دنیا بھر کے دفاعی ماہرین ہندوستانی فضائیہ کی اس کارروائی کی کامیابی کے حوالے سے شک و شبہ کا اظہار کرتے ہیں۔ امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک متفق ہیں کہ میزائل ٹارگٹ سے خاصے دور گرے۔

علامتی تصویر، فوٹو بہ شکریہ: indianairforce.nic.in
یہ کیسا اتفاق ہے کہ 22 اپریل کو کشمیر کے پہلگام پہاڑوں میں سیاحوں پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ہندوستان اورپاکستان کے درمیان پیدا ہوئی کشیدگی سے بس ایک ماہ قبل معروف دفاعی تجزیہ کار سوشانت سنگھ کا 2019 میں ہوئے پلوامہ حملوں اور بالاکوٹ فضائی آپریشن پر ایک تحقیقی مضمون مؤقر جرنل کارواں کے مارچ شمارے میں شائع ہوا تھا۔
بالاکوٹ پر فضائی حملوں کے بعد ہندوستانی فضائیہ کی اپنی جائزہ رپورٹ اور متعدد انٹرویوز پر مشتمل اس مضمون میں بتایا گیا نہ صرف فضائیہ نے ہدف کو مس کیا، بلکہ خود اپنے ہی ایک ہیلی کاپٹر کو نشانہ بنایا، جس میں کئی افسران ہلاک ہوگئے۔
ایک اور واردات اسی دن راجستھان سیکٹر میں ہوتے ہوتے رہ گئی، جہاں روسی ساخت کے جدید ترین سخوئی فائٹر نے اپنے ہی ایک مگ طیارہ کو کو نشانہ بنادیا تھا، مگر میزائل بس چند سینٹی میٹر کے فاصلے سے چوک گیا۔ اس واردات کو انتہائی خفیہ رکھا گیا۔ اس سب کے بعد اپنا ایک پائلٹ بھی پاکستان کی تحویل میں دےکر پورے ملک کو بیک فٹ کر کھڑا کر کے رکھ دیا۔
سوشانت سنگھ، جو خود بھی ایک ملٹری افسر رہ چکے ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں، کے مطابق ان حملوں نے تو بس ایک کارنامہ انجام دیا، وہ یہ تھا کہ انتخابات سے قبل وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ایک ایسا ماحول بنانے میں مدد دی، جس سے وہ دوسری بار عوام میں پولرائزیشن کرنے میں کامیاب ہوئے اور اس کے نتیجہ میں بھاری اکثریت کے ساتھ انتخابات جیت گئے۔
سال 2002میں جب وہ پہلی بار اسمبلی انتخاب میں قسمت آزمائی کر رہے تھے، گجرات کے شہر احمد آباد میں اکشر دھام مندر پر حملہ ہوا تھا، جس میں 30ہندو مارے گئے تھے۔ مودی نے اس کے لیے اس وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشرف کو ذمہ دار ٹھہرایا اور انتخابات میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ پاکستان ان کے لیے انتخابات جیتنے اور ہندوستانی عوام کی نفسیات کو ایڈریس کرنے کا ایک آزمودہ ہتھیار بن چکا ہے۔
ہندوستانی فضائیہ کے ایک اعلیٰ افسر جو بالا کوٹ کے بعد قائم جائزہ کمیٹی کے رکن تھے، کے مطابق پہلے روز یعنی 26فروری 2019کو ہندوستانی فضائیہ نے 100میں سے 80نمبرات حاصل کیے، کیونکہ حملہ اور اس کی نوعیت نے پاکستان کو حیرت زدہ کردیا۔
اس دن پاکستانی فضائیہ کو 100میں سے بس 25نمبرات حاصل ہوئے۔مگر اگلے روز پاکستانی فضائیہ نے کسرپوری کردی۔اس دن ہندوستانی فضائیہ کی کارکردگی 25سے نیچے ہوگئی۔اس روز پاکستانی فضائیہ کی کارکردگی ہم آہنگی کا ایک بہترین نمونہ تھی۔
پاکستانی فضائیہ نے لائن آف کنٹرول اور پنجاب کی سرحد کی طرف آتے ہوئے دو ہندوستانی جہازوں کی ٹیموں کو دیکھ لیا تھا اور وہ ان کو روکنے کے لیے فضا میں پرواز کر گئے تھے۔ مگر ایک تیسری ٹیم اسی وقت وادی کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے اوپر پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے وادی نیلم کی طرف رواں تھے اور تین منٹ کے وقفے میں انہوں نے ایک غیر آباد علاقے کو نشانہ بناکر کئی میزائل گرادیے۔
سنگھ کے مطابق، اس پورے واقعہ نے ہندوستان کی قومی سلامتی کے اسٹرکچر کی خامیوں کو اجاگر کردیا۔ گو کہ عوامی طور پر ان حملوں کو بہادری سے تعبیر کیا گیا،مگر اندرون خانہ اس نے تشویش کی لہر دوڑا دی اور عالمی سطح پر بھی فضائیہ کی کارکردگی کی پول کھل گئی۔
ان کہ کہنا ہے کہ 2016میں اوڑی کے فوجی کیمپ پر حملہ کے بعد ہوئی سرجیکل اسٹرئکس کے بعد پاکستان نے جس طرح خاموشی اختیار کی، اس بار بھی اندازہ تھا کہ پاکستان یہ خون کے گھونٹ پی جائےگا اور کوئی جوابی کارروائی نہیں کرےگا۔
بالی ووڈ نے تو اوڑی سرجیکل اسٹرئک پر فلم بھی بنائی، جو پلوامہ حملوں سے قبل ریلیز کی گئی۔ بالاکوٹ پر حملہ کرکے مودی شاید فلم میں ان کے اپنے کردار کو اب حقیقی روپ دینا چاہتے تھے۔ ان کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ کہ حملہ ان کے کنٹرول سے باہر ہوسکتا ہے۔
سنگھ کے مطابق، پلوامہ حملوں کے ایک د ن بعد ہی فضائی کارروائی کا پلان بنایا گیا تھا۔ اس کے لیے فضائیہ کو تیاری وغیرہ کے لیے دو ہفتے کا وقت دیا گیا تھا۔ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کی ایما پر فیصلہ کیا گیا تھا کہ خیبر پختونخواہ صوبہ کے بالاکوٹ علاقہ میں جیش محمد کے ٹھکانے پر حملہ کیا جائےگا، جو ایک نان ملٹری ٹارگیٹ ہوگا اور عالمی برادری کو قابل قبول ہوگا اور پاکستان کو جوابی حملہ کرنے کا جواز نہیں ملے گا۔
یہ بھی بتایا گیا کہ ٹارگیٹ ایک پہاڑی کے اوپر واقع ہے اور زیادہ سویلین ہلاکتیں ہونے کا اندیشہ نہیں ہے۔ بالا کوٹ کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ یہ لائن آف کنٹرول سے قریب ہی واقع ہے۔ ڈوبھال کو آپریشن کی نگرانی اور سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان تال میل کی ذمہ داری اور آنجہانی ارون جیٹلی کو میڈیا کو سنبھالنے کی ذمہ داری تفویض کی گئی۔
ایک دون قبل حکومت نے کئی سربراہان مملکت اور سفارت کاروں کو پلوامہ حملوں پر مشتمل ایک ڈوزیر تھما دیا، جس میں جیش محمد کو خود کش حملہ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔
چھبیس فروری رات کے آخری پہر مدھیہ پردیش کے گوالیار شہر کے فوجی مستقر سے ہندوستانی فضائیہ کے 12میراج 2000جہازوں نے اڑان بھری، جو اسرائیلی ایس پی اے سی ای 2000میزائلوں سے لیس تھے۔ یہ میزائل جہاز سے ریلیز ہونے کے بعد کنٹرول روم سے گائیڈ کیے جاتے ہیں۔ ان کے ہمرا سخوئی 30فائٹر اور مواصلاتی طیارہ اور ہوا میں ایندھن بھرنے والا طیارہ بھی شامل تھا۔
پلان تھا کہ چھ میزائل ٹارگٹ پر داغے جائیں گے۔ پانچ طیاروں سے تو میزائل ریلیز ہو گئے، مگر چھٹا میزائل طیار ہ سے باہر ہی نہیں آیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ 35برس پرانے میراج طیارہ کے نیوی گیشن سسٹم میں نقص آگیا تھا۔ گو کہ ہندوستانی میڈیا اور سیاستدانوں نے فصائیہ کی یہ کہہ کر ستائش کی کہ اس نے گھر میں گھس کر مارا، یعنی پاکستان کے اندر جاکر بم گرائے، مگر حقیقت ہے کہ یہ میزائل چالیس کلومیٹر دور سے ہندوستانی کنٹرول والے علاقے سے ہی داغے گئے۔
تکنیکی طور پر اسرائیلی ساخت کے یہ میزائل عمودی طور پر سیدھے زمین پر نہیں آتے ہیں، بلکہ ان کو بیضوی راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ لہذا ان کو دور سے ہی داغا جانا تھا۔ نئی دہلی میں جشن منایا گیا اور بتایا گیا کہ جیش محمد کے کئی سو اراکین مارے گئے۔
سنگھ کے مطابق، سیٹلائٹ ڈیٹا سے یہ تو پتہ چلا کہ میزائل بالا کوٹ کے پہاڑوں کی طرف گئے، مگر وہ ہدف پر گرے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ گہرے بادلوں کی وجہ سے طیارے اس کی تصویر نہیں لے سکے۔ اس دوران پاکستانی فضائیہ اس علاقے میں متحرک ہو چکی تھی۔ کسی دوست ملک کے سٹیلائٹ کو بھی ٹارگیٹ کی تصویر نہیں مل پائی۔
لہذا دنیا بھر کے دفاعی ماہرین ہندوستانی فضائیہ کی اس کارروائی کی کامیابی کے حوالے سے شک و شبہ کا اظہار کرتے ہیں۔ امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک متفق ہیں کہ میزائل ٹارگٹ سے خاصے دور گرے۔ ایک فضائیہ کے ایک ریٹائرڈ افسر، جو اس مشن میں شامل تھے نے سنگھ کوبتایا کہ انہوں نے اگلے دن دوبارہ حملہ کرنے کا مشورہ دیا تھا، مگر سیاسی قیادت نے سختی کے ساتھ منع کردیا۔
آسٹریلین اسٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ (اے ایس پی آئی) اور اٹلانٹک کونسل کی ڈیجیٹل فارنزک لیب، کے مطابق تینوں ایس پی آئی سی ای-2000 بم تقریباً ایک جیسے زاویے پر لیکن ہدف سے تیس سے چالیس میٹر دور جا گرے۔ اس کی وجہ ہندوستانی فضائیہ کا صرف جی پی ایس پر انحصار تھا، جبکہ ان بموں کے لیے درست ہدف تک پہنچنے کے لیے 3ڈی ماڈلز اور جدید گائیڈنس ٹکنالوجی درکار تھی، جو ہندوستان کے پاس نہیں تھی۔
رپورٹ کے مطابق، ہدف کی بلندی کا اندازہ بھی غلط تھا۔ اگر جی پی ایس میں غلط اونچائی درج کی جائے، تو بم بھی غلط جگہ گرتے ہیں، چاہے طیارہ ہدف کے بالکل اوپر ہو۔ یہ تمام شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ حملہ تکنیکی لحاظ سے ناکام رہا۔
جوابی کارروائی کے طور پر چند گھنٹوں بعدپاکستان نے ایل او سی پر جارحانہ حکمت عملی اختیار کی۔ 27 فروری کی علی الصبح، پاکستان نے اوڑی سیکٹر میں ہندوستانی چیک پوسٹوں پر توپ خانے سے گولہ باری کی۔ یہ صرف ایک چال تھی۔
پاکستان کا دعویٰ ہے کہ پاک فضائیہ نے جموں و کشمیر میں ہندوستانی اہداف کے قریب چھ فضائی حملے کیے۔ 24 پاکستانی طیاروں نے ایل او سی کے اس پار چار کلومیٹر تک پرواز کی۔ راجوری کے نادن، لام، جھنگار، کیری اور ہمیرپور علاقوں، اور بھمبر گھاٹی میں بم گراکر طیارہ واپس چلے گئے۔
چونکہ یہ کارروائی بہت کم وقت میں کی گئی، اس کا مطلب یہ ہے کہ اہداف پہلے سے طے اور نشاندہی شدہ تھے۔ پاکستانی حکام نے کہا کہ ان کے لڑاکا طیاروں کو خالی علاقوں میں بم گرانے کا حکم دیا گیا تاکہ جانی نقصان یا سویلین تباہی نہ ہو۔پاکستانی ایر فورس کے حکام نے ایک ویڈیو بھی ریلیز کی جس میں دکھایا گیا کہ طیاروں نے عسکری تنصیبات پر نشانہ لگایا اور پھر شعوری طور پر قریبی بنجر علاقوں میں بم گرائے تاکہ کوئی جانی نقصان نہ ہو۔
پاکستانی فضائیہ نے راجستھان کے انوگڑھ علاقے میں بھی ایک حملے کی کوشش کی، جو شاید ایک چال تھی، کیونکہ وہاں کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ہندوستانی فضائیہ کو شمالی ہندوستان میں اپنے مختلف فضائی اڈوں پر حملے کا خدشہ تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بیشتر جنگی طیارے پہلے ہی مستعد گشت پر تھے تاکہ کسی بھی خطرے کی صورت میں فوری ردعمل دے سکیں۔ اسے ‘آپریشنل ریڈی نیس پیٹرول’ کہا جاتا ہے۔
چار ہندوستانی جنگی طیارے—دو میراج 2000 شمالی کشمیر میں بانڈی پورہ کے قریب، اور دو ایس یو -30 ایم کے آئی راجوری کے نوشہرہ علاقے میں —ایل او سی پر دفاعی جنگی گشت پر تھے۔ مزید دو ایس یو -30 ایم کے آئی طیارے ایک ائیر بورن وارننگ اینڈ کنٹرول سسٹم کے ساتھ، جو کہ ایک فضائی کمانڈ پوسٹ ہے تمام فضائی کارروائیوں کی نگرانی کرتا ہے۔
ہندوستانی فضائیہ کے پاس صرف پانچاے ڈبلیو اے سی ایس طیارے ہیں، جبکہ پاکستان کے پاس نو ہیں۔رپورٹس کے مطابق، ہندوستانی اے ڈبلیو اے سی ایس کو پاکستانی طیاروں کا مسلسل سراغ رکھنے میں مشکلات کا سامنا تھا کیونکہ کشمیر کی پہاڑی زمین اور زمینی رکاوٹوں سے ریڈار کی رینج متاثر ہوتی ہے۔
پاکستانی فضائیہ کے اسٹرائیک اسکواڈ میں چار میراج-III اور چار جے ایف-17 لڑاکا طیارے شامل تھے، جن کے ساتھ چار ایف-16 طیارے بطور حفاظتی اسکواڈ تھے۔
جموں و کشمیر میں زمینی طور پر ایم آئی جی- 21 بی آئی ایس او این ایس کو فوری پرواز کا حکم دیا گیا، جن میں ایک ابھینندن ورتمان چلا رہے تھے۔ جب وہ ایل او سی عبور کر گئے تو ان کا طیارہ میزائل سے نشانہ بنا، اور وہ ایجیکٹ ہو کر پاکستانی قبضے میں آ گئے۔
پاکستانی فضا ئیہ نے علاقے میں تمام ریڈیو رابطے جام کر دیے تھے، جس سے ابھینندن کو کنٹرولر سے واپسی کے احکامات موصول نہ ہو سکے۔ ہندوستانی فضا ئیہ کے پائلٹ اور ایئر ڈیفنس کنٹرولرز مکمل الجھن میں آ گئے تھے۔ ایم آئی جی- 21 طیارہ ایک محفوظ ڈیٹا لنک سے محروم تھا، جو جدید فضائی جنگ کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔
فضا ئیہ کے اعلیٰ افسران اس خامی پر شدید برہم تھے، جس کا الزام دفاعی تحقیقاتی ادارے اور تاخیر سے ہونے والی خریداریوں پر عائد کیا گیا۔ ایر فورس کے چیف، آر کے ایس بھدوریا، جو بعد میں بی جے پی میں شامل ہوگئے نے اعتراف کیا کہ 27 فروری کو آپریشنل ڈیٹا لنک کی کمی نے ہندوستانی فضا ئیہ کی کارروائی کو متاثر کیا۔
پاکستان نے ابتدائی طور پر دو ہندوستانی پائلٹوں کی گرفتاری کا دعویٰ کیا، لیکن بعد میں اسے ایک تک محدود کر دیا۔ہندوستان نے دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستانی ایف16کو مار گرایا، لیکن اس دعوے کا کوئی ثبوت حاصل نہ ہو سکا۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی طیارہ پاکستانی حدود میں زمینی افواج کے ذریعے گرایا گیا۔مگر فارن پالیسی نے امریکی دفاعی حکام کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان کے سبھی ایف 16طیارے ثابت و سلامت ہیں۔
ہندوستان نے بعد میں تسلیم کیا کہ ایم آئی جی-21 کا ایک پائلٹ لاپتہ ہے، جسے پاکستان نے اپنی تحویل میں بتایا۔ یہ سب کچھ چند منٹوں میں ہوا۔ایک اور ناکامی ہندوستان کے سری نگر ایئربیس پر ہوئی، جب فضا ئیہ نے اپنے ہی ایم آئی -17 وی-5 ہیلی کاپٹر کو مار گرایا۔ تمام چھ افراد، بشمول ایک سویلین، ہلاک ہو گئے۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ مسئلہ ‘فرینڈ یا فو’ سسٹم کا تھا، جو سول فریکوئنسیوں کے ساتھ الجھ گیا۔ جنگ کے دباؤ میں، افسر نے اسے دشمن طیارہ سمجھ کر مار گرایا، بعد میں سزا دی گئی۔ اس نقصان کا علم ہو گیا تھا لیکن اس کو2019 کے انتخابی نتائج آنے تک خفیہ رکھا گیا۔
ایک اور واقعہ جس کی کوریج نہیں ہوئی، وہ بارمیر، راجستھان میں پیش آیا۔ ایک سخوئی طیارے نے اپنے ہی ایم آئی جی- 21 پر میزائل داغ دیا، لیکن خوش قسمتی سے وہ بچ گیا۔
ایک سابق رکن اسمبلی نے واقعے پر لکھا، بعد میں ایک افسر نے تصدیق کی کہ اگر یہ میزائل نشانہ لگا لیتا، تو ایر فورس کا سربراہ برخاست ہوتا۔اس لیے میڈیا کی توجہ جان بوجھ کر ابھینندن کی گرفتاری پر رکھی گئی۔
ستائیس فروری کو شام پاکستانی سکریٹری خارجہ تہمیہ جنجوعہ، نے امریکی، برطانوی اور فرانسیسی سفیروں کو بتایا کہ ‘ہندوستان کے نو میزائلوں کو پاکستان پر نشانہ بنانے کے لیے تیار رکھا گیا ہے۔ پاکستان نے انتباہ دیا کہ وہ اپنی میزائل طاقت سے ‘تین گنا زیادہ’ جوابی کارروائی کرے گا، اور اپنی فوج کو ہائی الرٹ پر رکھا۔
مودی نے ایک انتخابی ریلی میں کہا؛’پاکستان ہمیں دھمکی دیتا ہے، کہ اس کے پاس ایٹم بم ہے اور وہ بٹن دبائے گا۔’ 17 اپریل کو انہوں نے کہا، ‘اب ہندوستان رونے والا نہیں، پاکستان کو رونا ہو گا۔ ہمارے پاس سب ایٹم بموں کی ماں ہے۔ میں نے کہا، پاکستان کو کہہ دو، جو کرنا ہے کرو، ہندوستان بدلہ لے گا۔’
ابھینندن کی گرفتاری اور رہائی ہندوستان-پاکستان تعلقات میں ایک نازک لمحہ تھی۔ حیران کن طور پر، دونوں ممالک کے حکومت حامی میڈیا نے کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کیا، اور پائلٹ کی واپسی کو بحران کے خاتمے کے طور پر پیش کیا۔
پاکستانی میڈیا نے ابھینندن کی گرفتاری کو اپنی فوج کی کامیابی کے طور پر دکھایا، جبکہ ہندوستانی میڈیا نے انہیں قومی ہیرو کے طور پر پیش کیا۔کارگل جنگ کی طرح، اس بار بھی ہندوستانی حکومت اور فوج کو قومی جذبات کی حمایت حاصل تھی، اور میڈیا نے حب الوطنی کو آزادرپورٹنگ پر ترجیح دی۔ ارنب گوسوامی اوروہاٹس ایپ چیٹس کے ذریعے یہ بات سامنے آئی کہ میڈیا کو حکومت کے فائدے کے لیے استعمال کیا گیا۔
اس نے یہ بھی ظاہر کیا کہ کس طرح ہندوستانی میڈیا نے قوم پرستی کے نام پر تحقیقاتی صحافت کو ترک کر دیا ہے۔ہندوستانی میڈیا نے ممکن ہے اپنے عوام کو خوش کرنے کی کوشش کی ہو، مگر بین الاقوامی ساکھ اور فوجی نتائج نے واضح کر دیا کہ ہندوستان کو عملی طور پر نقصان ہوا۔
پاکستانی فضائیہ نے اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا جبکہ ہندوستان کی قیادت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔اگر اس بحران میں ہندوستان کے پائلٹ ابھینندن مارے جاتے، تو ردعمل شدید ہوتا، اور مودی اس بحران کو ختم نہیں کر پاتے۔ ایک معمولی غلطی بڑے پیمانے پر جنگ کو جنم دے سکتی تھی۔
سوشانت سنگھ کے مطابق، ہندوستان کی فوجی ناکامی واضح تھی، چاہے اسے انتخابی فائدے کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔ ایک کمزور حریف کے خلاف بھی فضا ئیہ فیصلہ کن برتری نہیں دکھا سکی۔ہندوستانی فوجی قیادت غیر ذمہ دار اور غیر پیشہ ور نظر آئی، جو سیاسی قیادت کی خواہشات کے سامنے کوئی مؤثر مزاحمت نہ کر سکی۔
اس تحقیقی مضمون کے آخر میں سنگھ تحریر کرتے ہیں کہ،’ایک سیاسی طور پر کمزور مودی،جو کمزور معیشت سے نبرد آزما ہے، کسی بہانے سے ایک بار پھر ملک کی توجہ پاکستان کی طرف مبذول کروانے کی کوشش کراسکتا ہے۔’ ان کی یہ پیشن گوئی ایک ماہ بعد ہی حقیقت کی شکل میں سامنے آگئی ہے۔