مکتی واہنی کے کارکن ’ بہاری مسلمان‘سے موسوم بہار اور اتر پردیش سے ہجرت کر کے گئی اردو بولنے والی آبادی پر بھوکے شیر کی طرح ٹوٹ پڑے۔پورا ملک ان کی نسل کشی کی پالیسی پر گامزن ہو گیا۔ انہیں سرکاری، نیم سرکاری، پرائیویٹ اداروں اور فکٹریوں کی ملازمتوں سے یکسر برخاست کر دیا گیا۔
’آدھے سے زیادہ اردو بولنے والی آبادی موت کے گھاٹ اتاری جا چکی ہے،اور جو بچ گئی ہے وہ جاں کنی کے عالم میں ہے۔ ہماری عزت، ہماری آبرو، ہمارا وجود سب کچھ خطرے میں ہے۔۔۔ اس لئے ہم عالمی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہمارے مسائل حل کرے اور اقوام متحدہ اور دنیا کی بڑی طاقتوں پر دباؤ ڈالے کہ ہمیں بنگلہ دیش سے جلد از جلد باہر نکالا جائے۔۔۔ ہم دنیا سے اپیل کرتے ہیں کہ اگر پاکستان ہمیں فوری طور پر قبول نہیں کرتا ہے تو ہمیں اپنے یہاں پناہ دے۔‘
یہ الفاظ ہیں اُن عرضداشتوں کے جو 16دسمبر1971 کے بعد مشرقی پاکستان کی اردو بولنے والی آبادی کی طرف سے اس وقت لکھ گئے تھے۔ ’مہذب دنیا‘ کے نام لکھی گئی اپیلوں کو پڑھ کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان سے ان کی بے بسی اور لاچارگی اور انتہائی خوف میں مبتلا زندگی کا اندازہ ہوتا ہے جب بنگلہ دیش کے وجود میں آتے ہی وہ اپنے ہی ملک میں اجنبی ہو گئے تھے۔ شکست خوردہ پاکستان کچھ کرنے کی حالت میں نہیں تھا نہ ہی وہاں کے ارباب اختیار اس طرف مائل تھے۔ان کا موقف تھا کہ عالمی قانون کے تحت اب وہ بنگلہ دیش کی ذمّہ داری ہیں۔ ادھر بنگلہ دیش کی حکومت نہ صرف یہ کہ ان کی طرف سے بیزار تھی بلکہ بنگالی عوام کو کھلی چھوٹ دے دی کہ وہ ان پر اپنا غصّہ نکالے۔چنانچہ مکتی واہنی کے کارکن ’ بہاری مسلمان‘سے موسوم بہار اور اتر پردیش سے ہجرت کر کے گئی اردو بولنے والی آبادی پر بھوکے شیر کی طرح ٹوٹ پڑے۔پورا ملک ان کی نسل کشی کی پالیسی پر گامزن ہو گیا۔ انہیں سرکاری، نیم سرکاری، پرائیویٹ اداروں اور فکٹریوں کی ملازمتوں سے یکسر برخاست کر دیا گیا۔ ان کا پروویڈنٹ فنڈ ضبط کر لیا گیا۔ انہیں بنکوں میں جمع اپنی رقم نکالنے سے باز رکھا جانے لگا۔ ان کے گھر زبردستی لکھوائے جانے لگے۔ ان کے گھر، ان کی دکانیں اور ان کی زمینوں پر قبضہ کیا جانے لگا۔
اور یہ سب کچھ کھلے عام ہو رہا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن کی حکومت ان سب پر پردہ ڈال رہی تھی۔ غیر ملکی مہمانوں کو ایسی جگہوں پر جانے نہیں دیا جا رہا تھا جہاں جا کر انہیں حقیقت کا علم ہو سکتا تھا۔ یا اگر انہیں کہیں لے جانا ناگزیر ہوتا تو پہلے وہاں سے جرم کے نشانات مٹا دیے جاتے۔ یکم مئی 1972 کو لکھی گئی ایک عرضداشت میں میرپور اور محمّد پور کے کئی علاقوں کا ذکر ہے جن کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ سب قتل گاہوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ’اگر کوئی ان علاقوں کا اچانک معائنہ کرے تو جلی ہوئی لاشیں نظر آجائیں گی…… ایک بہت بڑی تعداد کو گولپاڑہ پاور سٹیشن کی بھٹی میں جھونک کر زندہ جلا دیا گیا ہے۔‘ قتل و غارت گری کے علاوہ بڑے پیمانے پر عورتوں کےساتھ ریپ اور اغواکی وارداتوں کا بھی ذکر ہے۔ پریس اور پولیس کے جابرانہ، بلکہ ظالمانہ رویے کی بھی شکایات ہیں۔ ’اخبارات حقیقت پیش کرنے کی بجائے ایسی خبریں شائع کر رہے ہیں جن سے بہاریوں کے خلاف جذبات بھڑک رہے ہیں اور حکومت ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ ایسی تصور پیش کر رہی ہے جس سے اس کے اپنے جرم پر پردہ پڑ سکے۔‘
یہ تمام تفصیل ان عرض داشتوں میں موجود ہیں جو اُس وقت ہندوستان سے گئے ایک وفد کو نسل کشی سے دو چار اردو آبادی نے پیش کی تھیں۔ سات رکنی وفد جئے پرکاش نارائن کی ایما پر بنگلہ دیش گیا تھا جس نے اپریل اور مئی 1972 میں ایک مہینہ وہاں گزار کر اردو بولنے والی آبادی کے حالات کا جائزہ لیا تھا۔ یہ وہی جئے پرکاش نارائن تھے جنہوں نے پاکستانی فوج اور ’رضاکاروں‘کے ذریعہ بنگالیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور ملکوں ملکوں گھوم کر ان کے حق میں دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑا تھا۔ مگر جب بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ان بنگالیوں نے بہاریوں کے خلاف انتقامی کارروائی شروع کی اور وہی سب کچھ کرنے لگے جو اس سے پہلے ان پر بیت چکی تھی تو جئے پرکاش نارائن ایک بار پھر سے کھڑے ہو گئے۔ یہ اور بات ہے کہ اس بار انہیں نہ اندرا گاندھی کی حمایت ملی اور نہ ہی شیخ مجیب نے انہیں خاطر میں لایا۔ چنانچہ انہوں نے براہ راست مداخلت کرتے ہوئے ایک سات رکنی وفد تشکیل دیا جس کی قیادت نارائن ڈیسائی نے کی تھی جو کہ ایک معروف سماجی کارکن ہونے کے علاوہ مہاتما گاندھی کے سکریٹری مہادیو دیسائی کے بیٹے تھے۔ وفد کے تمام ہی ارکان مجادین آزادی تھے جن میں احد فاطمی (ایڈیٹر، ہفتہ وار بھودان تحریک)، محمود احمد ہنر (ایڈیٹر، ہاہنامہ شاہکار)، گاندھین انسٹی ٹیوٹ آف سوشل اسٹڈیز، بنارس، کے پروفیسر طلعت کمال اور ٹریڈ یونین لیڈر قیوم اثر کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان میں آخرالذکر میرے والد تھے۔ 1993 میں ان کے انتقال کے بعد ان کی فائل میں جو کاغذات ملے ہیں ان سے سقوط ڈھاکہ کے بعد وہاں کی اردو آبادی پر جو کچھ بیتی اس پر روشنی پڑتی ہے۔ واپس آکر میرے والد نے ’بنگلہ دیش کا آنکھوں دیکھا حال‘کے عنوان سے ایک تفصیلی رپورٹ لکھی جو اس وقت ملک کے کئی روزناموں میں شائع ہوئی تھی۔ اتفاق سے اس رپورٹ کی کاپی گھر پر موجود نہیں پھر بھی عرض داشتوں کی جو کاپیاں ملی ہیں ان کی حیثیت دستاویزی ہے۔
ان میں دو عرض داشتیں براہ راست ’وزیراعظم شیخ مجیب الرحمن‘کے نام لکھی گئی ہیں۔ پہلی تحریر 31 مارچ 1972 کی لکھی ہوئی ہے جس میں اسی مہینے کی 10 تاریخ کو خالص پور کے بہاری کالونی میں ہونے والے بھیانک فساد کا ذکر ہے جس میں صرف ایک دن میں پانچ ہزار بہاریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا اور بے شمار عورتوں کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ اس میں شیخ مجیب کی کُھلنا آمد کا ذکر ہے اور یہ پیشکش ہے کہ جو کچھ ہو چکا اسے بھول کر بہاری مسلمان بنگلہ دیش کی تعمیر نو میں ہاتھ بٹانا چاہتے ہیں۔ ایک دوسری عرض داشت 28 اپریل 1972 کی لکھی ہوئی ہے جس میں یہ لکھتے ہوئے کہ اب بنگلہ دیش میں بہاری مسلمانوں کی جان و مال کی ضمانت نہیں بچی ہے چنانچہ ’ہمیں ‘مڈل ایسٹ’ کے کسی ملک میں جانے کی اجازت دی جائے اور اس کام کے لئے حکومت ہند سے رابطہ کیا جائے تاکہ ہم گرینڈ ٹرنک روڈ سے سفر کر سکیں۔‘ غالباً یہ اشارہ سعودی عرب کی طرف ہے۔ معلوم نہیں یہ اپیل کس بوتے پر کی گئی تھی کیونکہ مشرق وسطیٰ سے اس وقت کوئی مدد نہیں آئی تھی۔ البتہ سعودی عرب کو یہ فکر ضرور ہوئی تھی کہ نئے ملک کے نام میں ’اسلامی‘ کا اضافہ ہونا چاہئے۔ ایک بنگلہ دیشی سفارت کار کے مطابق اس کا مطالبہ شاہ فیصل نے شیخ مجیب سے ایک ملاقات میں کیا جس کے جواب میں شیخ مجیب نے یہ مشورہ دیا کہ پہلے سعودی عرب اپنے نام میں اسلامی لگائے۔ ظاہر ہے اس کے بعد دونوں ملکوں میں جس سطح کا رشتہ رہا ہوگا اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
بنگلہ دیش کے قیام کے حوالے سے ان دستاویزات کی اہمیت یوں بڑھ جاتی ہے کہ پچھلے چند سالوں سے شیخ حسینہ واجد کی حکومت ان بنگالیوں پر مقدمہ چلا رہی ہے جن پر الزام ہے کہ انہوں نے1971 میں پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر مجاہدین آزادی کے خلاف ظلم کیا تھا۔ اب تک چھ لوگ پھانسی پر لٹکائے جا چکے ہیں۔ پچھلے مہینے مزید چھ لوگوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔ شیخ حسینہ نے اس کام کے لئے جو انٹرنیشنل وار ٹریبونل بنایا ہے اس پر جانب دار ہونے کا الزام پوری دنیا میں اور خود بنگلہ دیش کے اندر لگ رہا ہے۔ اس حوالہ سے بنگلہ دیش کی حکومت صرف بنگالیوں پر ہوئے مظالم کو مشتہر کرتی رہی ہے۔ اردو آبادی پر جو کچھ بیتی اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ہندوستانی میڈیا بھی صرف یکطرفہ رپورٹنگ کرتا رہا ہے۔
16 دسمبر 1971 برصغیر کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے۔ ’سقوط ڈھاکہ‘کے نام سے موسوم اس دن ہندوستان اور پاکستان کے بیچ چھڑی تیسری جنگ کا خاتمہ ہوا تھا اور پاکستان کا ایک دھڑا الگ ہوکر بنگلہ دیش بنا تھا۔ جبر اور استحصال کے خاتمے کے نام پر جو خونی کھیل اس وقت کھیلا گیا تھا اس کے تین اہم کردار تھے شیخ مجیب الرحمن، ذوالفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی۔ تینوں اپنے اپنے طور پر سرخرو ہوئے۔ ایک کو واہ واہی ملی کہ اس نے دشمن کے دو ٹکڑے کر دیے۔ اور دوسرے اور تیسرے کو بلا شرکت غیرے اقتدار۔ تینوں نے اپنے اپنے ملک کی عوام سے اس کی بھاری قیمت وصول کی۔ اردو بولنے والی تقریباً تین لاکھ آبادی آج بھی اس کی قیمت ادا کر رہی ہے – ڈھاکہ اور اطراف کے کیمپوں میں رفیوجی کے طور پر زندگی گزار کر۔ مگر اسے قدرت کا انتقام ہی کہیں گے کہ تینوں لیڈروں کی موتیں غیر فطری انداز پر ہوئیں۔ ایک کو اپنے باڈی گارڈز نے مارا۔ دوسرے کو اپنے فوجی جنرل نے پھانسی پر لٹکا دیا۔ اور تیسرے کو اس کے اپنے جنرلوں نے گولیوں سے بھون ڈالا۔
The post سقوط ڈھاکہ: جب اردو آبادی پر قیامت ٹوٹی تھی… appeared first on The Wire - Urdu.