مجھے نہیں لگتا ہے کہ مرکزی کردار کے لئے منوج واجپئی سے بہتر کوئی آپشن ہوتا۔ وہ چہرے پر درد بھری ایک گانٹھ کو جس طرح سے پوری فلم میں لےکر چلتے ہیں، ناظرین کو اپنے اثر سے باہر نہیں آنے دیتے۔
گلی گلیاں، میں نے گزشتہ سال مامی میں دیکھی تھی۔ میرے لئے اس فلم کو دیکھنا اس لئے بھی حیران کن تھا، کیونکہ اس لیول کا سائیکولاجیکل تھریلر میں نے گلی گلیاں سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ عام طور پر ایسی فلموں میں کردار بغیر کسی پس منظر کے اپنے حالات کو طرح طرح سے ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن گلی گلیاں میں سماج اور چاردیواروں کے اندر فیملی میں غرور کے طلسم سے پیدا ہونے والے غصے کی تہیں بھی ہیں۔ یہ کچھ اس طرح سے ہیں کہ پتا بھی نہیں چلتا کہ ہم ایک کہانی دیکھ رہے ہیں یا کہانی کا پس منظر دیکھ رہے ہیں۔
ان دو متوازی کہانیوں کے بیچ ایک دیوار ہے، جس نے وقت کے فاصلے مٹا دئے ہیں۔ دونوں کہانیاں اتنے Timelessطریقے سے پانی میں چینی گھولکر شربت کی طرح بیان کی گئی ہیں کہ ناظرین کو لگتا ہے وہ ایک ہی کہانی دیکھ رہے ہیں اور آخر میں اپنے ہدف تک پہنچنے کے لئے بےچین کردار کی روح کو بھی پر سکون ہوتے ہوئے دیکھیںگے۔ لیکن ان کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک جاتی ہے، جب وہ دیکھتے ہیں کہ دیوار کے دونوں طرف دراصل ایک ہی کردار ہے۔ جبکہ دیوار کمرے میں ٹنگا ہوا آئینہ نہیں ہے، کہانی کا ایک انوکھا کرافٹ ہے۔
گلی گلیاں کی کہانی ہدایت کار دیپیش جین نے خود لکھی ہے۔ یہ ان کی پہلی بڑی فلم ہے۔ اس سے پہلے انہوں نے کئی چھوٹی چھوٹی فلمیں بنائی ہیں۔ کیلیفورنیا فلم اسکول سے گریجویٹ دیپیش نے گلی گلیاں کے ساتھ ایک بڑی لائن کھینچ دی ہے۔ کاسٹنگ ڈائریکٹر دلیپ شنکر نے دیپیش جین کی اس کہانی کے لئے اداکار بھی ویسے ہی چنے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا ہے کہ مرکزی کردار کے لئے منوج واجپئی سے بہتر کوئی آپشن ہوتا۔ وہ چہرے پر درد بھری ایک گانٹھ کو جس طرح سے پوری فلم میں لےکر چلتے ہیں، ناظرین کو اپنے اثر سے باہر نہیں آنے دیتے۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ گلی گلیاں میں جس کردار کو انہوں نے نبھایا ہے، ایسے کردار کے لئے وہ سب سے بہتر ہیں۔ بلکہ اس فلم میں ان کو دیکھکر اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ وہ ہر طرح کے کرداروں کے لئے، ہدایت کاروں کے لئے سب سے بہتر آپشن ہیں۔ گزشتہ دنوں علی گڑھ سے لےکر عیاری تک انہوں نے جس قسم کے کردار نبھائیں ہیں ، بے شک گلی گلیاں اس سے آگے کی کڑی ہے۔ وقت کے ساتھ ان کی اداکاری کی دھار اور پینی اور پینی ہوتی جا رہی ہے۔
بہر حال، میں شہانا گوسوامی کے لئے بھی اس فلم کو ہمیشہ یاد کرنا چاہوںگا۔ اپنے بچے کو بےانتہا پیار کرنے والی ایک بے بس ماں کا کردار انہوں نے جس شدت کے ساتھ نبھایا ہے، وہ دل میں گہرائی سے جگہ بناتا ہے۔ فلم میں شہانا پر آپ کو بےحد پیار آتا ہے اور ٹھیک اسی مقدار میں ترس بھی آتا ہے۔ میں نے شہانا کو اس سے پہلے کبھی دیکھا نہیں تھا یا دیکھا بھی تھا تو ان کے کردار مجھے یاد نہیں۔ حالانکہ انہوں نے راک آن (دونوں پارٹ)، فراق اور ہروئن میں اچھے رول کیے ہیں، لیکن گلی گلیاں کی سائرہ کے طور پر انہوں نے اپنے کیریئر میں نیا میل کا پتھر (Milestone) جوڑ دیا ہے۔
خیر، نیرج کابی تو نیرج کابی ہیں۔ وہ بےحد فطری اداکار ہیں۔ جس قسم کا فطری پن ان کی اداکاری میں دکھتا ہے، وہ بالی وڈ میں ایک نایاب چیز ہے۔ رنویر شوری اس فلم میں منوج واجپئی کے دوست بنے ہیں اور بچپن کے دوست کو جوانی تک جیسا دوست ہونا چاہیے ، وہ گلی گلیاں میں ویسے ہیں۔ چائلڈ آرٹسٹ اوم سنگھ ایک نئی کھوج ہیں۔ اوم سنگھ کے بارے میں ابھی صرف اتناہی کہ وہ اس فلم کے تمام منجھے ہوئے فنکاروں پر بھاری ہیں۔
The post
گلی گلیاں : اس لیول کا سائیکولاجیکل تھریلر میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا… appeared first on
The Wire - Urdu.