ہریانہ کے نوح میں31 جولائی کو ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلے میں سوشل میڈیا اور کچھ نیوز ویب سائٹ پر ایسے دعوے کیے جا رہے تھے کہ نلہر مہادیو مندر میں پھنسی خواتین کے ساتھ ریپ کیا گیا تھا، پولیس نے ان دعووں کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
نوح کے نلہر مہادیو مندر کا مین گیٹ۔ (تمام تصاویر: اتل ہووالے/دی وائر)
نوح: ہریانہ پولیس نے ضلع میں حالیہ تشدد کے دوران نوح کے نلہر مندر میں پھنسی خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے دعووں کی تردید کی ہے اور اسے ‘افواہ اور جھوٹ’ قرار دیا ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق، ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (اے ڈی جی پی) ممتا سنگھ نے بتایا ہے کہ وہ خود موقع پر موجود تھیں، جھڑپوں کے دوران ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
انہوں نے سنیچر کی رات کہا، ‘سوشل میڈیا پر ایک نیریٹو چل رہا ہے کہ نلہر مندر میں جس دن عقیدت مندپھنسے تھے ، اس کے بعد کل (جمعہ) سے خبریں آرہی ہیں کہ اس واقعہ کے دوران کچھ عقیدت مندخواتین کے ساتھ ریپ جیسے سنگین جرائم ہوئے ہیں۔ میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ یہ سب بالکل غلط بات ہے، افواہ ہے اور میں یہ بات مستند طور پر کہہ سکتی ہوں کیونکہ اس پورے واقعے کے دوران میں خود وہاں موجود تھی، کسی خاتون کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسی افواہیں پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر نے ایک پوسٹ میں بتایا کہ اے ٹو جی نیوز ٹی وی ، لیڈنگ بھارت ٹی وی اور ہندوستان 9 نیوزنامی یوٹیوب مسلم مخالف پروپیگنڈہ پھیلا رہے ہیں اور مشتعل اور غیر تصدیق شدہ دعوے کر رہے ہیں۔
انہوں نے لکھا، ‘دائیں بازو کے اس خطرناک پروپیگنڈے سے ہوشیار رہیں۔ بہت سارے دائیں بازو کے پروپیگنڈہ پھیلانے والے اکاؤنٹ یوٹیوب چینوں کے غیر تصدیق شدہ دعووں کے ساتھ ویڈیوز شیئر کر رہے ہیں۔ یوٹیوبرز سے بات کرنے والے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ میوات میں متعدد ہندو خواتین کو اغوا کیا گیا، انہیں مندر سے گھسیٹا گیا اور قریبی کھیتوں میں ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ/ ریپ کیا گیا، خواتین اور بچوں کو زندہ جلا دیا گیا، کئی لاشیں غائب، خواتین کے پھٹے ہوئے کپڑے مندر کے پاس پڑے ہیں وغیرہ۔
ایسا ہی ایک دعویٰ دائیں بازو کی پروپیگنڈہ ویب سائٹ
آپ انڈیا نے بھی کیا۔ آپ انڈیا نے اپنی خبر میں لکھا، ‘مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ خواتین کے ساتھ ریپ کیا گیا، مسلمان انہیں گھسیٹ کر کھیتوں میں لے گئے، کئی اب بھی لاپتہ ہیں۔ نوح مندر کے قریب کپڑے پڑے ہیں۔
اپنی رپورٹ میں، آ پ انڈیا نےان یوٹیوب چینلوں کی مبینہ گرواؤنڈ رپورٹ کا بھی حوالہ دیا، جن کا ذکر زبیر نے کیا ہے۔ سچ سامنے آنے کے بعد اس نے خبر اور ٹوئٹ ہٹا دیے۔
اس کی ایڈیٹر نوپور شرما نے بھی اپنے ذاتی ٹوئٹر اکاؤنٹ سے اس حوالے سے جھوٹے دعوے کیے تھے اور بعد میں ان کو ڈیلیٹ کر دیا۔
دریں اثنا، ہریانہ کے ڈی جی پی پی کے اگروال نے بھی واضح کیا ہے کہ ان واقعات کا کوئی پاکستانی کنیکشن نہیں ہے، جیسا کہ کچھ سوشل میڈیا پوسٹ میں دعویٰ کیا جا رہا ہے۔
اگروال نے کہا، ‘ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس پر فوری رد عمل ظاہر کرنا درست نہیں ہے۔ جو چیزیں ہمارے پاس آئی ہیں ہم ان کی چھان بین کریں گے اور قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کریں گے۔
زی نیوز نے فائرنگ کرنے والے بجرنگ دل کے کارکن کو پولیس اہلکار بتایا
نوح میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے بعد سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں سفید شرٹ پہنے ایک شخص کو رائفل سے فائرنگ کرتے ہوئےدیکھا جا سکتا ہے۔
آلٹ نیوز کے مطابق، لوگ مذکورہ شخص کو بجرنگ دل کا کارکن کہہ رہے ہیں لیکن زی نیوز نے اپنی رپورٹ میں اسے سول ڈریس میں موقع پر موجود پولیس اہلکار بتایا، بعد میں زی نیوز نے اسے ڈیلیٹ کردیا۔
تاہم، آلٹ نیوز کی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ فائرنگ کرنے والا اشوک بابا تھا جو بجرنگ دل سے وابستہ ہے۔ انڈیا ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں انھوں نے خود ویڈیو میں ہونے اور فائرنگ کرنےکی بات کو قبول کیا ہے۔
اسی کے ساتھ،
آلٹ نیوز کی ایک اور خبر میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر کئی پرانی تصاویر کو نوح تشدد سے جوڑکر شیئر کی جا رہی ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ ہریانہ میں سوموار (31 جولائی) کو نوح میں ہندو دائیں بازو کے گروپوں کی طرف سے نکالی گئی ‘شوبھا یاترا’ کے دوران تشدد پھوٹ پڑا تھا، جس میں اب تک چھ لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ تشدد دوسرے علاقوں میں بھی پھیل گیا، اور 1 اگست کو تشدد کے دوران گڑگاؤں کے بادشاہ پور میں کم از کم 14 دکانوں کو نذر آتش کر دیا گیا، جن میں سے
زیادہ تر مسلمانوں کی تھیں۔