زرعی قانون: امریکہ نے کہا-انٹرنیٹ کی دستیابی اور پرامن مظاہرہ متحرک جمہوریت کی نشانی

03:56 PM Feb 05, 2021 | دی وائر اسٹاف

یو ایس اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا یہ بیان امریکی گلوکارہ یحانہ سمیت کئی ہستیوں کی  جانب سے کسانوں کی تحریک کو حمایت پر ہندوستانی وزارت خارجہ کی تنقید پر آیا ہے۔ محکمہ  نے یہ بھی کہا کہ امریکہ ایسے ا قدامات  کا خیرمقدم کرتا ہے جو ہندوستانی  بازار کو بہتر بناتے ہیں اور بڑے پیمانے پر نجی سرمایہ کاری کو متوجہ کرتے ہیں۔

کسانوں کو روکنے کے لیے خاردار تار، بیریکیڈنگ اور سیمنٹیڈ دیوار کے ذریعے بنایا جا رہا سکیورٹی  گھیرا۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: ملک گیر کسانوں کی تحریک پر نامورغیرملکی فن کاروں کے تبصرے کو لےکرحکومت ہند  کے ردعمل اور آن لائن ٹرولنگ کے بعد امریکہ نے کہا ہے کہ پر امن احتجاج  اور بلاتعطل  انٹرنیٹ تک رسائی‘ایک متحرک جمہوریت  کی نشانی ہوتی ہے۔’

اخبار وال سٹریٹ جرنل کے سوال کا جواب دیتے ہوئے یو ایس اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کہا، ‘ہمارا ماننا ہے کہ پرامن مظاہرہ کسی بھی متحرک جمہوریت  کی نشانی ہوتی ہے، یہی بات ہندوستان کے سپریم کورٹ نے بھی کہی ہے۔’

اس بات پرزور دیتے ہوئے کہ تمام فریقوں  کو مل کر اس کاحل  نکالنا چاہیے، امریکی محکمہ  نے کہا، ‘امریکہ ایسے اقدامات  کا خیرمقدم کرتا ہے جوہندوستان  کے بازار کو بہتر بناتے ہیں اور بڑے پیمانے پر نجی سرمایہ کاری کو متوجہ  کرتے ہیں۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘ہمارا ماننا ہے کہ بنا رکاوٹ ابلاغ کی ترسیل ، جس میں انٹرنیٹ شامل ہے، اظہار رائے  کی آزادی کا لازمی حصہ  ہے اور متحرک جمہوریت کی نشانی ہے۔’یو ایس اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا یہ بیان ہندوستان کے وزارت خارجہ  کے اس ردعمل  کو لےکر آیا ہے جس میں انہوں نے امریکی گلوکارہ یحانہ اور امریکہ کی نائب صدر کی بھتیجی مینا ہیرس کے تبصروں کو لےکر تنقید کی تھی۔

ہندوستان  میں امریکی سفارت خانے کے ترجمان  نے بھی اسی طرح کا بیان جاری کیا اور کہا، ‘یہ نجی لوگوں کے اپنے خیالات  ہیں۔ میں نجی لوگوں کے خیالات پر تبصرہ  نہیں کر سکتا ۔’

پاپ گلوکار ہ ریحانہ نے نے ‘انڈیا کٹس انٹرنیٹ اراؤنڈ نیو ڈیلٹی ایج پروٹیسٹنگ فارمرس کلیش ود پولیس’عنوان  سے شائع سی این این کی  ایک اسٹوری  کو شیئر کرکے  کسانوں کی حمایت میں اپنی آواز بلند کی ۔گزشتہ دو فروری کوریحانہ نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘ہم کسانوں کی تحریک  کے بارے میں بات کیوں نہیں کر رہے ہیں؟’

 ٹوئٹر پر ریحانہ کے 10 کروڑ سے زیادہ فالوورس ہیں اور وہ  اس معاملے میں دنیا میں چوتھےمقام  پر ہیں۔اس کے علاوہ حولیات کے شعبے میں کام کرنے والی گریتا تُنبیرنے  سی این این کی اسٹوری شیئر کی اوربہت صاف طور پر کسانوں  کی تحریک کو اپنی حمایت دی ۔ گزشتہ تین فروری کو انہوں  نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘ہم ہندوستان  میں کسانوں کی تحریک  کے لیے متحدہیں۔

اس کو لےکر دہلی پولیس نے گریتاکے خلاف کیس بھی دائر کر لیا ہے۔ حالانکہ ماحولیاتی کارکن نے ایک اور ٹوئٹ کرکے کہا کہ وہ  اپنے بیان پر قائم ہیں اور کسانوں کی تحریک کی حمایت کرتی رہیں گی۔

امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس کی بھتیجی مینا ہیرس نے بھی کہا کہ سب کو ہندوستان  میں انٹرنیٹ کے بند ہونے اور کسانوں کے خلاف فورسز کے تشدد سے ناراض ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے جمہوریت  پر حملہ ہوا ہے۔

امریکی نمائندہ جم اکوسٹا، برٹش رکن پارلیامان کلاڈیا ویب، کارکن جیمی مارگولن اور ایکٹر جان کسک نے بھی کسانوں  کی حمایت میں اپنی آواز بلند کی  ہے۔

ریحانہ اور گریتاکےبعد جہاں دنیا بھر کی کئی ہستیوں نے کسانوں کی حمایت میں اپنی آواز بلند کی،وہیں دونوں کوہندوستان  میں ٹرولنگ کا شکار بھی ہونا پڑا تھا۔کسانوں کی تحریک کو اب عالمی  سطح  پر مل رہی حمایت  کے بیچ وزارت داخلہ نے بیان جاری کرکے  اس کو غیرذمہ دارانہ  بتایا تھا۔

وزارت خارجہ  کےترجمان  انوراگ شریواستو نے بیان جاری کر کےکہا، ‘سنسنی خیز سوشل میڈیا ہیش ٹیگ اور کمنٹس سے لبھانے کا طریقہ، خاص کر جب مشہور ہستیوں اور دیگر لوگوں کے ذریعے کیا گیا ہو تو یہ نہ توصحیح ہے اور نہ ہی ذمہ دارانہ  ہے۔’

اس سلسلے میں وزارت خارجہ  نے کہا، ‘اس طرح کے معاملوں پر تبصرہ  کرنے سے پہلے ہم گزارش کرتے ہیں کہ حقائق کا پتہ لگایا جائے اور مدعوں کو ڈھنگ سے سمجھا جائے۔ ہندوستان  کی پارلیامنٹ نےمکمل  بحث اور چرچہ کے بعد زراعتی شعبے  سے متعلق اصلاحی قانون پاس کیے۔

وزارت داخلہ  کے اس بیان کی  بہت سے ہندوستانی فن کاروں  اور کھلاڑیوں نےحمایت کی تھی۔جنہوں نے تقریباً ایک جیسا ٹوئٹ کرکے کہا ‘ہندوستان  اپنے مسئلے خود حل کر سکتا ہے اور وہ  کسی بھی پروپیگنڈہ  کے خلاف ہیں۔’

خاص بات یہ ہے کہ ان میں سے کئی لوگوں نے کسانوں کی تحریک پر اب تک کوئی تبصرہ  نہیں کیا تھا۔ اس میں سچن تیندولکر، اکشے کمار، کرن جوہر، کنگنا رناوت جیسے لوگ شامل ہیں۔وہیں کچھ فن کاروں/ستاروں  نے اس کا جواب  دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی مسئلے پر غیر ملکیوں کے محض ایک ٹوئٹ سے ہندوستان  کو خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے، تو ہمیں کسی اور کی تنقید کرنے سے پہلے اپنے کے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔

معلوم ہو کہ کسانوں کی تحریک نے اس وقت عالمی سطح پر توجہ  کھینچی ہے، جب دہلی کی سرحدوں کو قلعے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ پولیس نے گاڑیوں کی آمدورفت کو روکنے کے لیے کئی سطح کی بیریکیڈنگ کی ہے۔ انٹرنیٹ خدمات  کو بند کر دیا گیا ہے۔

معلوم ہو کہ مرکزی حکومت کی جانب  سے زراعت سے متعلق تین بل– کسان پیداوارٹرید اور کامرس(فروغ اور سہولت)بل، 2020، کسان (امپاورمنٹ  اورتحفظ) پرائس انشورنس کنٹریکٹ اور زرعی خدمات بل، 2020 اور ضروری اشیا(ترمیم)بل، 2020 کو گزشتہ27 ستمبر کو صدر نے منظوری دے دی تھی، جس کے خلاف  کسان مظاہرہ  کر رہے ہیں۔

کسانوں کو اس بات کا خوف ہے کہ سرکار ان قوانین کے ذریعےایم ایس پی دلانے کے نظام کو ختم کر رہی ہے اور اگراس کو لاگو کیا جاتا ہے تو کسانوں کو تاجروں  کے رحم پر جینا پڑےگا۔دوسری جانب مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی مودی سرکار نے باربار اس سے انکار کیا ہے۔ سرکار ان قوانین کو ‘تاریخی زرعی اصلاح’ کا نام دے رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ زرعی پیداوار کی فروخت کے لیے ایک متبادل  نظام  بنا رہے ہیں۔

ان قوانین کے آنے سے بچولیوں کا رول ختم ہو جائےگا اور کسان اپنی اپج ملک میں کہیں بھی بیچ سکیں گے۔دوسری طرف مظاہرہ کر رہے کسان تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان قوانین سے ایم ایس پی کا سکیورٹی کوراور منڈیاں بھی ختم ہو جائیں گی اورکھیتی بڑے کارپوریٹ گروپوں  کے ہاتھ میں چلی جائےگی۔

 اس کولےکرسرکار اور کسانوں کے بیچ 11 دور کی بات چیت ہو چکی ہے، لیکن ابھی تک کوئی حل نہیں نکل پایا ہے۔ کسان تینوں نئےزرعی  قوانین کو پوری طرح واپس لیے جانے اورایم ایس پی کی قانونی گارنٹی دیےجانے کی اپنی مانگ پر پہلے کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔