فیک نیوز راؤنڈ اپ: خبر رساں ایجنسی اے این ائی نے اپنے ویڈیو ٹوئٹ میں کس صوبے کاویڈیو کا استعمال کیا اور یہ ویڈیو کتنےسال پرانی تھی؟ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جس کتے کی تصویر ٹوئٹ کی، اس کی حقیقت کیا ہے؟ دہلی کے سرکاری اسکول کی طرف منسوب کی جانے والی عمارت کیا واقعی دہلی کی ہے؟ کیا ای پی ایف او سرکاری ملازمین کو 80000 روپے کا منافع دے رہی ہے؟
اس سال دیوالی کے موقع پر اتر پردیش حکومت نے ‘دیپ اتسو’ کی تقریب کا انعقاد کیا جس میں تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ دیوں کو روشن کیا گیا۔ روایت کے مطابق ہندو مذہب میں دیوالی اس لئے منائی جاتی ہے کیوں کہ اس دن راجہ دسرتھ کے فرزند رام اپنی اہلیہ کے ساتھ سری لنکا سے واپس ایودھیا تشریف لائے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ لنکا میں راون کو شکست دینے کے بعد جب رام اپنے آبائی وطن واپس آئے تو ان کے ہم وطنوں نے ان کی آمد پر ایودھیا کو دیوں سے روشن کیا تھا۔ اتر پردیش کی یوگی حکومت نے اسی دن کی یاد منانے اور ہندتوا سے متاثر
اکثریت کو خوش کرنے کے لئے غالباً اس تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ حالانکہ، ایک سیکولر اور فلاحی مملکت میں اس طرح کی تقریبات کا کوئی جواز نہیں ہے اور ایسے اقدام آئین ہند کی سراسر خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔
میڈیا میں اس تقریب کے تعلق سے 23 اکتوبر کو یہ خبر عام ہوئی کہ یو پی حکومت دیپ اتسو کی تقریب میں تقریباً 133کروڑ روپے خرچ کرنے جا رہی ہے۔ان خبروں میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ یوگی حکومت دنیا میں اس طرح کا ایک منفرد ریکارڈ قائم کرنا چاہتی ہے! کچھ میڈیا اداروں نے اس خبر کو تنقیدی سرخیوں میں شائع کیا تو کچھ نے دبے الفاظ میں اس کی تعریف بھی کی۔ لیکن سبھی نے اس بات پر اتفاق ظاہر کیا کہ حکومت اس برس دیپ اتسو پر 133 کروڑ روپے ہی خرچ کر رہی ہے۔ سب سے پہلے این ڈی ٹی وی کے صحافی
آلوک پانڈے نے اپنے ایک
ٹوئٹ میں اس بات کا انکشاف کیا کہ جس خبر کو آگ کی طرح سوشل میڈیا پر پھیلایا گیا ہے، دراصل اس میں ایک چوک ہوئی ہے۔ آلوک پانڈے نے حکومت کے آفیشل نوٹس کی تصویر شئیر کرتے ہوئے واضح کیا کہ دیپ اتسو میں حکومت نے 133 ‘کروڑ’ نہیں بلکہ 133 ‘لاکھ’ روپے خرچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ آلوک پانڈے کا دعویٰ صحیح ثابت ہوا کیوں کہ حکومت کی طرف سے جاری کردہ
پریس ریلیز میں بھی اس تقریب کا خرچ 132.7روپے ہی بتایا گیا تھا۔لہٰذا، ایک رقم کو ‘لاکھ’ سے ‘کروڑ’ میں تبدیل کرنے کی خبریں جھوٹی تھیں اور میڈیا اداروں کی لاپرواہی کو اجاگر کرتی ہیں!
این ڈی ٹی وی،
نیوز کلک،
نیشنل ہیرالڈ،
دی ٹائمز آف انڈیا،
دی انڈین ایکسپریس،
دی ہندو، اور
جن ستا جیسے میڈیا اداروں نے اس خبر کو شائع کیا تھا !
مودی حکومت کی خادم کہی جانے والی خبر رساں اجنسی
اے این آئی نے 28 اکتوبر کو ایک ویڈیو اپنے ٹوئٹر پر شائع کیا جس کے ساتھ دعویٰ کیا گیا کہ صوبہ تلنگانہ کے سردار ولبھ بھائی پٹیل اسٹیڈیم میں پٹاخوں کی ایک دکان میں آگ لگ گئی۔ جان و مال کا کوئی نقصان نہیں ہوا ہے۔
آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ اے این ائی نے جو ویڈیو ٹوئٹ کیا تھا وہ دراصل تین سال پرانا ویڈیو تھا۔ اس ویڈیو کا تعلق صوبہ مہاراشٹر کے اورنگ آباد ضلع سے ہے۔ تین سال پہلے اورنگ آباد میں پٹاخوں کی تقریباً 200 دکانوں میں آگ لگ گئی تھی۔ یہ معاملہ اتنا سنگین تھا کہ لندن کے اخبار
ڈیلی میل میں بھی اس کو رپورٹ کیا گیا تھا۔
جب اے این ائی کو معلوم ہوا کہ انہوں نے تین سال پرانا ویڈیو ٹوئٹ کیا ہے تو انہوں نے اپنے ٹوئٹ پر معافی مانگتے ہوئے ایک ٹوئٹ کیا لیکن بعد میں اس ٹوئٹ کو ڈیلیٹ کر دیا !
امپلائز پروویڈنٹ فنڈ آرگنائزیشن یعنی ای پی ایف او ایک ایسی تنظیم ہے جو پارلیامنٹ قانون سے وجود میں آئی ہے۔ ای پی ایف او پنشن، پروویڈنٹ فنڈ اور انشورنس کے معاملوں میں سینٹرل بورڈ آف ٹرسٹیز کی معاون ہے۔ یہ اس وقت وزارت برائے روزگار و لیبر کے انتظامی کنٹرول میں کام کرتی ہے۔اس کی ویب سائٹ epfindia.gov.in ہے۔
گزشتہ ہفتے ایک معاملہ سامنے آیا جب کسی نے ای پی ایف او کی ویب سائٹ کی نقل کر کے ایک جعلی ویب سائٹ بنا لی اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے دعویٰ کیا کہ اگر آپ 1990 سے 2019 تک ملازم رہے ہیں تو آپ کو 80000 روپے کا فائدہ ہو سکتا ہے جس کے لئے آپ کو ہماری ویب سائٹ پر چند سوالات کا جواب دینا ہے۔
بوم لائیو نے انکشاف کیا کہ یہ ویب سائٹ جعلی ہے جس کا مقصد لوگوں کو فریب دینا ہے۔ بوم نے اس کے جعلی ہونے کی وجوہات بتائی:
سائٹ کا یو آر ایل socialdraw.top/epf مشکوک ہے۔ غور طلب ہے کہ حکومت کی کسی بھی ویب سائٹ میں ٹاپ لیول ڈومین پر اکثر govیا nic کا استعمال ہوتا ہے۔ جب کہ اس ویب سائٹ میں اس طرح کی کسی ٹاپ لیول ڈومین کا استعمال نہیں ہوا ہے۔
اس ویب سائٹ کو اسی سال 15 اکتوبر کو رجسٹر کیا گیا ہے، یعنی یہ ویب سائٹ ابھی صرف دو ہفتے پرانی ہے۔
ویب سائٹ کے آدھے حصے میں ای پی ایف او کی اوریجنل ویب سائٹ کی تصویر لگا دی گئی ہے تا کہ صارفین کو شک نہ ہو کہ وہ ایک جعلی ویب سائٹ دیکھ رہے ہے۔
ویب سائٹ کے دوسرے آدھے حصے میں کچھ سوالات پوچھے گئے ہیں جن کی ترتیب اور املا دونوں ہی درست نہیں ہے۔
لہٰذا بوم کے انکشاف سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ای پی ایف او کی یہ ویب سائٹ نقلی ہے۔ای پی ایف او نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے بھی ملازمین کو آگاہ کیا ہے:
اروند کیجریوال کی قیادت میں دہلی حکومت عوامی فلاح اور بہبود کے بہت کام انجام دے رہی ہے۔سوشل میڈیا پر ان کے اقدامات اور اسکیموں کی خوب چرچہ ہے۔ لیکن اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر دہلی حکومت سے متعلق غلو کی شکل میں فیک نیوز عام کی جا رہی ہے۔ سعود انصاری نامی شخص نے ایک عمارت کی تصویر فیس بک پر شیئر کرتے ہوئے لکھا:یہ پانچ ستارہ ہوٹل نہیں ہے بلکہ دہلی کا ایک سرکاری اسکول ہے۔
سعود نے جس تصویر کو شئیر کیا تھا اس میں عمارت کا عکس کافی اونچائی سے لیا گیا تھا اور عمارت خوبصورت نظر آرہی تھی۔
الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ یہ تصویر دہلی کے کسی سرکاری اسکول کی نہیں ہے، بلکہ صوبہ مدھیہ پردیش کے ایک میڈیکل کالج کی ہے۔ یہ میڈیکل کالج مدھیہ پردیش کے چھند واڑاشہر میں ہے۔ اسی سال فروری ماہ میں اس کا
افتتاح کیا گیا تھا۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ جھوٹ بولنے اور فیک نیوز کو عام کرنے میں بہت آگے ہیں۔ گزشتہ ہفتے بھی انہوں نے یہی کیا جب ایک فوٹوشاپ سے تشکیل کی ہوئی تصویر اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر شئیر کی۔
ٹرمپ اس تصویر میں ایک کتے کو میڈل پہنا رہے ہیں، اس کتے کا نام Conan ہے، جس نے ابو بکر البغدادی کو قتل کرنے میں اہم کردار نبھایا تھا اور امریکی سپاہیوں کی مدد کی تھی۔ کتے کی اس تصویر کو دو تصویروں کی مدد سے فوٹو شاپ کیا گیا تھا۔ ایک تصویر میں صرف کتا موجود تھا اور اس تصویر کو ٹرمپ نے ایک دن پہلے ہی ٹوئٹر پر شئیر کیا تھا۔
دوسری تصویر میں فوج میں ملازمت کرنے والے ریٹائرڈ میڈیکل کارکن James McCloughan کو صدر ٹرمپ اعزازی میڈل پہنا رہے ہیں کیوں کہ انہوں نے جنگ ویت نام میں دس افراد کی جان بچائی تھی۔
ان دو تصویروں کا استعمال کر کے تیسری تصویر بنائی گئی جس کو ٹرمپ نے ٹوئٹ بھی کر دیا !