ملک کے سابق چیف اکانومک ایڈوائزراروند سبرمنیم کا کہنا ہے کہ سال 2011سے12 اور 2016سے17 کے دوران ملک کی جی ڈی پی کے اعداد و شمار کو کافی بڑھاچڑھاکر بتایا گیا۔ اس دوران جی ڈی پی سات فیصد نہیں، بلکہ 4.5 فیصد کی شرح سے بڑھی ہے۔
اروند سبرمنیم (فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: ملک کے سابق چیف اکانومک ایڈوائزر اروند سبرمنیم کا کہنا ہے کہ 2011سے12 اور 2016سے17 کے دوران ملک کی جی ڈی پی کو بڑھاچڑھاکر پیش کیا گیا۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، سبرمنیم کے مطابق اس دوران ملک کی جی ڈی پی کی شرح کو 2.5 فیصد بڑھاکر دکھایا گیا۔ہاورڈ یونیورسٹی نے سبرمنیم کا ایک ریسرچ پیپر شائع کیا ہے، جس میں ملک کی اقتصادی ترقی کی شرح کو بڑھاچڑھاکر پیش کئے جانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔سبرمنیم کے مطابق جو اعداد و شمار پیش کئے گئے، وہ جھوٹے اور گمراہ کن تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان مالی سالوں کے دوران سرکاری اندازوں میں اوسط سالانہ اضافہ تقریباً سات فیصد کا اندازہ لگایا گیا تھا، جبکہ جی ڈی پی کے اصل اعداد و شمار تقریباً 4.5 فیصد تھے۔
سبرمنیم کے مطابق، جی ڈی پی کی غلط پیمائش کی سب سے بڑی وجہ مینوفیکچرنگ سیکٹر رہا۔ سبرمنیم نے کہا کہ سال 2011 سے پہلے مینوفیکچرنگ پیداوار، مینیوفیکچرنگ مصنوعات اور صنعتی پیداوار اشاریہ اور مینوفیکچرنگ ایکسپورٹ سے متعلق ہوتا تھا، لیکن بعدکے سالوں میں اس میں کافی گراوٹ آئی ہے۔سبرمنیم کے ریسرچ پیپر کے مطابق، جی ڈی پی گروتھ کے لئے 17 اہم اقتصادی پوائنٹ ہوتے ہیں، لیکن ایم سی اے-21 ڈیٹا بیس میں ان پوائنٹس کو شامل ہی نہیں کیا گیا۔واضح ہو کہ ملک کی جی ڈی پی کے حساب میں ایم سی اے-21 ڈیٹا بیس کا اہم کردار ہوتا ہے۔
امر اجالا کی رپورٹ کے مطابق، نیشنل سیمپل سروے آفس (این ایس ایس او) نے مالی سال 2016سے17 کا ایک اعداد و شمار پیش کیا تھا۔ ایک میڈیا رپورٹ میں اس بات کا ذکر تھا کہ این ایس ایس او کی رپورٹ کے مطابق اس دوران ایم سی اے-21 ڈیٹا بیس میں شامل 38 فیصد کمپنیاں یا تو وجود میں ہی نہیں تھی یا پھر ان کو غلط زمرے میں ڈالا گیا تھا۔
سبرمنیم کے مطابق، جی ڈی پی کے اعداد و شمار میں گڑبڑی کے پیچھے یہ بڑی وجہ رہی۔اروند سبرمنیم نے ملک کے اقتصادی ترقی کے لئے بنائی جانے والی پالیسیوں پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔ سبرمنیم کے مطابق، ہندوستانی پالیسی آٹوموبائل ایک غلط اسپیڈومیٹر سے آگے بڑھ رہا ہے۔