دہلی کی مختلف سرحدوں پر لکڑیاں اکٹھا کرکے جلائی گئیں اور اس کے چاروں طرف گھومتے ہوئے کسانوں نے نئےزرعی قوانین کی کاپیاں جلائیں۔ اس دوران مظاہرہ کررہے کسانوں نے نعرے لگائے، گیت گائے اور اپنی تحریک کی جیت کی دعاکی۔ کسان ایک مہینے سے زیادہ سے ان قوانین کی مخالفت میں مظاہرہ کر رہے ہیں۔
دہلی کے سنگھو بارڈر پر بدھ کوزرعی قوانین کی کاپیاں جلاتے کسان۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: دہلی کی سرحدوں پر مظاہرہ کر رہے کسانوں نے بدھ کو لوہڑی کے موقع پر نئےزرعی قوانین کی کاپیاں جلائیں۔سنیکت کسان مورچہ کے پرم جیت سنگھ نے کہا کہ اکیلےسنگھو بارڈر پر ہی زرعی قوانین کی ایک لاکھ کاپیاں جلائی گئیں۔
وسنت کی شروعات میں پنجاب، ہریانہ سمیت شمالی ہندکی کئی ریاستوں میں لوہڑی کا تہوار منایا جاتا ہے۔ اس دن لوگ لکڑیاں اکٹھی کرکے جلاتے ہیں اور خوسی اور خوشحالی کی دعا کرتے ہیں۔
ہریانہ کے کرنال ضلع سے آئے 65 سال گرپریت سنگھ سندھو نے کہا، ‘تہوار انتظار کر سکتے ہیں۔ مرکز کی جانب سے جس دن ان کالے قوانین کو واپس لینے کی ہماری مانگ کو مان لیا جائےگا، ہم اسی دن سب تہواروں کو منائیں گے۔’
دہلی ہریانہ سرحد پر قطار میں لکڑیاں اکٹھا کرکے جلائی گئیں اور اس کے چاروں طرف گھومتے ہوئے کسانوں نے نئےزرعی قوانین کی کاپیاں جلائیں۔ اس دوران مظاہرہ کرہے کسانوں نے نعرے لگائے، گیت گائے اور اپنی تحریک کی جیت کی دعا کی۔
پنجاب کے برنالہ ضلع سے آئے 34 سالہ کسان راج بیر سنگھ نے کہا، ‘یہ لوہڑی جدوجہد سے بھری ہے۔ اس بار گھر میں ہر سال منائی جانے والی لوہڑی کے دوران ہونے والےرقص اور گیت جیسا جوش نہیں ہے۔ حالانکہ، میں یہاں مظاہرہ میں شامل ہوکر خوش ہوں اور اپنے کسان پریوار کے ساتھ تہوار منا رہا ہوں۔’
انہوں نے کہا، ‘آج، ہم نے کاپیاں جلائی ہیں اور کل،مرکز انہیں جلائےگا۔ انہیں ایسا کرنا پڑےگا، ہم انہیں ایسا کرنے کو مجبور کر دیں گے۔’اس بیچ کسان آندولن کاریالیہ میں بھی یوگیندر یادو، گرنام سنگھ چڈھونی سمیت دیگر کسان رہنماؤں نے بھی زرعی قوانین کی کاپیاں جلائیں۔
غورطلب ہے کہ اس سے پہلے مرکز اور کسانوں کے بیچ ہوئی آٹھویں دور کی بات چیت میں بھی کوئی حل نکلتا نظر نہیں آیا کیونکہ مرکز نے متنازعہ قانون کو رد کرنے سے انکار کر دیا تھا جبکہ کسان رہنماؤں نے کہا تھا کہ وہ آخری سانس تک لڑائی لڑنے کے لیے تیار ہیں اور ان کی‘گھر واپسی’ صرف قانون واپسی کے بعد ہوگی۔
مرکز اور کسان رہنماؤں کے بیچ 15 جنوری کو اگلی بیٹھک مجوزہ ہے۔ حالانکہ، اس دوران ایسی خبریں آئی تھیں کہ سرکار نے کہا کہ اس معاملے کا فیصلہ سپریم کورٹ کو ہی کرنے دیں۔حالانکہ، اس کے بعد کسان تنظیموں نے کہا کہ قانون سرکار نے بنایا ہے اور ہم اسی سے قانون واپس لینے کی مانگ کر رہے ہیں او رسپریم کورٹ کے کسی فیصلے کے بعد بھی واپس نہیں لوٹیں گے۔
سوموار کو عدالت نے زرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ کر رہے کسان تنظیموں سے کہا، ‘آپ کو بھروسہ ہو یا نہیں، ہم بھارت کی سب سے بڑی عدالت ہیں، ہم اپنا کام کریں گے۔’
معلوم ہو کہ معلوم ہو کہ مرکزی حکومت کی جانب سے زراعت سے متعلق تین بل– کسان پیداوارٹرید اور کامرس(فروغ اور سہولت)بل، 2020، کسان (امپاورمنٹ اورتحفظ) پرائس انشورنس کنٹریکٹ اور زرعی خدمات بل، 2020 اور ضروری اشیا(ترمیم)بل، 2020 کو گزشتہ27 ستمبر کو صدر نے منظوری دے دی تھی، جس کے خلاف کسان مظاہرہ کر رہے ہیں۔
کسانوں کو اس بات کا خوف ہے کہ سرکار ان قوانین کے ذریعےایم ایس پی دلانے کے نظام کو ختم کر رہی ہے اور اگراس کو لاگو کیا جاتا ہے تو کسانوں کو تاجروں کے رحم پر جینا پڑےگا۔دوسری جانب مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی مودی سرکار نے باربار اس سے انکار کیا ہے۔ سرکار ان قوانین کو ‘تاریخی زرعی اصلاح’ کا نام دے رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ زرعی پیداوار کی فروخت کے لیے ایک متبادل نظام بنا رہے ہیں۔
ان قوانین کے آنے سے بچولیوں کا رول ختم ہو جائےگا اور کسان اپنی اپج ملک میں کہیں بھی بیچ سکیں گے۔دوسری طرف مظاہرہ کر رہے کسان تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان قوانین سے ایم ایس پی کا سکیورٹی کوراور منڈیاں بھی ختم ہو جائیں گی اورکھیتی بڑے کارپوریٹ گروپوں کے ہاتھ میں چلی جائےگی۔
اس بیچ سپریم کورٹ نے گزشتہ 12 جنوری کو مرکز اور دہلی کی سرحدوں پر دھرنا دے رہے کسان تنظیموں کے بیچ جاری تعطل کوختم کرنے کے ارادے سے ان قوانین کے عمل پر اگلے آرڈر تک روک لگانے کے ساتھ ہی کسانوں کےمسائل پرغور کرنےکے لیے چار رکنی کمیٹی کی تشکیل کی تھی۔
حالانکہ کمیٹی بننے کے بعد کسانوں نے کہا ہے کہ وہ اس کے سامنے پیش نہیں ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی کمیٹی کے ممبر سرکار کے حامی ہیں، جو ان قوانین کے حق میں ہیں۔اس سے پہلے 11 جنوری کو سپریم کورٹ نے تین زرعی قوانین کو لےکر کسانوں کے مظاہرہ سے نمٹنے کے طریقے پرمرکز کو آڑے ہاتھ لیتے ہوئے کہا تھا کسانوں کے ساتھ اس کی بات چیت کے طریقے سے وہ ‘بہت مایوس’ہیں۔
بہرحال، کسانوں نے مخالفت کی آگے کی پالیسی کے تحت 26 جنوری کویوم جمہوریہ کے موقع پر دہلی میں ٹریکٹر پریڈ نکالنے کا منصوبہ بنایا ہے۔اس کے خلاف دہلی پولیس کی طرف سے عدالت میں عرضی دائر کرکے کسانوں کو 26 جنوری کی مجوزہ ‘ٹریکٹر پریڈ’یا کسی بھی طرح کے مارچ پر روک لگانے کا آرڈر دینے کی مخالفت کی۔ اسے لےکر کورٹ نے کسان تنظیموں کو نوٹس جاری کیا ہے۔
پنجاب کے مختلف حصوں میں بھی کسانوں نے کاپیاں جلائیں
مختلف تنظیموں سے تعلق رکھنے والے کسانوں نے
پنجاب میں کئی مقامات پر مظاہرہ کیا اور قوانین کی کاپیاں جلائیں۔ کسانوں نے ان کی مانگیں نہ ماننے کو لےکر بی جے پی کی مرکزی حکومت کے خلاف نعرےبازی بھی کی۔ انہوں نے نئےزرعی قوانین کو رد کیےجانے کی مانگ بھی کی۔
‘کسان مزودر سنگھرش سمیتی’کے بینر تلے کسانوں نے امرتسر کے پندھیرکلاں گاؤں میں مظاہرہ کیا۔ خواتین نے بھی مظاہرہ میں حصہ لیا۔سمتی کے جنرل سکریٹری سرون سنگھ پندھیر نے کہا، ‘ہم نے قانون کو لےکر اپنی مخالفت کے اظہار کے لیےزرعی قوانین کی کاپیاں جلائیں۔’
امرتسر میں کئی اور جگہ بھی ایسے ہی مظاہرہ کیے گئے۔ پندھیر نے کہا، ‘مرکز کے کسانوں کی سب مانگیں قبول کرنے تک، ہماری تحریک جاری رہےگی۔’مظاہرہ کر رہے ایک کسان نے کہا، ‘ہم ان زرعی قوانین کو قبول نہیں کریں گے، کیونکہ یہ کسان کمیونٹی کے حق میں نہیں ہے اور سرکار کو ان قوانین کو رد کرنا چاہیے۔’
ریاست کے ہوشیارپور، سنگرور اور کپورتھلہ سمیت کئی مقامات پر کسانوں نے مظاہرہ کیا اور نئےزرعی قوانین کی کاپیاں جلائیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)