گوا کے متنازعہ بار اور اسمرتی ایرانی کے شوہر کی فرم کا پتہ اور جی ایس ٹی ایک  

02:20 PM Aug 08, 2022 | روی نائر

خصوصی رپورٹ: دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ متنازعہ سلی سولز کیفے اینڈ بار یا تو ایٹال فوڈ اینڈ بیوریجز کی ملکیت ہے یا اس کے زیر اہتمام  چلایا جاتا ہے۔ ایٹال  ایک لمیٹڈ لائبلٹی پارٹنرشپ والی کمپنی ہے جس میں زوبین ایرانی اور ان کے بیٹے سمیت ایرانی فیملی کے ممبروں کی دو خاندانی ملکیتی کمپنیوں –اگرایا مرکنٹائل اوراگرایا ایگروکے ذریعے 75 فیصدحصہ داری ہے۔

اسمرتی ایرانی اور بیک گراؤنڈ میں سلی سولز کیفے اینڈ بار۔ (فوٹو: پی ٹی آئی/فیس بک)

نئی دہلی: گوا میں ریاستی ایکسائز حکام نے ‘سلی سولز کیفے اینڈ بار’ کی جانب سے ایک وفات پا چکےشخص  کے نام پر شراب کا لائسنس حاصل کرنے کے لیےدرخواست  دینے پر سوال اٹھائے ہیں۔ خواتین اور بچوں کی  بہبود کی مرکزی وزیراسمرتی ایرانی بھی اس تنازعہ کی زد میں ہیں، جنہوں نے گزشتہ دنوں  دہلی ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ نہ تو وہ اور نہ ہی ان کی بیٹی اس  بار کو  چلاتے ہیں۔

تاہم، جو بات  انہوں نے عدالت کو نہیں بتائی، وہ یہ ہیں-

یہ متنازعہ بار اور ریستوراں اسی پتے – ہاؤس نمبر 452، باؤٹا وڈو، اسگاؤں پر چل رہے ہیں، جہاں سے ان کے شوہر زوبین ایرانی اور فیملی  کے زیر انتظام چلنے والی کمپنی ایٹال فوڈ اینڈ بیوریجزاپنا کاروبار کرتی ہے۔

دی وائر  کو ملی جانکاری کے مطابق، ایرانی فیملی  کی کمپنی کو اسگاؤں کے ایڈریس پر الاٹ کردہ جی ایس ٹی نمبر بھی وہی جی ایس ٹی نمبر  ہے، جو سلی سولز کیفے اینڈ بار نے ریستوراں  ایگریگیٹر کی ویب سائٹ پردائر کیاہے۔

دی وائر کے ذریعے حاصل کردہ 31 مارچ 2021 کو ختم ہونے والے مالی سال کے لیے ایرانی فیملی کی کمپنی کی طرف سے دائر کردہ بیلنس شیٹ اور منافع/نقصان کے گوشوارے ظاہر کرتے ہیں کہ کمپنی نے سال  کے دوران ‘سامان  اور شراب’ اور کھانے کی خریداری پر پیسہ  خرچ کیا، ساتھ ہی کھانے اور شراب کا کاروبار کیا،  اس کے ساتھی ہی  کھانے اور شراب کی فہرست سے پتہ چلتا ہے کہ ایٹال فوڈ اینڈ بیوریجز (ای ایف اے بی) کے کاروبار میں شراب کی فروخت بھی شامل ہے، جس کے لیے قانونی لائسنس کی ضرورت ہوتی ہے۔ کمپنی کے بیان کردہ مقاصد میں سے ایک ‘ریستوراں چلانا’ بھی ہے۔

اس کے ساتھ ہی زوبین ایرانی کے انسٹاگرام اکاؤنٹ – جسے اسمرتی ایرانی بھی فالو کرتی ہیں–پر ان کے بایو میں انہوں نے خود کو سلی سولز کا ‘شریک بانی’ بتایا ہے۔ اسی طرح، معروف فوڈکریٹک کنال  کو دیے ایک انٹرویو میں ایرانی کی 18 سالہ بیٹی زوئش سے جب پوچھا گیا کہ ‘سلی سولز ریستوراں ان کا ہے’، تو انہوں نے حامی بھرتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔

زوبین ایرانی کے انسٹاگرام بایو میں، انہوں نے خود کو سلی سولز کا شریک بانی بتایا ہے۔

یہ تمام حقائق اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یا توسلی سولزکیفے اینڈ بار ای ایف اے بی کی ملکیت ہے یا اس کے زیر اہتمام  چلایا جارہا ہے۔ایٹال فوڈ اینڈ بیوریجز ایک لمیٹڈ لائبلٹی پارٹنرشپ والی کمپنی ہے، جس میں زوبین ایرانی اور ان کے بیٹے سمیت ایرانی فیملی کے ممبروں کی دو خاندانی ملکیتی کمپنیوں –اگرایا مرکنٹائل اوراگرایا ایگروکے ذریعے 75 فیصد حصہ داری ہے۔

اسمرتی ایرانی کے وکیل کیرت سنگھ ناگرا نے دعویٰ کیا ہے کہ ریستوراں کے بارے میں زوئش ایرانی کی بات چیت ایک ‘انٹرن شپ’ تک محدود تھی، حالانکہ ایرانی فیملی نے ریستوران کی ملکیت پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ ہائی کورٹ میں دائر اپنی عرضی میں اسمرتی ایرانی نےبس اتناکہا ہے کہ ‘ریستوراں کی ملکیت اور جس پر یہ بنا ہے، اس سےمتعلق دستاویز اور جانکاری ، ریستوراں کوملا لائسنس، سب کچھ  پبلک ڈومین میں ہیں’۔

ریکارڈ کیا کہتے  ہیں

ای ایف اے بی  کی ملکیت۔ (ماخذ: آر او سی فائلنگ)

کمپنی رجسٹرار کے ریکارڈ کے مطابق، ای ایف اے بی لمیٹڈ لائبلٹی پارٹنرشپ (ایل ایل پی) کے دیگر مالکان گیتا وجانی، ہرش کھنیجہ اور کنیکا سیٹھ ہیں۔

پچھلے ایک ہفتے کے دوران دی وائر نے اسگاؤں میں ای ایف اے بی کے آپریشنز کی نوعیت اورسلی سولز کیفے اینڈ بار کے ساتھ اس کے تعلقات کو سمجھنے کی کوشش میں اگرایا مرکنٹائل اور اوگرایا ایگرو کے مالک  کے بطور زوبین ایرانی سمیت ان سب کو سوالات بھیجے ہیں، جن کا ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

گزشتہ ہفتے  ہی ای میل اور ٹوئٹر کے ذریعے مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی سے بھی تفصیلی سوالات پوچھے گئے تھے، لیکن ان کا بھی جواب نہیں دیا گیا ہے۔ جب بھی وہ یاای ایف اے بی کے اصل اسٹیک ہولڈرز میں سے کوئی بھی جواب فراہم کرے گا، تو اسے اس رپورٹ میں شامل کر دیا جائے گا۔

وفات پاچکے شخص کے نام پر شراب کا لائسنس

سلی سولز پر تنازعہ 21 جولائی کو اس وقت شروع ہوا جب ہیرالڈ گوا نے ایک آر ٹی آئی جواب کی بنیاد پر  رپورٹ شائع کی۔ اس میں، وکیل اور کارکن آریس روڈریگس کو ملے جواب کی بنیاد پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ ریاست کے محکمہ ایکسائز نے سلی سولز کے ایکسائز لائسنس کی غیر قانونی طور پرتجدید کی تھی۔

ویب سائٹ نے دعویٰ کیا تھاکہ ریستوراں اسمرتی ایرانی کی فیملی سے وابستہ ہے، لیکن مزید معلومات نہیں دی گئی تھی۔ اس میں کہا گیا  کہ شراب کا لائسنس  کسی انتھنی ڈی گاما کے نام پر جاری کیا گیا تھا، جن کی موت سال بھر پہلے ہو چکی ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ محکمہ ایکسائز نے 18 فروری 2021 کو سلی سولز کو اسگاؤں کیمپس  کے لیے شراب کا لائسنس دیا، جبکہ سلی سولز نے ریستوراں چلانے کے لیے قانونی طور پر ضروری اور مصدقہ  لائسنس  ہی جمع نہیں کیا تھا۔

روڈریگس کی شکایت پر ہی ایکسائز کمشنر نے اس ریستوراں کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا اور اس کے بعد کانگریس لیڈروں نے پریس کانفرنس کی، جس میں انہوں نے ایرانی کو نشانہ بنایا اور وزیر اعظم سے ان کی  برطرفی کا مطالبہ کیا۔

اس کے جواب میں اسمرتی ایرانی نے ایک پریس کانفرنس بلائی، لیکن اس میں  انہوں نے کوئی سوال نہیں لیا۔ پھر انہوں نے دہلی ہائی کورٹ میں جے رام رمیش، پون کھیرا  سمیت کانگریس لیڈروں کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا۔ اس معاملے میں پہلی نظر میں جسٹس منی پشکرنا نے مانا ہے کہ ‘یہ الزامات مصدقہ حقائق کے بغیر لگائے گئے  ہیں ، وزیر یا ان کی بیٹی سلی سولز کی مالک نہیں ہیں’ اور کانگریس رہنماؤں  کے ذریعے کیے گئے ‘ہتک آمیز’ ٹوئٹ اور سوشل میڈیا پوسٹ چوبیس  گھنٹے کے اندر ہٹائے جائیں۔

یہ واضح نہیں ہے کہ عدالت اسمرتی ایرانی کی عرضی  کو کیسے نمٹاتی اگر اسے معلوم ہوتا کہ اسمرتی ایرانی کے شوہر  کی اپنی خاندانی ملکیت والی کمپنیوں کے توسط سےاسی ایڈریس، جہاں سے سلی سولز کیفے اور بار ہیں، سے چلنے والے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ اور یہ کہ دونوں ادارے ایک ہی جی ایس ٹی نمبر استعمال کرتے ہیں اور یہ کہ ایرانی فیملی کی  فرم کے کاروبار میں شراب کی خریداری  بھی شامل ہے۔

کیا ہے ایٹال ایل ایل پی کی کہانی؟

ای ایف اے بی ایک لمیٹڈ لائبلٹی پارٹنرشپ والی کمپنی ہے جو 11 دسمبر 2020 کو ممبئی میں شروع ہوئی تھی، جس میں گیتا یوگیش وجانی، ہرش کھنیجہ اور کنیکا سیٹھ بطور نامزد پارٹنر دار اور راہل ووہرا اور منگیش گنگارام جوشی باڈی کارپوریٹ ڈی پی کے طور پر شامل تھے۔ (کمپنی ایکٹ کے مطابق، ایل ایل پی میں کم از کم دو نامزد پارٹنرز ہونے چاہیے۔ اگر یہ دو سے کم ہیں اور دیگر پارٹنرز باڈی کارپوریٹ یا دیگر کمپنیاں ہیں، تو ایسے باڈی کارپوریٹ کو ایل ایل پی میں نامزد پارٹنرز کے طور پر کام کرنے کے لیے افراد کو نامزد کرنا چاہیے۔)

قابل ذکر ہے کہ 18 جنوری 2021 کو، ای ایف اے بی ایل ایل پی نے گوا میں خود کو جی ایس ٹی نمبر کے لیےرجسٹر کیا اور اسے ہاؤس  نمبر 452، باؤٹا وڈو، اسگاؤں، گوا سے کام کرنے کے لیے ’30اے اے آئی ایف ای  7039 ایچ ون زیڈ ایم’ جی ایس ٹی نمبر الاٹ کیا گیا۔ ہمیں ایک اور لنک ملا جس سے پتہ چلتا ہے کہ سلی سولز کیفے اینڈ بار کے فیس بک پیج پر رابطہ کے لیے جو  ای میل آئی ڈی  دی گئی ہے ، وہ ہے؛

info@eight–all.com

سلی سولز کے جی ایس ٹی سرٹیفکیٹ کی کاپی۔

دی وائر نے جی ایس ٹی نمبر کی جانچ کےلیےایک مشہور ریستوراں ایگریگیٹر پلیٹ فارم میں اپنے ذرائع کا استعمال کیا، جس سے سلی سولز منسلک ہے، کیوں کہ ڈی گامافیملی نے گوا کے ایکسائز کمشنر کے نوٹس کے جواب میں دعویٰ کیا ہے کہ وہ اس کیفے اور بارکے مالک ہیں اور اسے چلاتے ہیں۔

ڈی گاما فیملی پہلے اسی ایڈریس پر ہوم اسٹے چلایا کرتی تھی، لیکن فیملی کی طرف سے رجسٹرڈ دو ناموں – دی ڈی  گاماز اور ڈی گاماز لکس کے لیے جی ایس ٹی تلاش کرنے پر کچھ نہیں ملا۔ گوا حکومت کی وہ فہرست، جس میں ‘ریاست کے دائرہ اختیار میں 19287 ایسے ٹیکس دہندگان ہیں، جن کاٹرن اوور 1.5 کروڑ روپے سے کم ہے’، میں  بھی ڈی گامافیملی یا ان کا ہوم اسٹے  شامل نہیں ہے۔

ریستوراں کے ایگریگیٹر ذرائع نے تصدیق کی ہےکہ سلی سولز کیفے اینڈ بار نے اپنا جی ایس ٹی نمبر 30اے اے آئی ایف ای  7039 ایچ ون زیڈ ایم بتایا ہے – جو ای ایف اے بی ایل ایل پی والا یکساں جی ایس ٹی نمبر ہے – اور ایگریگیٹر کو اسی نمبر کے ساتھ بنے رجسٹریشن سرٹیفکیٹ کی ایک کاپی دی ہے۔

تو ای ایف اے بی ایل ایل پی، جو اس ریستوراں کا مالک ہے، کے پیچھے کون لوگ یا کمپنیاں ہیں؟

کارپوریٹ امور کے ڈائریکٹر ماسٹر ڈیٹا کے مطابق، زوبین فریدون ایرانی اگرایا ایگرو فارمزپرائیویٹ لمیٹڈ اور اگرایا مرکنٹائل پرائیویٹ لمیٹڈ میں ڈائریکٹر ہیں۔ اسمرتی ایرانی کی طرف سے دائر کردہ فارم 1 (اثاثوں اور واجبات کے اعلان کے لیے) میں کہا گیا ہے کہ ان کے شوہر زوبین کے ان دونوں کمپنیوں میں شیئر ہیں۔

اس سے قبل، 2018 کے اعلان کے مطابق، ہر کمپنی کے شیئر میں ان کا 95 حصہ  تھا۔ ان کی 2021 فائلنگ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے شوہر ابھی بھی دونوں کمپنیوں کے 67فیصد مالک ہیں۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق، بقیہ 33فیصد ان کے تین بچوں – شینیل ایرانی، جوہر ایرانی اور زوئش ایرانی کے درمیان یکساں طور پر تقسیم ہیں۔

اگرایا مرکنٹائل بورڈ کی تجویز جس پر زوبین ایرانی نے دستخط کیے ہیں۔

پانچ 5 نومبر 2020 کو، اگرایا ایگرو فارمزپرائیویٹ لمیٹڈ اور اگرایا مرکنٹائل پرائیویٹ لمیٹڈ نے ای ایف اے بی ایل ایل پی  کو شامل کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بورڈ کی تجویز پاس  کی۔ یہ تجویز کی گئی تھی کہ اگرایا مرکنٹائل ای ایف اے بی کے 50فیصد شیئر  رکھے گی اور راہل ووہرا کوڈی پی  نامزد کیا۔ زوبین ایرانی نے بورڈ کی تجویز پر دستخط کیے۔

اگرایا ایگرو فارمزپرائیویٹ لمیٹڈ نے ای ایف اے بی ایل ایل پی میں 25فیصد حصص کی سرمایہ کاری کی تجویز پیش کی اور زوبین ایرانی کی متعدد کمپنیوں میں ڈائریکٹر منگیش گنگارام جوشی کو اپنا ڈی پی مقرر کیا۔

آسان لفظوں میں کہیں تو زوبین ایرانی اور ان کے بچے،جو اگرایا ایگرو اور اگرایا مرکنٹائل کے مالک ہیں، کے پاس  ای ایف اے بی ایل ایل پی کے 75فیصدشیئر ہیں، (جس کی فائلنگ کے مطابق) جو  سلی سولز کیفے اینڈ بار ، جو ای ایف اے  والے یکساں جی ایس ٹی کا استعمال کرتا ہے ، کی  جگہ سے ہی ریستوراں کے کاوربار کی طرح کام کر رہا ہے۔

ہم نے ای ایف اے بی کی دستیاب آخری  بیلنس شیٹ کو چیک کیا ہے اور اس بات کی تصدیق کی ہےکہ بورڈ کی دو قراردادوں میں کیا کہا گیا تھا۔ 31 مارچ 2021 تک دو اگرایا کی کمپنیوں کے پاس ایل ایل پی کے 75فیصد شیئر ہیں۔ اس وقت کے شراکت دار – ہرش کھنیجہ اور کنیکا سیٹھ، ہر ایک کے پاس 10فیصد اور گیتا یوگیش وجانی کے پاس بقیہ 5فیصد شیئر تھے (اوپر ملکیت ڈیٹاوالی تصویر دیکھیں)۔

ایک جون، 2021 کو کنیکا سیٹھ باہر ہوگئیں اور 15 نومبر 2021 کو، ہرش کھنیجہ نے بھی ای ایف اے بی سے استعفیٰ دے دیا۔ 30 نومبر 2021 کو، ایک اور کمپنی، ٹیرونیش ہاسپیٹیلیٹی پرائیویٹ لمیٹڈ، جو ای ایف اے بی ایل ایل پی والا پتہ  ہی شیئر کرتی ہے، نے ای ایف اے بی میں 20فیصد حصہ داری  لینے کے لیے بورڈ کی قرارداد منظور کی۔ منگیش گنگارام جوشی اور یوگیش کانتی لال وجانی ٹیرونیش کے ڈائریکٹر ہیں۔ منگیش جوشی نے یوگیش وجانی کو ڈی پی امیدوار کے طور پر اختیار دیا اور تجویز پر دستخط کیے۔

یوگیش کانتی لال وجانی ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں اور ان کے دفتر کے پتے پر یہ دونوں کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں۔

وکیل اور کارکن آریس روڈریگس، جن کی آر ٹی آئی اس تنازعہ کاسبب بنی، نے دی وائر کو بتایا کہ 29 جولائی کو سلی سولز بار اینڈ کیفے کو دیے گئے بار لائسنس پرایکسائز کی شنوائی میں ڈی گاما فیملی کے وکیل نے کہا کہ پراپرٹی، جہاں سے ریستوراں اور بار چلتے ہیں، کے مالک ہی اس کےقانونی مالک ہیں ، ای ایف اے بی نہیں۔

لیکن آر اوسی میں ای ایف اے بی فائلنگ ایک دوسری  تصویر پیش کرتی ہے۔ کمپنی کے منافع اور نقصان کی تفصیلات میں کہا گیا ہے کہ اس نے سامان اور شراب کی خریداری پر تقریباً 13 لاکھ روپے خرچ کیے ہیں۔ تو اگر ای ایف اے بی کسی  بار کا مالک  نہیں ہے، صرف ایک ریستوراں چلاتا ہے، تو اس نے کھانے اور شراب کی خریداری پر اتنا پیسہ کیوں خرچ کیا ہے؟

Click to view slideshow.

بتادیں کہ 31 مارچ 2021 کو ختم ہونے والے مالی سال کے مالیاتی تفصیلات پر ای ایف اے بی کے نوٹس میں رسوئی کے سامان، ریفریجریٹرز دیگر چیزوں کے علاوہ ایک  ‘فوڈ ٹرک اسٹرکچر’ کا بھی  ذکر ہے۔

تفصیلات میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 31 مارچ 2021 تک، کمپنی کے پاس 3.35 لاکھ روپے کی شراب تھی، اور اس وقت تک اس نے 19.6 لاکھ روپے کےکھانے اور 3.12 لاکھ روپے کی شراب فروخت تھی۔

اس سے متعلق ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اگر بار کا لائسنس وفات پاچکے انتھنی ڈی گاما کے بیٹے ڈین ڈی گاما کے نام پر ہے تو ای ایف اے بی اپنے کاروبار کے لیے اس کو استعمال نہیں کر سکتا۔ گوا ایکسائز ایکٹ، 1964 کے ضابطہ 90 کے مطابق، کسی شخص یا افراد کے ادارے مثلاً فرم اور قانونی شخص جیسے کمپنی، کو دیا گیا لائسنس بالکل  شخصی   ہوتا اور اس کو منتقل نہیں کیا جاسکتا ہے۔

دی وائر نے ڈین ڈی گاما سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی ، لیکن ایرانی فیملی کی طرح ہی انہوں  نے بھی کال، میسجز اور ای میلز کا جواب نہیں دیا ہے۔

(اس رپورٹ  کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)