نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی، کانگریس اور تین دیگر پارٹیوں نے جموں وکشمیر میں آرٹیکل 370 کی بحالی کے لیے مل کر لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے ایک منشور جاری کیا تھا۔ پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے اس کوحمایت دینے کی بات پر سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے یہ تبصرہ کیا ہے۔
نیشنل کانفرنس کے صدرفاروق عبداللہ۔ فوٹو: پی ٹی آئی
نئی دہلی: جموں وکشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آئین کے آرٹیکل370 کے اکثر اہتماموں کوختم کرنے کے مرکز کے قدم کے خلاف اتحاد کا مظاہرہ کرنے والی چھ سیاسی پارٹیوں کے گپ کر منشور کو پاکستان کے ذریعے سراہے جانے پر نیشنل کانفرنس کے رہنما فاروق عبداللہ نے سخت ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی نہیں ہیں۔
عبداللہ نے کہا، ‘پاکستان نے ہمیشہ جموں وکشمیر کی مین اسٹریم کی سیاسی پارٹیوں کی توہین کی ہے لیکن اب اچانک وہ ہمیں پسند کرنے لگے ہیں۔’دراصل پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے حال ہی میں ایک بیان دیا تھا کہ نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی، کانگریس اور تین دیگرپارٹیوں نے جو منشور جاری کیا ہے وہ، ‘کوئی عام واقعہ نہیں ہے، بلکہ اہم واقعہ ہے۔’
سابق وزیر اعلیٰ نے اسی پر ردعمل دیتے ہوئے یہ بات کہی۔ انہوں نے کہا، ‘میں یہ واضح کر دوں کہ ہم کسی کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی نہیں ہیں، نہ تو نئی دہلی کے اور نہ ہی سرحد پار کسی کے۔ ہم جموں وکشمیر کی عوام کے لیے جوابدہ ہیں اور ان کے لیے کام کریں گے۔’
سرحد پاردہشت گردی پر ایک سوال کے جواب میں عبداللہ نے کہا، ‘میں پاکستان سے ہتھیاربند لوگوں کو کشمیر بھیجنے سے روکنے کی اپیل کروں گا۔ ہم اپنی ریاست میں خون ریزی کوختم کرنا چاہتے ہیں۔ جموں وکشمیر کی تمام سیاسی پارٹیاں اپنے حقوق کے لیےپرامن ڈھنگ سے لڑائی لڑنے کے لیے پرعزم ہیں۔ اس میں وہ بھی شامل ہے، جو پچھلے سال پانچ اگست کو غیر آئینی طور پر ہم سے چھین لیا گیا تھا۔’
عبداللہ نے ہندوستان اور پاکستان سے ‘سب کی بھلائی کے لیے’ بات چیت شروع کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا،‘جب بھی سیز فائرکی خلاف ورزی کے واقعات ہوتے ہیں تب لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف ہمارے لوگ مارے جاتے ہیں۔ خدا کے لیے اسے روکیے۔’
غورطلب ہے کہ 22 اگست کو چھ علاقائی پارٹیوں نے پانچ اگست 2019 کو آئین کے آرٹیکل370 کے اکثر اہتمام کورد کرنے کے فیصلے کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے پھر سے اس کی بحالی کے لیے مل کرجدوجہد کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس سلسلے میں ایک منشور جاری کیا تھا۔
جموں وکشمیر کی مین اسٹریم کی تمام پارٹیوں کے اس مشترکہ بیان پر نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ، پی ڈی پی چیف محبوبہ مفتی، پیپلس کانفرنس کے صدر سجاد لون، ریاستی کانگریس چیف جی اے میر، ایم وائی تارےگامی اور جموں وکشمیر عوامی نیشنل کانفرنس کے مظفر شاہ کے دستخط ہیں۔
جموں وکشمیر کے لوگوں کے حقوق کی لڑائی کے لیے اتحاد کو ایک مؤثر طریقہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘ہم لوگوں کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہماری تمام سیاسی سرگرمیاں جموں وکشمیر کی صورت حال کے لیے مقدس ہدف کے تحت ہوں گی، کیونکہ یہ 4 اگست 2019 کو وجود میں تھا۔’
حالانکہ،تمام پارٹیوں کی اس بیٹھک میں صرف سابق آئی اے ایس افسر شاہ فیصل ہی شامل نہیں تھے، جنہوں نے حال ہی میں سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔
نیشنل کانفرنس کی سیاسی امور کی کمیٹی نے میٹنگ کی
نیشنل کانفرنس کی سیاسی امور کمیٹی(پی اے سی)کی میٹنگ سنیچر کو شروع ہوئی۔ پچھلے سال اگست میں جموں وکشمیر کا خصوصی درجہ ختم کیے جانے کے مرکز کے فیصلے کے بعد پارٹی کی فیصلہ لینے والی اکائی کی یہ پہلی میٹنگ ہے۔نیشنل کانفرنس کے ایک رہنمانے بتایا کہ پارٹی صدر فاروق عبداللہ کی صدارت میں پارٹی کے ہیڈکوارٹر نوائے صبح میں پی اے سی کی بیٹھک شروع ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ پارٹی کے نائب صدر عمر عبداللہ اور جنرل سکریٹری علی محمد ساگر سمیت دوسرے سینئر رہنما بیٹھک میں موجود تھے۔انہوں نے بتایا کہ پی اے سی میں شامل جموں حلقہ کے رہنما ویڈیو کانفرنس کے ذریعے بیٹھک میں شامل ہوئے۔پچھلے سال اگست میں جموں وکشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے اور ریاست کو دو یونین ٹریٹری میں بانٹنے کے مرکز کے فیصلے کے بعد نیشنل کانفرنس کی سیاسی امورں کی کمیٹی کی یہ پہلی بیٹھک ہے۔
پچھلے ہفتے فاروق عبداللہ نے یہاں اپنے گپکر رہائش پر تین دنوں میں پارٹی کے مختلف رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کی تھی۔ نیشنل کانفرنس کے صدر نے ان رہنماؤں سے ملاقات کی جنہیں پچھلے ایک سال سے حراست میں رکھا گیا تھا اور پارٹی نے ان کی حراست کو عدالت میں چیلنج دیا تھا۔ حالانکہ، سرکار نے عدالت میں کہا تھا کہ ان رہنماؤں کو حراست میں نہیں رکھا گیا تھا اور وہ کہیں بھی جانے کے لیے آزاد تھے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)