ہندوستانی فوج کے فوجی آپریشن کے بعد بے گھر ہوئے جموں و کشمیر کے ہزاروں سرحدی باشندوں کے لیے ان کا اپنا گھر ڈراؤنا خواب بن گیا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان چار روزہ فوجی کشیدگی میں سرحدی علاقوں میں رہنے والے کم از کم 20 لوگوں کی جان چلی گئی، جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے۔
شمالی کشمیر کے بارہمولہ ضلع کے اُڑی میں بے گھر لوگوں کے لیے ایک عارضی پناہ گاہ۔ (تمام تصویریں: عبید مختار)
سری نگر/اُڑی: شمالی کشمیر کے بارہمولہ ضلع میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے نزدیک گنگل گاؤں میں رہنے والی 65سالہ سعیدہ بیگم 9 مئی کی خوفناک رات کو اس وقت اپنی آواز سے محروم ہوگئیں، جب ان کے گھر پر توپ کا گولہ گرا۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا، جب سعیدہ بیگم اپنے خاندان کے ساتھ، جس میں ان کے دو بیٹے، ان کی بیویاں اور نو بچے شامل ہیں، رات 9.30 بجے کے قریب محفوظ مقامات پرمنتقل ہو رہے تھے، کیونکہ ان کے سرحدی گاؤں کا پرامن ماحول بیچ- بیچ میں زور دار دھماکوں کی آوازوں سے خراب ہو رہا تھا۔
جیسے ہی ان کا بیٹا محمود علی اپنی خوفزدہ سات سالہ بیٹی کو بازوؤں میں اٹھائے گھر سے باہر نکلا تو، توایک کا گولہ چھت پر گرا اور گھر میں آگ لگ گئی۔
علی نے کہا،’وہ صدمے میں ہے، وہ ایک مسجد میں عارضی پناہ لے رہی ہے، جو سرحدی شہر اُڑی اور اس کے آس پاس کے گاؤںکے رہائشیوں کے لیے کھولی گئی ہے جو ‘آپریشن سیندور’ کے بعد ایل او سی اور بین الاقوامی سرحد پر پاکستان کی گولہ باری سے بے گھر ہوگئے ہیں۔
اڑی میں اپنے گھر سے نکلنے کے بعد عارضی پناہ گاہ کے باہر بیٹھاایک خاندان، جسےگولہ باری کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
ایک مقامی ٹھیکیدار کے یہاںاکاؤنٹنٹ کے طور پر کام کروالے علی بتاتے ہیں کہ زور دار دھماکے اور ان کے جلتے ہوئے گھر کے مناظر نے ان کی بیٹی کو بھی صدمے میں ڈال دیا ہے۔ علی نے اداس لہجے میں کہا کہ جب بھی ہم اپنے گھر کا ذکر کرتے ہیں تو وہ خوف سے کانپ جاتی ہے اور مسلسل روتی رہتی ہے۔ وہ گھر واپس نہیں لوٹنا چاہتی۔’
پاکستان اور پاکستان مقبوضۃ جموں و کشمیر میں مشتبہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کے بعد بے گھر ہونے والے جموں و کشمیر کے ہزاروں سرحدی باشندوں کے لیے ان کے اپنے گھر ڈراؤنے خواب بن گئے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کی فوجوں کے درمیان چار روزہ فوجی کشیدگی کے دوران سرحدی علاقوں میں رہنے والے کم از کم 20 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے۔
تاہم، ہلاکتوں کی تعداد کے حوالے سے کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔ اس گولہ باری میں فوج کے پانچ اہلکار مارے گئے ہیں۔
ان حملوں میں پونچھ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے، جہاں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ سے چار بچوں سمیت 14 شہری مارے گئے۔ پونچھ میں ہلاک ہونے والوں میں 13 سالہ جڑواں بچے – زین علی اور ان کی بہن فاطمہ شامل ہیں، جنہیں ان کے خاندان والے آیان اور زویا بلاتے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں سکھ برادری کے پانچ افراد بھی شامل ہیں۔
اڑی میں اپنے گھر کی دیوار کی طرف اشارہ کرتا ہوا متاثرہ شخص۔
وہیں، راجوری میں جموں و کشمیر حکومت کے ایک ایڈیشنل ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ کمشنر اور ایک دو سالہ بچی سمیت تین شہری مارے گئے، جبکہ دو شہری شمالی کشمیر کے سرحدی شہر اُڑی اور جموں میں بین الاقوامی سرحد پر آر ایس پورہ میں مارے گئے۔
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط ہونے کے تین دن بعد، جموں و کشمیر انتظامیہ نقصان کا اندازہ لگانے میں مصروف ہے،جبکہ دھماکہ خیز مواد کے پھٹنے کے خوف سے بہت سے سرحدی باشندے اپنی زندگی دوبارہ شروع کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ سیکورٹی فورسز بے گھر ہونے والے مکینوں کو ان کے گھروں میں واپس جانے کی اجازت دینے سے پہلےمتاثرہ علاقوں کی صفائی کر رہی ہیں۔
وادی کشمیر کے ڈویژنل کمشنر وی کے بیدھوڑی اور جموں کے ان کے ہم منصب رمیش کمار سے پاکستان کی جانب سے کی گئی گولہ باری اور مشتبہ ڈرون حملوں کی وجہ سے یونین ٹیریٹری میں ہونے والے مادی نقصان کے سرکاری تخمینہ پر تبصرہ کے لیے رابطہ نہیں ہو سکا۔
دی وائر نے اڑی اور پونچھ اضلاع کے درجنوں رہائشیوں سے بات کی، جن میں سے کچھ اب بھی اسکولوں، مساجد اور دیگر عوامی مقامات پر رہ رہے ہیں، جنہیں بے گھر خاندانوں کے لیے عارضی پناہ گاہوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
زیادہ تر متاثرہ رہائشیوں نے زیر زمین بنکروں کی کمی یا مکمل غیر موجودگی کی شکایت کی، جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ اس سے مرنے والوں اور زخمیوں کی تعداد کم ہو سکتی تھی۔
اڑی گاؤں کے رہائشی آپریشن سیندور کے بعد پاکستان کی طرف سے کی گئی گولہ باری کے بعد اپنے گھروں پر لگے گولوں کی باقیات دکھا رہے ہیں۔
پونچھ کے ڈنگلا کے رہائشی وقار عزیز، جو سرحدی ضلع میں توپ کی گولہ باری کے بعد بے گھر ہونے والے افراد کے لیے ایک عارضی پناہ گاہ میں تبدیل ہونے والے سرکاری اسکول میں چلے گئے تھے، نے بتایا کہ وہ منگل کو گھر لوٹ آئے۔
عزیز نے بتایا،’بہت سے رہائشی واپس آ چکے ہیں، حالانکہ دوبارہ تشدد پھوٹنے کا خدشہ باقی ہے۔ اندیشہ تھا کہ ڈی جی ایم او کی بات چیت ناکام ہو جائے گی، لیکن انہیں پرسکون کر دیا گیا ہے اور یہاں تک کہ جو لوگ جموں اور دیگر اضلاع میں بھاگ گئے تھے، وہ بھی واپس آ رہے ہیں۔’
معلوم ہو کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے سوموار (13 مئی) کو قوم سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ مسلح افواج نے ‘دہشت گردوں کے بنیادی ڈھانچے کا ایک بڑا حصہ تباہ کر دیا ہے، بہت سے دہشت گردوں کو ختم کر دیا ہے اور پاکستان میں ان کے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے’۔
رپورٹ کے مطابق، ہندوستان اور پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) نے سوموار کی شام 5 بجے 30 منٹ کی بات چیت کے دوران جنگ بندی کو برقرار رکھنے کے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا۔
عزیز کہتے ہیں،’ہم نے کیا حاصل کیا؟ کئی لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ کئی گھر کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے۔ کیا پونچھ میں بڑے پیمانے پر ہونے والی ہلاکتیں اور تباہی پاکستان کو ہمارا جواب ہے؟ کون گارنٹی دے گا کہ پاکستان ہمارے گھر پر دوبارہ گولہ باری نہیں کرے گا؟’
نوے(90) سالہ سعید حسین نے بتایاکہ 1947-48 کی ہند-پاک جنگ کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب پونچھ کا تاریخی شہر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تقسیم ہوا تھا اور سرحدی ضلع میں ‘آپریشن سیندور’ کے بعد چار دن کی جھڑپوں کے دوران شہری علاقوں پر توپ سے گولہ باری کا مشاہدہ کیا گیا۔
پونچھ کے ننگلی گاؤں کے رہنے والے حسین نے فون پر کہا، ‘1965، 1971 اور 1999 کی جنگوں اور 7 مئی کے بعد بھی دہشت گردوں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ہندوستان اور پاکستان تین جنگیں لڑ چکے ہیں لیکن دہشت گردی کا مسئلہ بدستور برقرار ہے۔ جان و مال کے نقصان کے علاوہ اور کیا حاصل ہوا؟’
اڑی کا مرکزی بازار، جو کبھی خریداروں سے گلزار رہتا تھا،سوموار کو ویران نظر آیا کیونکہ زیادہ تر رہائشی گھر کے اندر ہی رہے،انہیں نہیں معلوم کہ مستقبل میں کیاہوگا۔
علی، جن کے گنگل میں گھر کو گولہ باری سے جزوی نقصان پہنچا، کہتے ہیں کہ ان کی بیمار ماں کو ہائی بلڈ پریشر کی شکایت ہے۔ ان کی آنکھیں غباروں کی طرح سوجی ہوئی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا،’میں انہیں ڈاکٹر کے پاس لے جانا چاہتا ہوں، لیکن ہم ایک مسجد میں رہ رہے ہیں اور حالات اچھے نہیں لگ رہے ہیں۔’
علی کی اہلیہ اور گھریلو خاتون مصرہ بیگم کا کہنا ہے کہ وہ اپنے گاؤں سے دور گرنے والے گولوں کی آواز سننے کے عادی تھی، لیکن انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن وہ نشانہ بنیں گے۔
انہوں نے کہا،’میں سو نہیں پاتی۔ اس نے کہا۔ اس رات کی دہشت آج بھی مجھے راتوں کو جگائے رکھتی ہے۔ یہاں تک کہ بچے بھی سو نہیں پاتے۔’
سعیدہ بیگم (دائیں) اور ان کی بہو اڑی کے گنگل گاؤں میں اپنے جزوی طور پر تباہ شدہ مکان میں۔
حکمراں نیشنل کانفرنس کے رہنما اور اڑی سے جموں و کشمیر اسمبلی کے رکن سجاد شفیع نے سوموار کو متاثرہ گاؤں کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے سرحدی باشندے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دشمنی کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘اڑی کی آدھی آبادی متاثر ہوئی ہے۔ دہلی اور اسلام آباد میں سب آرام سے بیٹھے ہیں جبکہ ہم سرحدی لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ ہمارے آباؤ اجداد نے مشکلات کا سامنا کیا اور اب ہم، ہمارے بچے ان کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہم اس تنازعہ کا جلد از جلد اورمستقل خاتمہ چاہتے ہیں۔ ہم جنگ بندی نہیں چاہتے۔ ہم مستقل حل چاہتے ہیں۔’
اڑی کے کمال کوٹ کے رہائشی منیر حسین کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام رہائشی علاقوں میں زیر زمین بنکر بنائے جو گولہ باری سے متاثر ہوئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں،’ہم نے زیر زمین بنکر بنانے کی سرکاری تجاویز کے بارے میں سنا ہے، لیکن یہ وعدے صرف کاغذوں تک ہی محدود ہیں۔ ہم اس بار قسمت سے بچ گئے، لیکن کون جانتا ہے کہ اگر یہ دوبارہ شروع ہوا تو کیا ہوگا۔’
( انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )