مسلم مذہبی رہنماؤ ں کا کہنا ہے کہ سرکار کے ذریعے لی گئی67 ایکڑ زمین میں سے زمین ملتی ہے تبھی قبول کیا جائےگا۔ مسلم کمیونٹی مسجد بنانے کے لیے اپنے پیسے سے زمین خرید سکتی ہے اور وہ اس کے لیےمرکزی حکومت پرمنحصر نہیں ہے۔ ادھر حکومت نے ایودھیا میں رام مندر ٹرسٹ کی تشکیل کی کارروائی شروع کردی ہے۔
نئی دہلی: رام جنم بھومی-بابری مسجد تنازعہ میں مدعی رہے اقبال انصاری اور کچھ مسلم رہنماؤں نےمرکزی حکومت سے سال 1991 میں لی گئی زمین میں سے مسجد کے لیے زمین دینے کی مانگ کی ہے۔قابل ذکر ہے کہ متنازعہ ڈھانچے کے آس پاس کی 67 ایکڑ زمین 1991 میں مرکزی حکومت نے اپنے قبضے میں لے لی تھی۔انصاری نے کہا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق، اگر سرکار ہمیں زمین دینا چاہتی ہے تو وہ اسی 67 ایکڑ میں سے ہونی چاہیے، جس کو مرکزی حکومت نے لےلیا تھا۔ ہم تبھی اس کو قبول کریں گے، نہیں تو ہم زمین لینے سے انکار کر دیں گے۔
مولاناجمال اشرف نامی مقامی مذہبی رہنما نے کہا کہ مسلم کمیونٹی مسجد بنانے کے لیے اپنے پیسے سے زمین خرید سکتی ہے اور وہ اس کے لیے مرکزی حکومت پر منحصر نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ سرکار اگر ہمیں کچھ تسلی دینا چاہتی ہے تو اس کو1991 میں لی گئی 67 ایکڑ زمین میں سے ہی کوئی زمین دینی چاہیے۔ اس زمین پر کئی قبرستان اور صوفی سنتوں کی کئی درگاہ ہیں۔
معاملے کے ایک اور مدعی حاجی محبوب نے کہا کہ ہم جھن جھنا قبول نہیں کریں گے۔ سرکار کو صاف طور پر بتانا ہوگا کہ وہ ہمیں کہاں زمین دینے جا رہی ہے۔جمیعۃ علمائے ہند کی ایودھیا اکائی کے صدرمولانا بادشاہ خان نے کہا کہ مسلمان بابری مسجد کا مقدمہ لڑ رہے تھے، نہ کہ کسی زمین کا۔ ہمیں مسجد کے بدلے کہیں کوئی زمین نہیں چاہیے، بلکہ ہم اس زمین کو بھی رام مندر کے لیے دے دیں گے۔
سماجی کارکن یوسف خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ مدعا ختم ہو گیا ہے۔ مسجد کے لیے اضافی زمین کی ضرورت نہیں۔انہوں نے کہا، ‘مذہبی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ایودھیا میں خاطر خواہ مسجدیں ہیں۔ عدالت نے اپنا فیصلہ رام مندر کے حق میں دیا ہے۔ معاملہ اب ختم ہو چکا ہے۔’اس بیچ، ذرائع نے بتایا کہ اتر پردیش حکومت نے مسجد کی تعمیر کے لیے ایودھیا کے اندر اور اس کے آس پاس زمین تلاش کرنے کی کارروائی شروع کر دی ہے۔ ایک افسرنے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہم سے کسی نمایاں جگہ پر مسجد کی تعمیرکے لیے زمین تلاش کرنے کو کہا گیا ہے۔
حالاں کہ ایودھیا معاملے کے اہم فریق سنی سینٹرل وقف بورڈ اتر پردیش نے زمین لینے یا نہ لینے کے بارے میں آئندہ 26 نومبر کو ہونے والی اپنی بیٹھک میں فیصلہ لینے کی بات کہی ہے۔غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بنچ نے 9 نومبر کوایودھیا معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے متنازعہ زمین پر رام مندر کی تعمیر کرانے اور مسلمانوں کو مسجد بنانے کے لیے کسی اہم جگہ پر پانچ ایکڑ زمین دینے کی ہدایت دی تھی۔
فیصلے کے تحت رام جنم بھومی ٹرسٹ کو 2.77 ایکڑ زمین کا مالکانہ حق دے دیا گیا ہے اور مندر بنانےکے لیےمرکزی حکومت کو تین مہینے کے اندر ٹرسٹ بنانا ہوگا۔ وہیں سنی وقف بورڈ کو ایودھیا میں ہی پانچ ایکڑ زمین دی جائےگی۔ عدالت نے 1045صفحات کے فیصلے میں کہا تھا، مرکزی حکومت اس فیصلے کی تاریخ سے تین مہینے کی مدت کے اندر‘ایودھیا ایکٹ 1993’ (The Acquisition Of Certain Area At Ayodhya Act)کے تحت ایک منصوبہ بنائےگی۔’
انہوں نے کہا تھا، ‘اس منصوبہ میں ایک ٹرسٹ کی تشکیل پر بھی غورکرنا شامل ہوگا جس میں ایک ٹرسٹ بورڈ یااور کوئی مناسب اکائی ہوگی۔’عدالت نے نرموہی اکھاڑا اور شیعہ وقف بورڈ کی عرضی خارج کر دی تھی۔
حکومت نے ایودھیا میں رام مندر کے ٹرسٹ کی تشکیل کی کارروائی شروع کی
دریں اثنا مرکزی حکومت نےعدالت کی ہدایت کے مطابق مندر بنانے کے لیے ایودھیا رام مندر ٹرسٹ کی تشکیل کی کارروائی شروع کر دی ہے اور کچھ افسروں کی ٹیم عدالت کے فیصلے کا مفصل مطالعہ کر رہی ہے۔افسروں نے سوموار کو یہ جانکاری دی۔متوقع ٹرسٹ کی تشکیل پروزارت قانون اور اٹارنی جنرل کی رائے لی جائےگی۔ یہ ٹرسٹ ہی ایودھیا میں رام مندر کا خاکہ تیار کرےگا۔ افسر نے بتایا کہ افسروں کی ایک ٹیم کو عدالت کے فیصلے کا تفصیلی مطالعہ کرنے کو کہا گیا ہے تاکہ عدالت کی ہدایت کے مطابق ہی ٹرسٹ کی تشکیل کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس بارے میں رائے مشورہ چل رہا ہے اور اب تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔
ایک اور افسر نے حالانکہ کہا کہ ابھی یہ صاف نہیں ہے کہ کیا ایودھیا میں رام مندر بنانے کے لیے بنائے گئے ٹرسٹ کی نوڈل اکائی وزارت داخلہ یاوزارت ثقافت میں سے کوئی ہوگا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)