ممبئی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں شامل نہیں کی گئیں فلموں میں آنندپٹ وردھن کی فلم ‘ وویک/ریزن ‘، صحافی گوری لنکیش پر مبنی فلم ‘آور گوری ‘، جےاین یو کے لاپتہ طالبعلم نجیب احمد کی کہانی بیاں کرتی فلم ‘امی’ اور جنسی استحصال کے تجربات کو لےکر گلوکارہ سونا موہاپاترا پر مبنی ڈاکومنٹری فلم ‘شٹ اپ سونا ‘ شامل ہیں۔
وویک/ریزن، آور گوری اور امی نامی ڈاکیومنٹری فلموں کے پوسٹر(فوٹو بشکریہ: فیس بک/ٹوئٹر)
نئی دہلی: فلمسازآنند پٹ وردھن سمیت کئی فلمسازوں نے الزام لگایا ہے کہ ممبئی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول(ایم آئی ایف ایف) کے موجودہ سیشن میں ان کی فلمیں شامل نہیں کی گئیں، کیونکہ یہ حکومت کی تنقید کرتی ہیں۔ ان فلمسازوں نےمیلہ میں سیاسی سینسرشپ کا الزام لگاتے ہوئے اس کی مخالفت کی ہے۔یہ پانچ روزہ میلہ 28 جنوری کو شروع ہو ا ہے۔ وزارت اطلاعات ونشریات کے تحت آنے والے فلم ڈویژن نے اس کا انعقاد کیا ہے۔
فلم ہدایت کاروں-پنکج رشی کمار اور پردیپ کے پی(دیپو)کے ساتھ پٹ وردھن نے دعویٰ کیا کہ اطلاعات و نشریات کے وزیر پرکاش جاویڈکر نے میلہ کے لئےفلموں کو چھانٹنے کی خاطر اپنی وزارت کے ذریعے ایک ‘سنسکاری سمیتی’تشکیل کی ہے۔منگل کو پٹ وردھن نے ممبئی میں نامہ نگاروں سے کہا، ‘ ہمیں کچھ اندرونی جانکاری ملی ہے کہ یہاں تک کہ فلم ڈویژن بھی سلیکشن ٹیم کی تشکیل میں شامل نہیں تھی۔ اس کو وزارت اطلاعات و اشاعت، جو جاویڈکر خود ہیں نے بنایا۔سلیکشن کمیٹی کو ممبئی لایا گیا اور ایک مہینے اس کو ایک ہوٹل میں رکھا گیا۔انہوں نے (حکومت کے ذریعے چنے گئے لوگوں) انتخاب کیا۔ ‘
مشہور ڈاکیومنٹری فلم ‘رام کے نام ‘کےڈائریکٹر نے کہا، ‘ پہلےفلم ڈویژن کے علاقائی دفتر شروعاتی دور میں فلموں کا انتخاب کرتے تھے، جس کے بعدوہ مرکزی اکائی کی منظوری کے لئے ممبئی آتے تھے۔ ‘پٹ وردھن نے کہا، ‘یہ پورا پروسس بدل دیا گیا۔ ‘اس سال شامل نہیں کی جانے والی فلموں میں پٹ وردھن کی ‘وویک/ریزن ‘ شامل ہے، جس میں حال کے وقت میں ایک خاص سیاسی نظریہ کی عظمت کو پیش کیاگیا ہے۔ اس فلم نے انٹرنیشنل ڈاکیومنٹری فلم فیسٹیول میں بہترین فیچر ڈاکیومنٹری کا انعام جیتا ہے۔
اس میں نریندر دابھولکر، گووند پانسرے، ایم ایم کلبرگی اور گوریل نکیش جیسے عقلیت پسندوں کے قتل کو کور کیا گیا ہے اور ان جرائم کی مختلف تنظیموں سے تار جڑے ہونے کی جانچ کی گئی ہے۔فلمساز پنکج رشی کمار کی’جننیز جولیٹ’میں ذات، طبقہ اور جنس کے مضمرات کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔پنکج کی یہ فلم شیکسپیئر کے ڈرامے رومیو اور جولیٹ پر مبنی ہے۔ سال2019 میں کیرل انٹرنیشنل ڈاکیومنٹری اینڈ شارٹ فلم فیسٹیول میں اس فلم نے بیسٹ لانگ ڈاکیومنٹری کا انعام جیتا تھا۔
دیگر فلموں میں صحافی گوری لنکیش کی زندگی پر مبنی پردیپ کے پی کی فلم ‘آور گوری’، جے این یو کے لاپتہ طالبعلم نجیب احمد کی کہانی بیاں کرتی فلم’ امی’اور گلوکارہ سونا موہاپاترا پر دیپتی گپتا کے ذریعے بنائی گئی ڈاکومنٹری فلم ‘ شٹ اپ سونا ‘ شامل ہے۔ یہ فلم گلوکارہ کے جنسی استحصال کے تجربے پرمبنی ہے۔پردیپ نے فلموں کو خارج کئے جانے کو ‘سینما پر حملہ ‘ قرار دیتےہوئے الزام لگایا کہ فلم ڈویژن جیسے ملک کے اداروں کو رائٹ ونگ سوچکے مطابق شکل دی جا رہی ہے۔
آنند پٹ وردھن ہندوستان کے کچھ چنندہ ڈاکیومنٹری فلمسازوں میں سےایک ہیں۔ بابری مسجد کے انہدام پر انہوں نے فلم رام کے نام ڈاکیومنٹری بنائی تھی۔اس کے لئے ان کونیشنل ایوارڈ مل چکا ہے۔اس کے علاوہ ممبئی میں رہنے والی دلت کمیونٹی کی زندگی پرمبنی فلم ‘جئے بھیم کامریڈ ‘کے ہدایتکاری کی ہے۔ پٹ وردھن ‘وار اینڈ پیس’اور ‘فادر سن اینڈ ہولی وار ‘ جیسی فلمیں بنا چکے ہیں۔
غور طلب ہے کہ ممبئی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں اپنی فلمیں خارج کئے جانے کے خلاف دائر کی گئی ایک عرضی آنند پٹ وردھن اور پنکج رشی کمار نے ممبئی ہائی کورٹ سے سوموار کو واپس لے لی۔عرضی کی سماعت کے دوران مرکزی حکومت کی طرف سے پیش وکیل نے دلیل دی تھی کہ ان فلمسازوں کی فلموں کو خارج کرنے کا یہ فیصلہ اہلیت پر مبنی ہے اورڈاکومنٹری فلم تنقیدی موضوع پر مبنی نہیں ہے۔
فلمسازوں کی طرف سے پیش ہوئے وکیل مہر دیسائی نے دلیل دی تھی کہ فلموں کو خارج کرنے کے پیچھے فلمی میلے کے منتظمین نے سرکاری طور پر کوئی وجہ نہیں بتائی، اس لئے فلمسازوں کو یہ خدشہ ہے کہ ان فلموں کے موجودہ سیاسی منظرنامہ کی تنقید کرنے کی وجہ سے ایسا ہوا ہوگا۔اس پر مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات کے فلم ڈویژن کی طرف سےایڈیشنل سالیسٹر جنرل انل سنگھ نے کہا تھا کہ کمیٹی میں آزادانہ طورپر کام کرنےوالے ماہر فلم ڈائریکٹر شامل تھے اور فلموں کے انتخاب میں حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے۔ یہ فلمیں خارج کئے جانے کی بنیاد یہ نہیں ہے کہ یہ تنقیدی تھیں۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا، ‘ منتخب کی گئیں دیگر فلمیں بہتر تھیں۔ ‘
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)