پارٹی چھوڑنے کے بڑھتے رجحان ، گورنر اور حریف جماعتوں کی الزا م تراشی ، عسکری تنظیموں کی لوگوں کو محبوبہ کو گھروں میں نہ آنے دینے کی اپیل اور سخت عوامی غم و غصے کے درمیان محبوبہ مفتی کس طرح اپنی پارٹی کوسمیٹ پائیں گی اور انتخابات میں کون سے مدعے لے کر عوام کے بیچ جائیں گی یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
محبوبہ مفتی کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)
گزشتہ دنوں ایک بار پھر جموں وکشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے ریاست کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا؛’ عسکریت پسندوں کے ساتھ ہمدردی کے سِوا محبوبہ کے پاس کوئی چارہ نہیں ۔ یہ ان کی سیاسی مجبوری ہے ۔پی ڈی پی بکھر رہی ہے اس لئے محبوبہ مفتی کی باتوں کو سنجیدگی سے نہ لیا جائے۔’گورنرکے اس بیان پر پی ڈی پی نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گورنر آئینی پوزیشن پر براجمان ہیں اور ایک مقامی نوجوان پر فورسز کے تشددکا نوٹس لینے کے بجائے وہ سیاسی بیان بازی کر رہے ہیں۔سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی گورنر کے اس بیان کو ناقابل قبول اور سیاست میں بے جا مداخلت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے سیاسی بیانات سے راج بھون پر سوال اٹھیں گے ۔
پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے یہ ٹوئٹ پلوامہ کے ایک نوجوان توصیف کی ہسپتال میں عیادت کے بعد کیا تھا ۔ توصیف کی مبینہ طور پر میجر روہت شکلا نے فوجی کیمپ میں بلا کر شدید مارپیٹ کی جس کے بعد اسے ہسپتال میں شدید زخمی حالت میں داخل کیا گیا۔محبوبہ مفتی پر اس وقت کشمیر میں بکھر رہی اُن کی جماعت پی ڈی پی کو سنبھالنے کا سخت چیلنج در پیش ہے۔1999میں سیلف رول کے ایجنڈہ پر شورش زدہ اور 1990 کے پر اسرار حالات سے اُبھر رہی ریاست جموں وکشمیرمیں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اپنے قیام کے محض تین برسوں میں ایک بڑی علاقائی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی ۔1990ء میں کشمیر میں شروع ہوئی مسلحہ آرائی نے یہاں سیاسی ، سماجی اور اقتصادی غیر یقینیت کو جنم دیا۔
1990ء میں ملک کے وزیر داخلہ رہ چکے پی ڈی پی کے بانی مفتی محمد سعید کی اس مین اسٹریم پارٹی نے ہند و پاک سرحدوں کو کھولنے، ہند و پاک کے مابین بلا شرط بات چیت ، کشمیر سے فوجی انخلاء ، سیلف رول اور ہیلنگ ٹچ کی باتیں کہیں جو کشمیر ی عوام کے لئے کسی مسیحائی پیغام سے کم نہیں تھا جنہوں نے پارٹی کے نظریے کو تقریباً قبول کیا اور اسے نیشنل کانفرنس جیسی سب سے بڑی علاقائی جماعت پر ترجیح دی۔پی ڈی پی نے اپنے وجود میں آنے سے محض تین برسوں میں ریاست خاص کر وادی کشمیر میں اپنی ساخت بنائی اور 2002ء میں کانگریس اور پینتھرس پارٹی کی حمایت سے ریاست میں پہلی دفعہ سرکار بنائی۔ پارٹی کو کشمیر میں 16سیٹوں پر فتح حاصل ہوئی جن میں جنوبی کشمیر کی 10سیٹیں بھی شامل تھیں۔
2008ء کے آتے آتے پی ڈی پی کی ساخت کمزور ہونے لگی ۔ اگلے انتخابات میں پارٹی نے 16سیٹوں پر فتح حاصل کر لی البتہ نیشنل کانفرنس سب سے بڑی پارٹی کے طور پر پھر اُبھری اور اس بار عمر عبداللہ ریاست کے وزیرا علیٰ بن گئے۔2010ء میں مژھل فرضی انکاؤنٹر کے بعد ہوئے ریاست گیر احتجاج اور مظاہروں نے نیشنل کانفرنس کی جڑیں ہلادیں ۔عمر عبداللہ کے دورِاقتدار میں عوامی احتجاج پر قابو پانے کی کوششوں میں تقریباً 110 عام شہری جاں بحق ہوئے ۔ 1990ء کے بعد پہلی دفعہ اس حد تک ریاست گیر احتجاج ہوئے۔
اس عوامی غم و غصے کے نتیجے میں 2014 کے اسمبلی انتخابات میں نیشنل کانفرنس کو شکست ہوئی اور نظرئیے سے نرم دکھنے والی پی ڈی پی 28سیٹیں جیت کر ریاست میں ایک بار پھر سب سے بڑی جماعت کے طور پر اُبھری ۔ معلق اسمبلی کے وجود میں آنے کے اگلے تین مہینوں تک سرکار کی تشکیل پر تذبذب بنا رہا اور ایجنڈا آ ف الائنس کے کاغذی دستاویز پر مفتی محمد سعید نے اُسی بی جے پی سے اتحاد کیا جس پر فرقہ پرست ہونے کا الزا م لگا کر انہوں نے اِسے چُنا وی ریلیوں میں دُور رکھنے کی عوام سے اپیلیں کی تھیں۔
ریاست کی تاریخ میں پہلی بار ہندو نواز بی جے پی سرکار میں شامل ہوئی اور مفتی محمد سعید دوسری دفعہ ریاست کے وزیرا علیٰ بن گئے ۔2015ء میں ان کے انتقال کے بعد ریاست میں پھر گورنر راج نافذ ہوا ۔اگلے تین مہینوں کے لمبے سوچ وچار کے بعد مفتی محمد سعید کی صاحبزادی محبوبہ مفتی نے بی جے پی کے ساتھ پھر یہ کہہ کر اتحاد کیا کہ ان کے والد کا فیصلہ ان کے لئے مقدس ہے۔حکومت سنبھالنے کے 6ماہ بعد ریاست کی پہلی خاتون وزیرا علیٰ محبوبہ مفتی کو اپنے سب سے بڑے سیاسی چیلنج کا سامنا ہوا جب 2016ء میں نوجوان حز ب کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کےبعد پوری وادی میں چار ماہ تک معمولات مفلوج ہو کر رہ گئے ۔ عوامی غم و غصے اور احتجاجوں پر قابو پانے کی محبوبہ کی کوششوں میں ایک سو سے زائد عام شہری فورسز کی کارروائی میں جاں بحق ہوئے۔چار ماہ بعد حالات رفتہ رفتہ معمول پر آگئے البتہ پی ڈی پی ریاست میں اپنی ساخت کھونے لگی ۔
محبوبہ کے دور اقتدار میں 2018ء میں
کٹھوعہ میں ایک سات سالہ بچی کے ریپ اور قتل نے پوری ریاست کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ محبوبہ کی شناخت پر اُس وقت سنگین الزامات لگے جب اس کی اتحادی بی جے پی کے دو کابینہ وزراء چودھری لال سنگھ اور چندرپرکاش گنگا نے ہندو ایکتا منچ کی اس ریلی میں شرکت کی جو اس بہیمانہ ریپ اور قتل کے ملزموں کی رہائی کے حق میں نکالی گئی۔سخت عوامی تنقید کے بعد ان وزراء کو وزارتی کونسل سے ہٹایا گیا۔ جو ن 2018ء میں رمضان سیز فائر اور
سینئر صحافی شجاعت بخاری کے قتل نے حالات بد ل دئیے اور محبوبہ کے فیصلوں پر اعتراض کرنے والی بی جے پی نے بالآخر پی ڈی پی سے اپنا اتحاد واپس لے لیا اور اس طرح دو متضاد نظریات رکھنے والی جماعتوں کی مخلوط سرکار ٹوٹ گئی۔
زہر کا پیالہ
7؍ جنوری کو اپنے والد کی برسی پر بجبہاڑہ میں محبوبہ مفتی نے کہا کہ بی جے پی کے ساتھ ان کا اتحاد ایک زہر کا پیالہ ثابت ہوا ۔وزیر اعلیٰ کے طور پر محبوبہ مفتی نے فورسز کے ہاتھوں کم عمر بچوں کی ہلاکت کو یہ کہہ کر بھی جائزہ ٹھہرایا تھا کہ وہ فوجی کیمپوں سے ٹافی لینے نہیں گئے تھے۔محبوبہ نے اپنے اس ٹافی ریمارک پر بھی معافی مانگی اور عوام سے انہیں معاف کرنے کی اپیل کی۔پارٹی کے ایک سینئر لیڈر نے وائر کو بتایا؛’ محبوبہ کا قد بہت بڑھ گیا تھا ۔وہ خود کو سب سے بڑا تصور کرنے لگی تھی اور اکثر سینئر لیڈروں کی رائے اور مشوروں کو نظر انداز کیا جاتا تھا۔ وہ خود کو اندرا گاندھی سمجھنے لگی تھی۔’
سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار محمدیوسف کے مطابق؛’اتحاد کو زہر کا پیالہ قرار دینے کے بجائے محبوبہ کے پاس کوئی چارہ نہیں ۔یہ اتحاد ریاست خاص کر وادی میں خونی ثابت ہوا اور سینکڑوں لوگ اس کی بھینٹ چڑھ گئے۔’سینئر لیڈروں کو نظر انداز کرنے اپنے ماما سرتاج مدنی ، بھائی تصدق مفتی ، رشتہ دار پیر منصور اور قریبی نعیم اختر کو ترجیح دینے پر پارٹی کے اندر ہی محبوبہ کے خلاف آواز بلند ہونے لگی ۔ بی جے پی کی حمایت واپس لینے کے فیصلے نے پارٹی کے اندر محبوبہ کے خلاف پنپ رہے اس غصے پر آگ پر گھی ڈالنے کا کا م کیا۔
پارٹی کے کور گروپ کے ممبر اور سرکردہ لیڈر عمران انصاری نے اپنے بھائی عابد انصاری کے ہمراہ پارٹی سے کنارہ کشی اختیار کر لی ۔ اگلے چند مہینوں میں حسیب درابو ، بشارت بخاری، جاوید حسین بیگ ،جاوید مصطفی میر، پیر منصور ، مجید پڈر ،سیف الدین بٹ اور یاسر ریشی جیسے لیڈروں سمیت تقریباً 13لیڈر جن میں کئی سابق وزراء اور ممبرانِ اسمبلی بھی شامل ہیں ،پارٹی چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور کئی انتخابی حلقوں میں پارٹی کا سیاسی مستقبل تقریباً ختم ہوگیا ہے۔
تھرڈ فرنٹ
پی ڈی پی کے بکھر جانے سے اگر سب سے زیادہ فائدہ کسی کو ہوا ہے وہ یاتو نیشنل کانفرنس یا سجاد لون کی پیپلز کانفرنس ہے۔عمران انصاری ، عابد انصاری اور کئی دیگر لیڈر پیپلز کانفرنس جبکہ بشارت بخاری ، پیر منصور اور دیگر کئی لیڈر نیشنل کانفرنس میں شامل ہوئے ہیں۔ریاستی اسمبلی تحلیل ہونے سے قبل کئی حلقے یہ قیاس آرائیاں کر رہے تھے کہ ریاست میں تھرڈ فرنٹ اُبھر رہا ہے اور سجاد لون ریاست کے وزیرا علیٰ بن سکتے ہیں۔پی ڈی پی حکومت میں نائب وزیر اعلیٰ رہ چکے مظفر حسین بیگ نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر سجاد لون کی قیادت میں تھرڈ فرنٹ اُبھرتا ہے ، وہ اس میں شامل ہونے پر سنجیدگی سے غور کریں گے۔مظفر بیگ کے اس اعلان کے بعد محبوبہ نے اُن سے ذاتی ملاقات کی او رانہیں پارٹی کا سرپرست مقرر کیا جبکہ ان کی اہلیہ سفیہ بیگ کو خاتون وِنگ کی سربراہ بنایاگیا۔
عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی (فوٹو : پی ٹی آئی)
سجاد لون کے سیاسی قد اور لیڈروں کے پارٹی چھوڑنے کے رجحان کو بڑھتا دیکھ این سی ، کانگریس اور پی ڈی پی نے مخلوط سرکار بنانے کا دعویٰ پیش کیا۔ سجاد لون نے بھی اسی روز بی جے پی کے اتحاد سے سرکار بنانے کا دعویٰ پیش کیاتاہم
گورنر ستیہ پال ملک نے اسمبلی تحلیل کی اور تھرڈ فرنٹ کے قیام کاخدشہ ٹل گیا۔
محبوبہ کی سیاسی پینترے بازی
تجزیہ کار محمد یوسف کے مطابق ؛’2014ء کے اسمبلی انتخابات سے قبل عمر عبداللہ کے دور اقتدار میں محبوبہ مفتی اکثر اُن عسکریت پسندوں کے اہل خانہ سے ہمدردی جتاتی تھیں جن کے بیٹے تصادموں میں مارے جاتے تھے۔ اقتدار میں آنے کے بعد محبوبہ کا رویہ بالکل مختلف رہا اور وزیر اعلیٰ کے طور انہوں نے ملی ٹنسی کے خاتمے کی بات کہی، شہری ہلاکتوں اور عوام پر ہوئے تشدد کا دفاع کیا۔’
اقتدار کھونے کے بعد محبوبہ پھر سے پرُانی طرز کی سیاست کرنے لگی ہے اور گزشتہ مہینے ایک بار پھر وہ مہلوک عسکریت پسندوں کے گھر گئیں اور ان کے کنبوں سے ہمدردی کا اظہار کیا۔محبوبہ کے اس بدلتے رویے کی جہاں حریف جماعتوں نے سخت نکتہ چینی کی وہیں ریاست کے گورنر ستیہ پال ملک نے یہاں تک کہہ دیا کہ محبوبہ کے پاس اور کوئی چارہ نہیں کیوں کہ یہ ان کی سیاسی مجبوری ہے ۔کشمیر میں حزب کمانڈر ریاض نائیکونے ایک آڈیو پیغام میں محبوبہ کے اس رویے کو انتخابی ڈرامہ بتاتے ہوئے محبوبہ کو بے ضمیرقراردیا اور لوگوں کو اگلی دفعہ اُسے گھر سے باہر پھینکنے کی اپیل کی ،تاہم پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق ملی ٹنٹ کنبوں سے ہمدردی ایک سوچا سمجھا فارمولہ ہے ۔
ایک پارٹی لیڈر کے مطابق ؛’پی ڈی پی کو 2014ء کے انتخابات میں جنوبی کشمیر کی 16سیٹوں میں سے 12پر فتح حاصل ہوئی تھی جو انتخابات میں کامیابی کے لئے اہم ہے۔اس لئے پارٹی کے پاس جنوبی کشمیر میں اپنی کھوئی ہوئی ساخت بحال کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ اگر پارٹی کو انتخابات میں پھر اپنی پوزیشن مستحکم کرنی ہے تو جنوبی کشمیر کے اسمبلی حلقوں میں کام کرنا بے حد ضروری ہے۔’
سیاسی تجزیہ کار محمد اسلم کے مطابق ؛’اگر چہ ریاست کے سیاسی نقشے پر اِس وقت پی ڈی پی سب سے کمزور جماعت نظر آرہی ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ جنوبی کشمیر میں کسی اور مقامی پارٹی کی ساخت بھی کچھ خاص مضبوط نہیں ہے اور ابھی بھی جنوبی کشمیر پی ڈی پی کے لئے ایک مرکز بنا ہوا ہے ۔اگر جنوبی کشمیرمیں الیکشن کا بائیکاٹ بھی ہوتا ہے تب بھی سب سے زیادہ فائدہ پی ڈی پی کو ہی ملے گا۔’
یوسف کے مطابق شدید عوامی غم و غصے اور عسکری دباؤ کے باوجود بھی پی ڈی پی کے پاس جان کی بازی لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔پی ڈی پی سے ابھی تک تقریباً 15ممبران کنارہ کشی اختیار کر چکے ہیں ۔کئی قد آور لیڈروں کے پارٹی چھوڑنے کے بعد محبوبہ مفتی نے گزشتہ مہینے یہ کہا تھا کہ پی ڈی پی اب کچڑے سے صاف ہو گئی ہے اور انتخابات کے وقت لیڈر آتے اور چلے جاتے ہیں۔دوسری طرف ریاست کے گورنر بھی آئے روز محبوبہ پر الزام تراشی کر رہے ہیں۔ یہ لفظی جنگ جاری ہے۔ عسکریت پسندوں کے گھروں میں جاکر ہمدردی کرنے کا محبوبہ کا فیصلہ ’بیک فائر‘ کر رہا ہے۔ پارٹی کی گزشتہ میٹنگ میں کئی اہم لیڈروں نے شرکت نہیں کی۔ایسے میں پارٹی ممبران کے پارٹی چھوڑنے کے بڑھتے رجحان ، گورنر اور حریف جماعتوں کی الزا م تراشی ، عسکری تنظیموں کی لوگوں کو محبوبہ کو گھروں میں نہ آنے دینے کی اپیلوں اور سخت عوامی غم و غصے کے دباؤ تلے محبوبہ کس طرح بکھر رہی ان کی پارٹی کو کیسے سمیٹیں گی اور انتخابات میں کون سے مدّعے لے کر عوام کے سامنے جائیں گی یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
(نصیر احمد سرینگر میں مقیم ملٹی میڈیا صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔)
The post
کشمیر : کیا محبوبہ مفتی بکھر رہی پی ڈی پی کو سمیٹ پائیں گی ؟ appeared first on
The Wire - Urdu.