فیک نیوز راؤنڈ اپ : اسی درمیان دہلی انتخابات کے قریب ان کی ایک تصویر بی جے پی لیڈرمنوج تیواری کے ساتھ عام ہو گئی جس کو شئیر کرتے ہوئے سوشل میڈیا صارفین نے لکھا کہ شاہی امام بی جے پی کے ہاتھوں بک گئے ہیں اور اپنے ایمان اور ضمیر کا سودا کر بیٹھے ہیں۔
A protester at Delhi’s Shaheen Bagh on January 14. Photo: PTI
شہریت ترمیم قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور اس سے ہندوستان کے عام شہری کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ سوشل میڈیا پر جو فکر اس کو انجام دے رہی ہے اسی فرقہ وارانہ فکر نے اس قانون کو ایجاد کیا ہے۔ لہٰذا، وقت کی ضرورت ہے کہ بھگوا فکر کے ہر منصوبے اور شر کا عقل و فہم سے مقابلہ کیا جائے۔
گزشتہ ہفتے بھگوا ہینڈلوں سے ایک پوسٹر کی تصویر کوعام کیا گیا۔ یہ پوسٹر ‘ممبئی سٹیزنز فورم’ کی جانب سے شائع کیا گیا تھا اور اس میں عوام کو مطلع کیا گیا تھا کہ 17 جنوری بروز جمعہ شہریت ترمیم قانون کے خلاف اگری پاڑہ میں خواتین کا ایک عظیم الشان احتجاج منعقد کیا جا رہا ہے۔ بی جے پی کے میڈیا پینلسٹ
یشویر راگھو نے اس پوسٹر کو ٹوئٹر پر عام کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ اس احتجاج میں شرکت کی شرط یہ رکھی گئی ہے کہ تمام خواتین برقع یا حجاب میں ہی شرکت کر سکتی ہیں۔
انہوں نے لکھا؛
غضب ! اگر آپ CAA 2019 اور NRC (جس کو رائج کرنے کا ابھی کوئی خیال بھی نہیں ہے)کے خلاف منعقد احتجاج میں شرکت کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے لئے برقع اور حجاب پہننا لازمی ہے۔ یہ لوگ ملک کو شریعہ قانون کی طرف بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں۔
اسی طرح فیک نیوز کی دنیا کی معروف ہستی
پرشانت امراؤ پٹیل نے بھی اسی تصویر کو شئیر کیا تھا۔ انہوں نے لکھا؛
احتجاج شہریت قانون کے خلاف ہے لیکن ڈریس کوڈ حجاب اور برقع ہے۔ پدر شاہی اور منو واد سے آزادی حجاب اور برقع پہن کر ملےگی ! سیدھے الفاظ میں کہا جائے تو یہ ملک بھر میں احتجاج نہیں ہو رہا ہے بلکہ طاقت کا مظاہرہ ہے اور ہندوؤں کے صبر کا امتحان لیا جا رہا ہے۔
یشویر راگھو اور پرشانت پٹیل کے علاوہ کثیر تعداد میں سوشل میڈیا کے صارفین نے اس تصویر کو شئیر کیا تھا۔ الٹ نیوز نے
انکشاف کیا کہ بھگوا ہینڈلوں پر عام کی گئی یہ تصویر شہریت قانون مخالف احتجاج کے خلاف ایک پروپیگنڈہ کا حصہ تھی۔
آلٹ نیوز نے واضح کیا کہ پوسٹر کی تصویر میں ہی فوٹو شاپ سے ترمیم کر دی گئی اور ڈریس کوڈ والی لائن خود بھگوا آئی ٹی سیل نے اضافی طورپر درج کیا تاکہ ملک بھر میں ہونے والے تمام مظاہروں کو بدنام کیا جا سکے۔
اس طرح کے پروپیگنڈے پہلے دن سے ہی عام ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہی یہ کہا گیا تھا کہ دہلی کے شاہین باغ میں احتجاج پر بیٹھی خواتین 500-500 روپے فی روز کی تنخواہ پر ہیں۔ یہ بھی پروپیگنڈہ کیا گیا کہ دہلی کا یہ احتجاج صرف دہلی الیکشن تک ہے اور الیکشن کے بعد یہ از خود ختم ہو جائےگاکیوں کہ اس کوبی جےپی مخالف سیاسی جماعتیں چلارہی ہیں۔ اسی سلسلےمیں سوشل میڈیاپرایک ویڈیودستیاب ہواجس کواس دعوےکے ساتھ عام کیا گیا کہ کانگریس پارٹی شہریت قانون پر ہونے والے مظاہروں کے لئے نقد رقم فراہم کر رہی ہے۔ ویڈیو؛
ویڈیو میں دکھایا گیا تھا کہ کانگریس کا ایک کارکن عوام کو نقدی تقسیم کر رہا ہے اور ویڈیو کے پس منظر میں راہل گاندھی کی آواز سنائی دے رہی ہے جو کسی ریلی سے مخاطب ہیں۔
بوم لائیو نے انکشاف کیا کہ یہ ویڈیو موجودہ دور کی نہیں ہے، اس کا شہریت قانون مخالف مظاہروں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور یہ کہ یہ ویڈیو دو ویڈیو کو ملاکر بنایا گیا ہے جس میں تصویر اور آواز مختلف ذرائع سے لی گئی ہیں۔
پہلی ویڈیوجس میں نقدی تقسیم کی جا رہی ہے، 2017 کی ہے؛
دوسری ویڈیو جس کا آڈیو پہلی ویڈیو میں لگایا گیا ہے وہ راہل گاندھی کی گجرات ریلی کی ہے جو اسی سال 2017 میں منعقد کی گئی تھی؛
لہٰذا، یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کس طرح پرانی دو مختلف ویڈیو کی مدد سے موجودہ مظاہروں کے خلاف پروپیگنڈہ چلایا جا رہا ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بعد دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں بھی پولیس اور بھگوا غنڈوں نے حملہ کیا تھا۔ جے این یو میں طلبا کے ساتھ ساتھ اساتذہ پر بھی حملہ کیا گیا تھا۔ یہ بالکل واضح ہے کہ بھگوا فکر مسلمانوں اور ان لوگوں کو بالکل برداشت نہیں کرتی ہے جو مودی حکومت یا سنگھ کے ہندتوا کے ایجنڈے کی مخالفت کرتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا میں ایک
تصویر عام کی گئی جس کے تعلق سے دعویٰ کیا گیا کہ تصویر میں موجود یہ شخص جے این یو کا طالب علم ہے۔47 سال کے اس کا شخص کا نام معین الدین ہے اور یہ کیرالہ کا رہنے والا ہے۔ یہ شخص ابھی بھی جے این یو کا طالب علم ہے اور محض دس روپے فی ماہ میں ہاسٹل میں رہتا ہے۔
جے این یو طلبا کے خلاف اس طرح کا پروپیگنڈہ عوام کو گمراہ کرنے کے لئے کیا جاتا ہے تا کہ عوام یہ سمجھ لیں کہ جے این یو میں مودی مخالف بایاں بازو اور مسلمان صرف ٹیکس دینے والوں کی رقم پر پلتے ہیں اور ملک کو ان سے ذرا بھی فیض نہیں ہے۔
الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ جس شخص کی تصویر معین الدین کے نام سے سوشل میڈیا میں عام کی گئی تھی دراصل وہ تصویر دلت کارکن پروفیسر کانچہ ایلیا کی تصویر ہے۔ پروفیسر کانچہ نے بودھ مذہب پر پی ایچ ڈی حاصل کی ہے اور وہ حیدرآباد دکن میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں سوشل ایکسکلوزن سینٹر کے سابق ڈائریکٹر ہیں۔ غور طلب ہے کہ پروفیسر کانچہ نے کبھی جے این یو میں تعلیم حاصل نہیں کی ہے۔
دہلی اسمبلی کے انتخابات قریب ہیں اور اس کی وجہ سے سوشل میڈیا میں افواہ کا بازار کافی گرم ہے۔ دہلی کے شاہی امام نے گزشتہ ماہ ہندوستانی مسلمانوں سے شہریت ترمیم قانون کی حمایت کرنے کی اپیل کی تھی اور کہا تھا کہ اس قانون میں مسلمانوں کے خلاف کوئی دفعہ نہیں ہے۔ اس اپیل کے بعد ملک کے مسلمانوں نے شاہی امام سے ناراضگی کا اظہار کیا اور سوشل میڈیا پر نوجوانوں نے کہا کہ امام صاحب حکومت کے غلام ہیں۔
اسی درمیان دہلی انتخابات کے قریب ان کی ایک تصویر بی جے پی لیڈرمنوج تیواری کے ساتھ عام ہو گئی جس کو شئیر کرتے ہوئے سوشل میڈیا صارفین نے لکھا کہ شاہی امام بی جے پی کے ہاتھوں بک گئے ہیں اور اپنے ایمان اور ضمیر کا سودا کر بیٹھے ہیں۔ صحافی پرشانت کنوجیانے ٹوئٹ کیا کہ 250 گرام اخروٹ اور 500 گرام کشمش میں بخاری کی ڈیل فائنل ہوئی۔ کنوجیا نے بعد میں اپنا یہ ٹوئٹ ڈیلیٹ کر دیا۔
آلٹ نیوز نے واضح کیا کہ بخاری اور تیواری کی ملاقات کی یہ تصویر پرانی ہے اور اس کا موجودہ مظاہروں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ حقیقت موجودہ ویڈیو سے واضح ہو جاتی ہے۔