وزیر اعظم کو اپنے کہے گئے لفظوں کے اثرات کے تئیں محتاط ہونا چاہیے: منموہن سنگھ

02:10 PM Jun 23, 2020 | دی وائر اسٹاف

لداخ میں چینی فوج  کے ساتھ پرتشدد جھڑپ میں ہلاک ہوئے   20  ہندوستانی جوانوں کے بارے میں جاری ایک بیان میں سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ  نے  کہا ہے کہ آج ہم تاریخ کے  ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ ہماری حکومت  کے فیصلے اور اس کے ذریعے اٹھائے گئے قدم طے کریں گے کہ آنےوالی نسلیں ہمارا تجزیہ  کیسے کریں گی۔

سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی:سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے لداخ میں چین کے ساتھ تعطل پر وزیر اعظم نریندر مودی کے حالیہ بیان کو لےکر ان کی تنقید کرتے ہوئے سوموار کو کہا کہ مودی کو اپنے بیان سے چین کے سازشی رخ کو طاقت نہیں دینی چاہیے اور سرکار کی تمام مشنری کو مل کر موجودہ چیلنجز کا سامنا کرنا چاہیے۔

چین کے ساتھ پرتشددجھڑپ میں 20 ہندوستانی جوانوں کے ہلاک ہونے اور کل جماعتی اجلاس میں وزیر اعظم نریندر مودی کے بیان کے مدنظر جاری ایک بیان میں منموہن سنگھ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم کو اپنے کہے گئے لفظوں کے اثرات کو لےکر محتاط رہنا چاہیے۔

سنگھ نے یہ بھی کہا کہ گمران کن پروپیگنڈہ کبھی بھی سفارت کاری  اورمضبوط قیادت کا متبادل نہیں ہو سکتی اوریہ یقینی بنایاجانا چاہیے کہ جوانوں کی قربانی رائیگاں نہ جائے۔غورطلب ہے کہ وزیر اعظم مودی نے ہند-چین کشیدگی پر گزشتہ 19 جون کو کل جماعتی اجلاس میں کہا تھا کہ ہندوستانی علاقے میں کوئی نہیں گھسا ہے اور نہ ہی کسی چوکی پر قبضہ ہوا ہے۔

ان کے اس بیان کو لےکر وزیر اعظم دفتر نے سنیچر کو کہا تھا کہ وزیر اعظم مودی کے ذریعے کل جماعتی اجلاس  میں کیے گئے تبصروں کی کچھ حلقوں میں ‘شرارتی  تشریح’ کی کوشش کی جا رہی ہے۔انڈین ایکسپریس کے مطابق، حالانکہ پی ایم او نے کہا کہ کل جماعتی اجلاس میں بتایا گیا تھا کہ اس بار چین کی فوج  ایل اےسی پر بہت بڑی تعداد میں گئی تھی اور ہندوستانی ردعمل قابل تحسین ہے۔

بتا دیں کہ یہ پہلی بار ہے جب پی ایم او نے بڑی تعدادمیں چین کے جوانوں کی موجودگی کی بات قبول کی ہے۔اس سے پہلے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ اچھی خاصی  تعداد میں چین کے لوگ بھی آ گئے ہیں، لیکن ہندوستان  کو بھی اپنی طرف سے جو کچھ کرنا چاہیے ہندوستان  نے کیا ہے۔

بہرحال وزیر اعظم کے اس بیان پر اپوزیشن کے تمام رہنماؤں نے سوال اٹھائے تھے۔

سابق وزیر اعظم سنگھ نے ایک بیان میں کہا، ‘15-16 جون، 2020 کو گلوان گھاٹی میں ہندوستان کے 20 بہادر جوانوں نے حوصلے کے ساتھ فرض ادا کرتے ہوئے ملک کے لیے اپنی قربای دی۔ اس عظیم قربانی کے لیے ہم ان جاں باز فوجیوں اور ان کے اہل خانہ  کے شکرگزار ہیں، لیکن ان کی قربانی رائیگاں نہیں جانی چاہیے۔’

سنگھ نے کہا، ‘آج ہم تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ ہماری سرکار کے فیصلے اورسرکار کے ذریعے اٹھائے گئے قدم طے کریں گے کہ آنے والی نسلیں  ہمارا تجزیہ کیسے کریں گی۔ جو ملک کی قیادت کر رہے ہیں، ان کے کندھوں پر بڑی ذمہ داری  ہے۔’ان کے مطابق ہماری جمہوریت  میں یہ ذمہ داری ملک  کے وزیر اعظم کی ہے۔ وزیر اعظم کو اپنے لفظوں اور اعلانات کے ذریعےملک کی سلامتی اورحکمت عملی اورعلاقائی مفادات پر پڑنے والے اثرات کے تئیں ہمیشہ  بےحد محتاط ہونا چاہیے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا، ‘چین نے اپریل، 2020 سے لےکر آج تک ہندوستانی سرحد میں گلوان گھاٹی اور پیانگونگ تس علاقے میں کئی باردراندازی کی ہے۔ ہم نہ تو ان کی دھمکیوں اور دباؤ کے سامنے جھکیں گے اور نہ ہی اپنی علاقائی سالمیت  سے کوئی سمجھوتہ کریں گے۔’ انہوں نے کہا، ‘وزیر اعظم کو اپنے بیان سے ان کے سازشی رخ کو طاقت نہیں دینی چاہیے اور یہ یقینی بنانا چاہیے کہ سرکار کی تمام مشنری اس خطرے کا سامنا کرنے اورحالات کو اور زیادہ بدتر ہونے سے روکنے کے لیے باہمی اتفاق سے کام کریں۔’

سنگھ نے کہا، ‘یہی وقت ہے جب پورےملک کو متحدہونا ہے اورمنظم  ہوکر اس کا جواب دینا ہے۔ ہم سرکار کو آگاہ کریں گے کہ گمراہ کن پروپیگنڈہ کبھی بھی سفارت کاری اور مضبوط قیادت  کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ جھوٹ اور پروپیگنڈہ  سے سچائی کو نہیں دبایا جا سکتا۔’

انہوں نے کہا، ‘ہم وزیر اعظم اورمرکزی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ چیلنجز کا سامنا کریں اور کرنل بی سنتوش بابو اور ہمارے فوج کی قربانی کی کسوٹی پر کھرا اتریں، جنہوں نے ‘قومی سلامتی’ اور‘علاقائی سالمیت’کے لیے اپنے جانوں کی قربانی  دے دی۔’سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اس سے کچھ بھی کم کیا جانامینڈیٹ سے تاریخٰی  غداری  ہوگی۔

مشرقی  لداخ کی گلوان گھاٹی میں چین کے ساتھ چھ ہفتے سے سرحد پر تعطل  کی صورتحال  بنی ہوئی ہے۔ اسی دوران دونوں ممالک کی فوج کے بیچ ہوئےپرتشدد جھڑپ میں 20 ہندوستانی فوج ہلاک  ہو گئے تھے۔ چین نے پوری گلوان گھاٹی پر اپنا دعویٰ کیا۔ حالانکہ ہندوستان نے چین کے اس دعوے کو خارج کیا ہے۔