا پاکستان کے لیے سب سے آسان ہے۔ وہ یہ اندازہ کرکے ان علاقوں کے لوگوں کی حفاظت کا انتظام کر سکتی تھی۔ اس نے ایسا نہیں کیا اور ان علاقوں کے لوگوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔

انتظامیہ اور بہادری میں ہمیں کیا چاہیے؟

بہادری کا مظاہرہ ہمیشہ متاثرکن ہوتاہے۔ فرض کیجیے کہ اگر وہاں سیکورٹی اہلکار ہوتے تو یا تو دہشت گرد وہاں نہ آتے یا پھر ان کا مقابلہ کیا جاتا۔ تو وہ صرف ہندوؤں کو نہیں مار پاتے۔ اگر بائی سرن میں سیکورٹی کا انتظامی کام ہو جاتا تو ‘آپریشن سیندور’کی بہادری کی ضرورت نہ پڑتی۔

لیکن پھر کوئی خبر نہیں بنتی۔ کوئی منظر نہیں بنتا۔ کوئی ہندو زخم نہیں بنتا۔’آپریشن سیندور‘ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کسی صوفیہ قریشی کو ویومیکا سنگھ کے ساتھ کھڑا کرنے کی ڈرامائیٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔

لیکن ایک حکومت جو صرف اور صرف سماج میں تفرقہ پیدا کرنے میں مصروف ہو، جس کی پوری توجہ صرف اور صرف مسلمانوں کو کنٹرول کرنے پر ہو، جو صرف اور صرف سماج میں انتشار پھیلانے کے لیے پالیسیاں بنا رہی ہو، وہ سماج کے کسی بھی طبقے کے تحفظ کی فکر کیسے کر سکتی ہے؟

صوفیہ اور ویومیکا کو ایک ساتھ دیکھ کر سیکولر لوگ خوش ہو رہے ہیں کہ یہی ان کا ہندوستان ہے۔ یہ تصویر ان کی حکومت نے بنائی ہے جس کے سربراہ نے حال ہی میں مسلمانوں کو پنکچر بنانے والا کہا تھا۔

وہ سب جانتے ہیں کہ یہ ان کا ہندوستان نہیں ہے۔ ان کا ہندوستان وہ ہے جہاں اس تصویرکے آنے تک ایک ہندو خاتون ہمانشی نروال پر ہر طرف سے صرف یہ کہنے کے لیے حملہ کیا جا رہا تھا کہ اس کے فوجی شوہر کی دہشت گردانہ حملے میں ہلاکت کا بدلہ مسلمانوں اور کشمیریوں پر حملہ کر کے نہیں لینا چاہیے۔ جس حکومت نے صوفیہ کو اپنا چہرہ بناکر پیش کیا ہے وہ ایک فوجی کی بیوی کے ساتھ نہیں کھڑی ہوئی۔ اسے صرف اس لیے تنہا چھوڑ دیا گیا کہ وہ اپنے مصائب کے باوجود مسلمانوں کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی۔

ایک ہندو کو اجازت نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کرے۔ انسانی جذبات کا مظاہرہ کرے۔ اسے صرف ہندوتوا دی راشٹروادی ہونے کی اجازت ہے۔

دراصل جوہمانشی نروال نے کہا،  وہ ہندوستانی حکومت کو کہنا چاہیے تھا۔ لیکن اس نے اپنے لوگوں کو مسلمانوں کی تذلیل اور مارنے کی آزادی دی۔ جب مسلمانوں اور کشمیریوں پر حملہ ہوا تو اس نے خاموشی اختیار کی۔یہ گالیاں جن مسلمانوں کو دی جا رہی تھیں ان میں صوفیہ، ان کا خاندان شامل ہے یا نہیں؟

فرض محال ہی سہی تصور کیجیے۔ اور مان لیجیے کہ  فاطمہ اور رنویر پریس کانفرنس کر رہی ہیں۔ کیا ہمارے ٹی وی کیمرے ان کے آگے کھڑے ہوں گے؟ کیا وہ ویسا ہی فریم بنائیں گے جو اس نے صوفیہ اور ویومیکا کا مختلف زاویوں سے بنایا؟ کیا فاطمہ اور رنویر کو دیکھ کرکہیں گے یہ ہمارا ہندوستان ہے؟

ہم جواب جانتے ہیں۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)

Next Article

آپریشن سیندور کے حوالے سے ہندوستانی حکومت نے کہا؛ کارروائی محدود، دہشت گردوں کے ڈھانچے کو نشانہ بنایا گیا

ہندوستان نے ‘آپریشن سیندور’ کے تحت پاکستان اور پی او کے میں دہشت گردوں کے نو ٹھکانوں پر حملہ کیا۔ سکریٹری خارجہ نے اسے منصفانہ، محدود اور غیر اشتعال انگیز قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان نے سرحد پار حملوں کا جواب دینے، انہیں روکنے اور مزاحمت کرنے کے اپنے حق کا استعمال کیا ہے۔

آپریشن سیندور کے بعد میڈیا بریفنگ میں ہندوستان کے سکریٹری خارجہ وکرم مصری، کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ ۔ (اسکرین شاٹ بہ شکریہ: وزارت خارجہ/یو ٹیوب)

آپریشن سیندور کے بعد میڈیا بریفنگ میں ہندوستان کے سکریٹری خارجہ وکرم مصری، کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ ۔ (اسکرین شاٹ بہ شکریہ: وزارت خارجہ/یو ٹیوب)

نئی دہلی: پاکستان اور پاکستان مقبوضہ کشمیر (پی او کے) میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ‘آپریشن سیندور’ کے تحت حملہ کیےجانے کے چند گھنٹوں بعد، ہندوستانی حکومت نے کہا کہ حملے محدود اور غیر اشتعال انگیز تھے، اور اس کا مقصد دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنا تھا۔

بدھ کو نئی دہلی میں ہندوستان کے سکریٹری خارجہ وکرم مصری، کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ نے میڈیا کواس  آپریشن کے بارے میں جانکار ی دی۔

ہندوستان  نے اپنی کارروائی کا جواز کیسے پیش کیا؟

سکریٹری خارجہ وکرم مصری نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ‘یہ ضروری سمجھا گیا کہ 22 اپریل کے حملے کے ذمہ داروں اور ان کے منصوبہ سازوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ حملوں کے ہفتہ عشرہ گزرنے کے بعد بھی پاکستان کی طرف سے اپنی سرزمین یا اس کے زیر کنٹرول دہشت گردوں کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف کارروائی کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔ اس کے برعکس وہ تردید اور الزام تراشی میں مصروف ہے۔ پاکستان میں موجود دہشت گرد ماڈیول پر ہماری انٹلی جنس نگرانی نے اشارہ دیا ہے کہ ہندوستان کے خلاف مزید حملے ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں ان کو روکنا اور ان سے نمٹنا، دونوں ہی انتہائی ضروری سمجھا گیا۔ آج صبح، ہندوستان نے سرحد پار سے اس طرح کے حملوں کا جواب دینے، انہیں روکنے اور ممزاحمت  کرنے کے اپنے  حق  کااستعمال کیا ہے۔’

مصری نے فوجی کارروائی کو محدود اور غیر اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے کہا؛’یہ کارروائی متوازن، متناسب اور ذمہ دارانہ ہے۔ یہ دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کو ختم کرنے اور ہندوستان میں بھیجے جانے والے ممکنہ دہشت گردوں کو غیر فعال کرنے پر توجہ مرکوز ہے۔’

آپریشن سیندور کے بعد ہندوستانی  حکومت کی میڈیا بریفنگ۔ (اسکرین شاٹ بہ شکریہ: وزارت خارجہ/یو ٹیوب)

آپریشن سیندور کے بعد ہندوستانی  حکومت کی میڈیا بریفنگ۔ (اسکرین شاٹ بہ شکریہ: وزارت خارجہ/یو ٹیوب)

انہوں نے مزید کہا، ‘آپ کو یاد ہوگا کہ 25 اپریل 2025 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پہلگام دہشت گردانہ حملے پر ایک پریس بیان جاری کیا تھا، جس میں دہشت گردی کے اس قابل مذمت عمل کے مجرموں، منتظمین، مالی معاونت کرنے والوں اور اسپانسرز کو جوابدہ ٹھہرانے اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ ہندوستان کی آج کی کارروائی کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔’

 اہداف کا انتخاب کیسے کیا گیا؟

مصری کی جانب سے ہندوستان کا موقف پیش کرنے کے بعد، کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ نے فوجی کارروائی کی تفصیلات بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلگام دہشت گردانہ حملے میں اپنی جانیں گنوانے والوں اور ان کے اہل خانہ کو انصاف دلانے کے لیے ایسا کیا گیا ہے۔

آپریشن سیندور کے تحت دہشت گردوں کے 9 ٹھکانوں کو نشانہ بنا کر مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔ …ان اہداف  کا انتخاب قابل اعتماد انٹلی جنس معلومات کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ اس بات پر خصوصی توجہ دی گئی کہ شہریوں اور شہری تنصیبات کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔’

اس کے بعد پاکستان اور پی او کے میں دہشت گردوں کے ان 9 ٹھکانوں کے بارے میں معلومات دی گئیں، جہاں آپریشن سیندور کے تحت حملہ کیا گیا۔  ہندوستان کی جانب سے جن مقامات کو نشانہ بنایا گیا، ان میں بہاولپور میں مرکز سبحان اللہ بھی شامل ہے ، جس کا تعلق جیش محمد سے ہے ۔ مریدکے کا مرکز طیبہ جو کہ لشکر طیبہ کا گڑھ ہے ۔ اور تہرا کلاں میں سرجل ، جوجیش کا ایک اور ٹھکانا۔

اس کے علاوہ ، سیالکوٹ میں مہمونہ  زویا ، جو حزب المجاہدین سے منسلک ہے ، اور برنالہ میں مرکز اہل حدیث ، جو لشکر سے منسلک ہے ، پر بھی حملہ کیا گیا۔

ہندوستانی فوج نے کوٹلی میں مرکز عباس (جیش) اور مسکر رحیل شاہد (حزب المجاہدین) پر بھی حملہ کیا ۔ اس کے علاوہ مظفرآباد میں شاوائی نالہ کیمپ (لشکر) اور سیدنا بلال کیمپ (جیش) کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔

Next Article

احوال 2019 کی ہندوپاک فضائی جنگ کا

دنیا بھر کے دفاعی ماہرین ہندوستانی فضائیہ کی اس کارروائی کی کامیابی کے حوالے سے شک و شبہ کا اظہار کرتے ہیں۔ امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک متفق ہیں کہ میزائل ٹارگٹ سے خاصے دور گرے۔

علامتی تصویر، فوٹو بہ شکریہ: indianairforce.nic.in

علامتی تصویر، فوٹو بہ شکریہ: indianairforce.nic.in

یہ کیسا اتفاق ہے کہ 22 اپریل کو کشمیر کے پہلگام پہاڑوں میں سیاحوں پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ہندوستان اورپاکستان کے درمیان پیدا ہوئی کشیدگی سے بس ایک ماہ قبل معروف دفاعی تجزیہ کار سوشانت سنگھ کا  2019  میں ہوئے پلوامہ حملوں اور بالاکوٹ فضائی آپریشن پر ایک تحقیقی مضمون مؤقر جرنل کارواں کے مارچ شمارے میں شائع ہوا تھا۔

 بالاکوٹ پر فضائی حملوں کے بعد ہندوستانی فضائیہ کی اپنی جائزہ رپورٹ اور متعدد انٹرویوز پر مشتمل اس مضمون میں بتایا گیا نہ صرف فضائیہ نے ہدف کو مس کیا، بلکہ خود اپنے ہی ایک ہیلی کاپٹر کو نشانہ بنایا، جس میں کئی افسران ہلاک ہوگئے۔

 ایک اور واردات اسی دن راجستھان سیکٹر میں ہوتے ہوتے رہ گئی، جہاں روسی ساخت کے جدید ترین سخوئی فائٹر نے اپنے ہی ایک مگ طیارہ کو کو نشانہ بنادیا تھا، مگر میزائل بس چند سینٹی میٹر کے فاصلے سے چوک گیا۔ اس واردات کو انتہائی خفیہ رکھا گیا۔ اس سب کے بعد اپنا ایک پائلٹ بھی پاکستان کی تحویل میں دےکر پورے ملک کو بیک فٹ کر کھڑا کر کے رکھ دیا۔

سوشانت سنگھ، جو خود بھی ایک ملٹری افسر رہ چکے ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں، کے مطابق ان حملوں نے تو بس ایک کارنامہ انجام دیا، وہ یہ تھا کہ انتخابات سے قبل وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ایک ایسا ماحول بنانے میں مدد دی، جس سے وہ دوسری بار عوام میں پولرائزیشن کرنے میں کامیاب ہوئے اور اس کے نتیجہ میں بھاری اکثریت کے ساتھ انتخابات جیت گئے۔

 سال 2002میں جب وہ پہلی بار اسمبلی انتخاب میں قسمت آزمائی کر رہے تھے، گجرات کے شہر احمد آباد میں اکشر دھام مندر پر حملہ ہوا تھا، جس میں 30ہندو مارے گئے تھے۔ مودی نے اس کے لیے اس وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشرف کو ذمہ دار ٹھہرایا اور انتخابات میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ پاکستان ان کے لیے انتخابات جیتنے اور ہندوستانی عوام کی نفسیات کو ایڈریس کرنے کا ایک آزمودہ ہتھیار بن چکا ہے۔

ہندوستانی فضائیہ کے ایک اعلیٰ افسر جو بالا کوٹ کے بعد قائم جائزہ کمیٹی کے رکن تھے، کے مطابق پہلے روز یعنی 26فروری 2019کو ہندوستانی فضائیہ نے 100میں سے 80نمبرات حاصل کیے، کیونکہ حملہ اور اس کی نوعیت نے پاکستان کو حیرت زدہ کردیا۔

 اس دن پاکستانی فضائیہ کو 100میں سے بس 25نمبرات حاصل ہوئے۔مگر اگلے روز پاکستانی فضائیہ نے کسرپوری کردی۔اس دن ہندوستانی فضائیہ کی کارکردگی 25سے نیچے ہوگئی۔اس روز پاکستانی فضائیہ کی کارکردگی ہم آہنگی کا ایک بہترین نمونہ تھی۔

پاکستانی فضائیہ نے لائن آف کنٹرول اور پنجاب کی سرحد کی طرف آتے ہوئے دو ہندوستانی جہازوں کی ٹیموں کو دیکھ لیا تھا اور وہ ان کو روکنے کے لیے فضا میں پرواز کر گئے تھے۔ مگر ایک تیسری ٹیم اسی وقت وادی کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے اوپر پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے وادی نیلم کی طرف رواں تھے اور تین منٹ کے وقفے میں انہوں نے ایک غیر آباد علاقے کو نشانہ بناکر کئی میزائل گرادیے۔

 سنگھ کے مطابق، اس پورے واقعہ نے ہندوستان کی قومی سلامتی کے اسٹرکچر کی خامیوں کو اجاگر کردیا۔ گو کہ عوامی طور پر ان حملوں کو بہادری سے تعبیر کیا گیا،مگر اندرون خانہ اس نے تشویش کی لہر دوڑا دی اور عالمی سطح پر بھی فضائیہ کی کارکردگی کی پول کھل گئی۔

ان کہ کہنا ہے کہ 2016میں اوڑی کے فوجی کیمپ پر حملہ کے بعد ہوئی سرجیکل اسٹرئکس کے بعد پاکستان نے جس طرح خاموشی اختیار کی، اس بار بھی اندازہ تھا کہ پاکستان یہ خون کے گھونٹ پی جائےگا اور کوئی جوابی کارروائی نہیں کرےگا۔

بالی ووڈ نے تو اوڑی سرجیکل اسٹرئک پر فلم بھی بنائی، جو پلوامہ حملوں سے قبل ریلیز کی گئی۔ بالاکوٹ پر حملہ کرکے مودی شاید فلم میں ان کے اپنے کردار کو اب حقیقی روپ دینا چاہتے تھے۔ ان کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ کہ حملہ ان کے کنٹرول سے باہر ہوسکتا ہے۔

سنگھ کے مطابق، پلوامہ حملوں کے ایک د ن بعد ہی فضائی کارروائی کا پلان بنایا گیا تھا۔ اس کے لیے فضائیہ کو تیاری وغیرہ کے لیے دو ہفتے کا وقت دیا گیا تھا۔ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کی ایما پر فیصلہ کیا گیا تھا کہ خیبر پختونخواہ صوبہ کے بالاکوٹ علاقہ میں جیش محمد کے ٹھکانے پر حملہ کیا جائےگا، جو ایک نان ملٹری ٹارگیٹ ہوگا اور عالمی برادری کو قابل قبول ہوگا اور پاکستان کو جوابی حملہ کرنے کا جواز نہیں ملے گا۔

یہ بھی بتایا گیا کہ ٹارگیٹ ایک پہاڑی کے اوپر واقع ہے اور زیادہ سویلین ہلاکتیں ہونے کا اندیشہ نہیں ہے۔ بالا کوٹ کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ یہ لائن آف کنٹرول سے قریب ہی واقع ہے۔ ڈوبھال کو آپریشن کی نگرانی اور سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان تال میل کی ذمہ داری اور آنجہانی ارون جیٹلی کو میڈیا کو سنبھالنے کی ذمہ داری تفویض کی گئی۔

ایک دون قبل حکومت نے کئی سربراہان مملکت اور سفارت کاروں کو پلوامہ حملوں پر مشتمل ایک ڈوزیر تھما دیا، جس میں جیش محمد کو خود کش حملہ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔

چھبیس فروری رات کے آخری پہر مدھیہ پردیش کے گوالیار شہر کے فوجی مستقر سے ہندوستانی فضائیہ کے 12میراج 2000جہازوں نے اڑان بھری، جو اسرائیلی ایس پی اے سی ای 2000میزائلوں سے لیس تھے۔ یہ میزائل جہاز سے ریلیز ہونے کے بعد کنٹرول روم سے گائیڈ کیے جاتے ہیں۔ ان کے ہمرا سخوئی 30فائٹر اور مواصلاتی طیارہ اور ہوا میں ایندھن بھرنے والا طیارہ بھی شامل تھا۔

پلان تھا کہ چھ میزائل  ٹارگٹ پر داغے جائیں گے۔ پانچ طیاروں سے تو میزائل ریلیز ہو گئے، مگر چھٹا میزائل طیار ہ سے باہر ہی نہیں آیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ 35برس پرانے میراج طیارہ کے نیوی گیشن سسٹم میں نقص آگیا تھا۔ گو کہ ہندوستانی میڈیا اور سیاستدانوں نے فصائیہ کی یہ کہہ کر ستائش کی کہ اس نے  گھر میں گھس کر مارا، یعنی پاکستان کے اندر جاکر بم گرائے، مگر حقیقت ہے کہ یہ میزائل چالیس کلومیٹر دور سے ہندوستانی کنٹرول والے علاقے سے ہی داغے گئے۔

تکنیکی طور پر اسرائیلی ساخت کے یہ میزائل عمودی طور پر سیدھے زمین پر نہیں آتے ہیں، بلکہ ان کو بیضوی راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ لہذا ان کو دور سے ہی داغا جانا تھا۔ نئی دہلی میں جشن منایا گیا اور بتایا گیا کہ جیش محمد کے کئی سو اراکین مارے گئے۔

سنگھ کے مطابق، سیٹلائٹ ڈیٹا سے یہ تو پتہ چلا کہ میزائل بالا کوٹ کے پہاڑوں کی طرف گئے، مگر وہ ہدف پر گرے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ گہرے بادلوں کی وجہ سے طیارے اس کی تصویر نہیں لے سکے۔ اس دوران پاکستانی فضائیہ اس علاقے میں متحرک ہو چکی تھی۔ کسی دوست ملک کے سٹیلائٹ کو بھی ٹارگیٹ کی تصویر نہیں مل پائی۔

 لہذا دنیا بھر کے دفاعی ماہرین ہندوستانی فضائیہ کی اس کارروائی کی کامیابی کے حوالے سے شک و شبہ کا اظہار کرتے ہیں۔ امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک متفق ہیں کہ میزائل ٹارگٹ سے خاصے دور گرے۔  ایک   فضائیہ کے ایک ریٹائرڈ افسر، جو اس مشن میں شامل تھے نے سنگھ کوبتایا کہ انہوں نے اگلے دن دوبارہ حملہ کرنے کا مشورہ دیا تھا، مگر سیاسی قیادت نے سختی کے ساتھ منع کردیا۔

 آسٹریلین اسٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ (اے ایس پی آئی) اور اٹلانٹک کونسل کی ڈیجیٹل فارنزک لیب،  کے مطابق تینوں ایس پی آئی سی ای-2000 بم تقریباً ایک جیسے زاویے پر لیکن ہدف سے تیس سے چالیس میٹر دور جا گرے۔ اس کی وجہ ہندوستانی فضائیہ کا صرف جی پی ایس پر انحصار تھا، جبکہ ان بموں کے لیے درست ہدف تک پہنچنے کے لیے 3ڈی ماڈلز اور جدید گائیڈنس ٹکنالوجی درکار تھی، جو ہندوستان کے پاس نہیں تھی۔

رپورٹ کے مطابق، ہدف کی بلندی کا اندازہ بھی غلط تھا۔ اگر جی پی ایس میں غلط اونچائی درج کی جائے، تو بم بھی غلط جگہ گرتے ہیں، چاہے طیارہ ہدف کے بالکل اوپر ہو۔ یہ تمام شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ حملہ تکنیکی لحاظ سے ناکام رہا۔

جوابی کارروائی کے طور پر  چند گھنٹوں بعدپاکستان نے ایل او سی پر جارحانہ حکمت عملی اختیار کی۔ 27 فروری کی علی الصبح، پاکستان نے اوڑی سیکٹر میں ہندوستانی چیک پوسٹوں پر توپ خانے سے گولہ باری کی۔ یہ صرف ایک چال تھی۔

پاکستان کا دعویٰ ہے کہ پاک فضائیہ نے جموں و کشمیر میں ہندوستانی اہداف کے قریب چھ فضائی حملے کیے۔  24 پاکستانی طیاروں نے ایل او سی کے اس پار چار کلومیٹر تک پرواز کی۔  راجوری کے نادن، لام، جھنگار، کیری اور ہمیرپور علاقوں، اور بھمبر گھاٹی میں بم گراکر طیارہ واپس چلے گئے۔

چونکہ یہ کارروائی بہت کم وقت میں کی گئی، اس کا مطلب یہ ہے کہ اہداف پہلے سے طے اور نشاندہی شدہ تھے۔ پاکستانی حکام نے کہا کہ ان کے لڑاکا طیاروں کو خالی علاقوں میں بم گرانے کا حکم دیا گیا تاکہ جانی نقصان یا سویلین تباہی نہ ہو۔پاکستانی ایر فورس کے حکام نے ایک ویڈیو بھی ریلیز کی جس میں دکھایا گیا کہ طیاروں نے عسکری تنصیبات پر نشانہ لگایا اور پھر شعوری طور پر قریبی بنجر علاقوں میں بم گرائے تاکہ کوئی جانی نقصان نہ ہو۔

پاکستانی فضائیہ  نے راجستھان کے انوگڑھ علاقے میں بھی ایک حملے کی کوشش کی، جو شاید ایک چال تھی، کیونکہ وہاں کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ہندوستانی فضائیہ کو شمالی ہندوستان میں اپنے مختلف فضائی اڈوں پر حملے کا خدشہ تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بیشتر جنگی طیارے پہلے ہی  مستعد گشت پر تھے تاکہ کسی بھی خطرے کی صورت میں فوری ردعمل دے سکیں۔ اسے ‘آپریشنل ریڈی نیس پیٹرول’ کہا جاتا ہے۔

چار ہندوستانی جنگی طیارے—دو میراج 2000 شمالی کشمیر میں بانڈی پورہ کے قریب، اور دو ایس یو -30 ایم کے آئی راجوری کے نوشہرہ علاقے میں —ایل او سی پر دفاعی جنگی گشت پر تھے۔ مزید دو ایس یو -30 ایم کے آئی طیارے ایک ائیر بورن وارننگ اینڈ کنٹرول سسٹم کے ساتھ، جو کہ ایک فضائی کمانڈ پوسٹ ہے تمام فضائی کارروائیوں کی نگرانی کرتا ہے۔

ہندوستانی فضائیہ کے پاس صرف پانچاے ڈبلیو اے سی ایس طیارے ہیں، جبکہ پاکستان کے پاس نو ہیں۔رپورٹس کے مطابق، ہندوستانی اے ڈبلیو اے سی ایس کو پاکستانی طیاروں کا مسلسل سراغ رکھنے میں مشکلات کا سامنا تھا کیونکہ کشمیر کی پہاڑی زمین اور زمینی رکاوٹوں سے ریڈار کی رینج متاثر ہوتی ہے۔

پاکستانی فضائیہ کے اسٹرائیک اسکواڈ میں چار میراج-III اور چار جے ایف-17 لڑاکا طیارے شامل تھے، جن کے ساتھ چار ایف-16 طیارے بطور حفاظتی اسکواڈ تھے۔

جموں و کشمیر میں زمینی طور پر ایم آئی جی- 21 بی آئی ایس او این ایس کو فوری پرواز کا حکم دیا گیا، جن میں ایک ابھینندن ورتمان چلا رہے تھے۔ جب وہ ایل او سی عبور کر گئے تو ان کا طیارہ میزائل سے نشانہ بنا، اور وہ ایجیکٹ ہو کر پاکستانی قبضے میں آ گئے۔

 پاکستانی فضا ئیہ نے علاقے میں تمام ریڈیو رابطے جام کر دیے تھے، جس سے ابھینندن کو کنٹرولر سے واپسی کے احکامات موصول نہ ہو سکے۔ ہندوستانی فضا ئیہ کے پائلٹ اور ایئر ڈیفنس کنٹرولرز مکمل الجھن میں آ گئے تھے۔ ایم آئی جی- 21  طیارہ ایک محفوظ ڈیٹا لنک سے محروم تھا، جو جدید فضائی جنگ کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔

 فضا ئیہ کے اعلیٰ افسران اس خامی پر شدید برہم تھے، جس کا الزام دفاعی تحقیقاتی ادارے اور تاخیر سے ہونے والی خریداریوں پر عائد کیا گیا۔ ایر فورس کے چیف، آر کے ایس بھدوریا، جو بعد میں بی جے پی میں شامل ہوگئے  نے اعتراف کیا کہ 27 فروری کو آپریشنل ڈیٹا لنک کی کمی نے ہندوستانی فضا ئیہ کی کارروائی کو متاثر کیا۔

پاکستان نے ابتدائی طور پر دو ہندوستانی پائلٹوں کی گرفتاری کا دعویٰ کیا، لیکن بعد میں اسے ایک تک محدود کر دیا۔ہندوستان نے دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستانی ایف16کو مار گرایا، لیکن اس دعوے کا کوئی ثبوت حاصل نہ ہو سکا۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی طیارہ پاکستانی حدود میں زمینی افواج کے ذریعے گرایا گیا۔مگر فارن پالیسی نے امریکی دفاعی حکام کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان کے سبھی ایف 16طیارے ثابت و سلامت ہیں۔

ہندوستان نے بعد میں تسلیم کیا کہ ایم آئی جی-21  کا ایک پائلٹ لاپتہ ہے، جسے پاکستان نے اپنی تحویل میں بتایا۔ یہ سب کچھ چند منٹوں میں ہوا۔ایک اور ناکامی ہندوستان کے سری نگر ایئربیس پر ہوئی، جب فضا ئیہ نے اپنے ہی ایم آئی -17 وی-5 ہیلی کاپٹر کو مار گرایا۔ تمام چھ افراد، بشمول ایک سویلین، ہلاک ہو گئے۔

 تحقیق سے معلوم ہوا کہ مسئلہ ‘فرینڈ یا فو’ سسٹم کا تھا، جو سول فریکوئنسیوں کے ساتھ الجھ گیا۔ جنگ کے دباؤ میں، افسر نے اسے دشمن طیارہ سمجھ کر مار گرایا، بعد میں سزا دی گئی۔ اس نقصان کا علم ہو گیا تھا لیکن اس کو2019 کے انتخابی نتائج آنے تک خفیہ رکھا گیا۔

 ایک اور واقعہ جس کی کوریج نہیں ہوئی، وہ بارمیر، راجستھان میں پیش آیا۔ ایک سخوئی طیارے نے اپنے ہی ایم آئی جی- 21  پر میزائل داغ دیا، لیکن خوش قسمتی سے وہ بچ گیا۔

ایک سابق رکن اسمبلی نے واقعے پر لکھا، بعد میں ایک افسر نے تصدیق کی کہ اگر یہ میزائل نشانہ لگا لیتا، تو ایر فورس کا سربراہ برخاست ہوتا۔اس لیے  میڈیا کی توجہ جان بوجھ کر ابھینندن کی گرفتاری پر رکھی گئی۔

ستائیس  فروری کو شام پاکستانی سکریٹری خارجہ  تہمیہ جنجوعہ، نے امریکی، برطانوی اور فرانسیسی سفیروں کو بتایا کہ ‘ہندوستان کے نو میزائلوں کو پاکستان پر نشانہ بنانے کے لیے تیار رکھا گیا ہے۔ پاکستان نے انتباہ دیا کہ وہ اپنی میزائل طاقت سے ‘تین گنا زیادہ’ جوابی کارروائی کرے گا، اور اپنی فوج کو ہائی الرٹ پر رکھا۔

مودی نے ایک انتخابی ریلی میں کہا؛’پاکستان ہمیں دھمکی دیتا ہے، کہ اس کے پاس ایٹم بم ہے اور وہ بٹن دبائے گا۔’ 17 اپریل کو انہوں نے کہا، ‘اب ہندوستان رونے والا نہیں، پاکستان کو رونا ہو گا۔ ہمارے پاس سب ایٹم بموں کی ماں ہے۔ میں نے کہا، پاکستان کو کہہ دو، جو کرنا ہے کرو، ہندوستان بدلہ لے گا۔’

ابھینندن کی گرفتاری اور رہائی ہندوستان-پاکستان تعلقات میں ایک نازک لمحہ تھی۔ حیران کن طور پر، دونوں ممالک کے حکومت حامی میڈیا نے کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کیا، اور پائلٹ کی واپسی کو بحران کے خاتمے کے طور پر پیش کیا۔

 پاکستانی میڈیا نے ابھینندن کی گرفتاری کو اپنی فوج کی کامیابی کے طور پر دکھایا، جبکہ ہندوستانی میڈیا نے انہیں قومی ہیرو کے طور پر پیش کیا۔کارگل جنگ کی طرح، اس بار بھی ہندوستانی حکومت اور فوج کو قومی جذبات کی حمایت حاصل تھی، اور میڈیا نے حب الوطنی کو آزادرپورٹنگ پر ترجیح دی۔ ارنب گوسوامی اوروہاٹس ایپ چیٹس کے ذریعے یہ بات سامنے آئی کہ میڈیا کو حکومت کے فائدے کے لیے استعمال کیا گیا۔

 اس نے یہ بھی ظاہر کیا کہ کس طرح ہندوستانی میڈیا نے قوم پرستی کے نام پر تحقیقاتی صحافت کو ترک کر دیا ہے۔ہندوستانی میڈیا نے ممکن ہے اپنے عوام کو خوش کرنے کی کوشش کی ہو، مگر بین الاقوامی ساکھ اور فوجی نتائج نے واضح کر دیا کہ ہندوستان کو عملی طور پر نقصان ہوا۔

پاکستانی فضائیہ نے اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا جبکہ ہندوستان کی قیادت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔اگر اس بحران میں ہندوستان کے پائلٹ ابھینندن مارے جاتے، تو ردعمل شدید ہوتا، اور مودی اس بحران کو ختم نہیں کر پاتے۔ ایک معمولی غلطی بڑے پیمانے پر جنگ کو جنم دے سکتی تھی۔

سوشانت سنگھ کے مطابق، ہندوستان کی فوجی ناکامی واضح تھی، چاہے اسے انتخابی فائدے کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔ ایک کمزور حریف کے خلاف بھی فضا ئیہ فیصلہ کن برتری نہیں دکھا سکی۔ہندوستانی فوجی قیادت غیر ذمہ دار اور غیر پیشہ ور نظر آئی، جو سیاسی قیادت کی خواہشات کے سامنے کوئی مؤثر مزاحمت نہ کر سکی۔

اس تحقیقی مضمون کے آخر میں سنگھ تحریر کرتے ہیں کہ،’ایک سیاسی طور پر کمزور مودی،جو کمزور معیشت سے نبرد آزما ہے، کسی بہانے سے ایک بار پھر ملک کی توجہ پاکستان کی طرف مبذول کروانے کی کوشش کراسکتا ہے۔’ ان کی  یہ پیشن گوئی ایک ماہ بعد ہی حقیقت کی شکل میں سامنے آگئی ہے۔

Next Article

ہندوستانی حملے کے بعد دعویٰ – مسعود اظہر کے خاندان کے 10 افراد اور چار قریبی ساتھی مارے گئے

ہندوستانی فوج کی جانب سے ‘آپریشن سیندور’ کے تحت پاکستان میں دہشت گردوں کے نو ٹھکانوں کو نشانہ بنائے جانے کے بعد جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کے حوالے سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بہاولپور میں ہوئے حملے میں اس کے خاندان کے دس افراد اور چار ساتھی مارے گئے ہیں۔

مولانا اظہر مسعود (فائل فوٹو: پی ٹی آئی/اے پی)

مولانا اظہر مسعود (فائل فوٹو: پی ٹی آئی/اے پی)

نئی دہلی: کالعدم تنظیم جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بہاولپور کی سبحان اللہ مسجد پر ہندوستان کے حملے میں ان کے خاندان کے 10 افراد اور 4 قریبی ساتھی بھی مارے گئے۔

بی بی سی اردو نے حملے کے بعد جیش محمد سے منسلک کچھ وہاٹس ایپ گروپ پر گردش کر رہے مسعود اظہر کے بیان کے حوالے سے یہ خبر دی ہے۔ بیان میں، وہ (مسعود اظہر) مبینہ طور پر دعویٰ کر رہاہے کہ حملے میں اس  کے خاندان کے 10 افراد اور چار دیگر قریبی ساتھی مارے گئے۔

کچھ ہندوستانی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ اظہر نے دعویٰ کیا کہ مرنے والوں میں اس کی بڑی بہن اور اس کے شوہر، مسعود اظہر کا بھانجہ اور اس کی بیوی، ایک اور بھانجی اور خاندان کے پانچ بچےبھی  شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، حملے میں مسعود اظہر کے ایک قریبی ساتھی، اس کی ماں اور دو دیگر قریبی ساتھی بھی مارے گئے ہیں۔

بی بی سی اردو اور دی وائر آزادانہ طور پر سے اس بیان کی تصدیق نہیں کر سکا ہے۔

بی بی سی اردو نے کہا کہ بیان میں مرنے والوں کی تفصیلات اور مولانا مسعود اظہر کے ساتھ ان کی مبینہ رشتہ داری کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے، تاہم، اس حوالے سے  ہسپتال یا مقامی انتظامیہ سے  تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

معلوم ہو کہ ’آپریشن سیندور‘ کے تحت کارروائی کرتے ہوئے ہندوستانی فوج نے بدھ کی صبح پاکستانی سرحد کے اندر تقریباً 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بہاولپور کو بھی نشانہ بنایا ہے۔

پنجاب کا یہ بڑا شہر دہشت گردوں کی رہائش  کےلیے جانا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جیش محمد کا ہیڈ کوارٹر شہر کے احمد پور علاقے میں ہے۔ سال 2000 کے اواخر میں آئی سی -814 کے ہائی جیکروں کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے مسافروں کی رہائی کے بدلے ہندوستان کی طرف سے رہائی پانے والے دہشت گردوں میں سے ایک مسعود اظہر کا قائم کیا ہوا جیش محمد گزشتہ دو دہائیوں میں ہندوستان میں ہوئے  دہشت گردی کے کئی واقعات میں ملوث رہا ہے۔