اتر پردیش میں مظاہرین کے مبینہ ‘غیر قانونی تعمیرات’ کے خلاف انتظامیہ کی انہدامی کارروائی پر از خود نوٹس لینے کی اپیل کرتے ہوئے ملک کے 12 سابق ججوں اور سینئر وکلاء نے سپریم کورٹ سے کہا ہے کہ انہیں امید ہے کہ عدالت ایسے نازک وقت میں شہریوں اور آئین کو مایوس نہیں کرے گی۔
الہ آباد میں ویلفیئر پارٹی کے رہنما جاوید محمد کے گھر میں انتظامیہ کی انہدامی کارروائی ۔ (تصویر: رائٹرس)
نئی دہلی: سپریم کورٹ، ہائی کورٹ کے ججوں کے ایک گروپ اور سینئر وکلاء نے عدالت عظمیٰ سے اپیل کی ہے کہ وہ اتر پردیش میں تشدد کے واقعات اورشہریوں پر حکومت کے جبرواستبداد کو از خود نوٹس میں لے۔
الہ آباد انتظامیہ کی جانب سے بی جے پی رہنماؤں کے پیغمبر اسلام پر تبصرے کے احتجاجی مظاہروں کا ‘
ماسٹر مائنڈ‘ قرار دینے کے بعد ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے رہنما جاوید محمد کی رہائش گاہ پر
بلڈوزر چلانے کے بعد یہ خط سامنےآیا ہے ۔
قابل ذکر ہے کہ پیغمبر اسلام پر تبصرہ کو لے کر 10 جون کو ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔ دریں اثنا اتر پردیش میں پولیس نے ‘کلیدی سازش کاروں’ کے ناموں کا اعلان کرتے ہوئے کانپور، سہارنپور اور الہ آباد میں توڑ پھوڑ کی مہم شروع کی اور یہ دعویٰ کیا کہ وہ غیر قانونی تعمیرات میں رہ رہے تھے۔
الہ آباد میں جاوید محمد کے گھر کوگرانے کے قانونی پہلوؤں پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ مکان ان کی
اہلیہ کے نام تھا ،جبکہ نوٹس ان کے نام سےبھیجا گیا اور اس نوٹس اور توڑ پھوڑ کی کارروائی کے درمیان بہت کم وقت دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق، اس خط پر دستخط کرنے والوں نے لکھا ہے کہ، مظاہرین کو سننے اور پرامن احتجاج میں شامل ہونے کا موقع دینے کے بجائے ریاستی انتظامیہ نے ایسے لوگوں کے خلاف پرتشدد کارروائی کی اجازت دی۔
خط میں ذکر کیا گیا ہے کہ ،اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی طرف سے افسران کی
حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ شرپسندوں کے خلاف کارروائی ایسی ہونی چاہیے، جو سماج دشمن سوچ رکھنے والے تمام عناصر کے لیے مثال بن جائے اور کوئی ماحول کو خراب کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔
خط میں کہا گیا، وزیر اعلیٰ نے ہدایت دی کہ غیر قانونی مظاہروں کے قصوروار پائے جانے والوں کے خلاف قومی سلامتی ایکٹ، 1980 اور اتر پردیش گینگسٹرس اینڈ اینٹی سوشل ایکٹیویٹیز (روک تھام) ایکٹ، 1986لگایا جائے۔اس طرح کے تبصروں نے پولیس کو مظاہرین کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرنے اور انہیں غیر قانونی طور پر تشدد کا نشانہ بنانے کی ترغیب دی۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اتر پردیش پولیس نے 300 سے زائد لوگوں کو گرفتار کیا ہے اور احتجاج کرنے والے شہریوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ،پولیس کی حراست میں نوجوانوں کو لاٹھیوں سے پیٹے جانے، مظاہرین کے گھروں کو بغیر کسی اطلاع اور کسی بھی وجہ سے مسمار کیے جانے اور پولیس کے ذریعےاقلیتی مسلم کمیونٹی کے مظاہرین کا پیچھا کیے جانے اور پیٹے جانے کے ویڈیو سوشل میڈیا پر نشر ہو رہے ہیں، جو ملک کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے۔
ججوں اور وکلاء نے حکومت کے ‘وحشیانہ جبر’ کو ‘قانون کی حکمرانی اور شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی’ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ،[اس نے] آئین اور ریاست کے ذریعہ فراہم کردہ بنیادی حقوق کا مذاق بنا دیا ہے۔
خط میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور شہری انتظامیہ کی اس کارروائی کا واضح طور پر نظر آنے والا بالواسطہ مقصد کیا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے ، پولیس اور ترقیاتی حکام نے جس طرح سے کارروائی ہے ، اس سے واضح طور پر یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ حکومت کی پالیسی کی وجہ سے توڑ پھوڑ کی یہ کارروائی اجتماعی غیر عدالتی سزا کی ایک شکل ہے، جو کہ غیر قانونی ہے۔
خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ‘نازک’ وقت ہے، جس میں عدلیہ کی اہلیت کا امتحان ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے حال ہی میں 2020 میں اچانک ہوئےلاک ڈاؤن کے دوران پھنسے مزدوروں کےمعاملے میں از خود نوٹس لینے اور پیگاسس کیس میں کی گئی کارروائیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے، حال کے دنوں میں عدلیہ نےکئی مواقع پر اس طرح کے چیلنجز کا سامناکیا ہےاور خصوصی طور پر شہریوں کے حقوق کا محافظ بن کر ابھرا ہے۔
خط میں گزارش کی گئی ہے کہ ، اسی جذبے کےساتھ اور آئین کے محافظ کے طور پر اس کےرول کی وجہ سے ہم اتر پردیش میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے بارے میں معزز سپریم کورٹ سے اپیل کرتے ہیں- خاص طور پر پولیس اور انتظامیہ کی زیادتیوں اور شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں پراز خود نوٹس لیتے ہوئے کارروائی کی اپیل کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، ہمیں امید اور بھروسہ ہے کہ سپریم کورٹ اس موقع پر اٹھ کھڑا ہوگا اور اس نازک وقت میں شہریوں اور آئین کو کمزور نہیں ہونے دے گا۔
دریں اثنا، جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ میں
دو نئی عرضیاں دائر کی ہیں جس میں اتر پردیش حکومت کو یہ ہدایت دینے کی مانگ کی گئی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ریاست میں اصول کی پیروی کیے بغیر مزید تعمیرات کو منہدم نہ کیا جائے اور اس طرح کی قواعدخاطر خواہ نوٹس دینے کے بعد ہی کی جائے۔
اس خط پر دستخط کرنے والوں میں مندرجہ ذیل لوگ شامل ہیں:
جسٹس بی سدرشن ریڈی، سپریم کورٹ کے سابق جج
جسٹس وی گوپال گوڑا، سپریم کورٹ کے سابق جج
جسٹس اے کے گانگولی، سپریم کورٹ کے سابق جج
جسٹس اے پی شاہ، دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور لاء کمیشن آف انڈیا کے سابق چیئرمین
جسٹس کے چندرو، مدراس ہائی کورٹ کے سابق جج
جسٹس محمد انور، کرناٹک ہائی کورٹ کے سابق جج
شانتی بھوشن، سینئر وکیل، سپریم کورٹ
اندرا جے سنگھ، سینئر وکیل، سپریم کورٹ
چندر ادے سنگھ، سینئر ایڈوکیٹ، سپریم کورٹ
سری رام پنچو، سینئر ایڈوکیٹ، مدراس ہائی کورٹ
پرشانت بھوشن، ایڈوکیٹ، سپریم کورٹ
آنند گروور، سینئر ایڈوکیٹ، سپریم کورٹ
اس خط کو نیچے دیے گئے لنک پر پڑھا جا سکتا ہے۔
Former SC Highcourt Judges … by
The Wire