مسلمانوں کے خلاف ماب لنچنگ کے واقعات کے بعد بھگوا موقف کی حقیقت کیا ہے؟

02:49 PM Jul 01, 2019 | محمد نوید اشرفی

فیک نیوز راؤنڈ اپ:  کیا لندن اسکول آف اکنامکس نے نریندر مودی کو اعزازی ڈگری دینے کا فیصلہ منسوخ کر دیا ہے؟

 گزشتہ ہفتے مسلمانوں اور دلتوں کی  ماب لنچنگ  کے مختلف معاملات منظر عام پر آئے  جس کی میڈیا میں پرزور مذمت کی گئی۔ قومی اخباروں کے علاوہ عالمی سطح پر بھی اس بھگوا دہشت گردی  کو ہندوستانی آئین اور انسانی قدروں کے خلاف مانا گیا۔ غور طلب ہے کہ جھارکھنڈ میں محمد تبریز انصاری کو بھگوا شدت پسندوں نے ‘جئے شری رام’  کا  نعرہ نہ لگانے کی وجہ سے قتل کر دیا تھا، اور ایسا ہی معاملہ مغربی بنگال میں بھی پیش آیا جہاں  ایک مدرس محمد شاہ رخ کو ‘جئے شری رام’ کا نعرہ نہ لگانے کے ‘جرم’ میں ٹرین سے دھکہ دے دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ  ایک دلت نوجوان  کو نیم برہنہ کرکے  ڈنڈوں سے پیٹنے کا ویڈیو بھی وائرل ہوا۔ جب بھگوا شرپسندوں کے ان کارناموں  سے متعلق  سوشل میڈیا پر ماحول گرم ہونے لگا اور لوگ سڑکوں پر احتجاج کرنے لگے تو  سوشل میڈیا کے بھگوا صارفین نے اس کے رد عمل میں ایک نیا پرچار شروع کیا جو مبنی بر جھوٹ تھا۔ بھگوا پیجوں، پروفائلوں اور ٹوئٹر ہنڈلوں سے کچھ ویڈیو عام کیے گئے جن کے بارے میں یہ دعوے کئے گئے کہ ان ویڈیوز میں مقتول ہندو شخص ہے اور قاتل مسلمان ہے، لیکن ملک کے  لبرل ، مسلمان اور آزاد فکر والے لوگ اس کو ماب لنچنگ کے دائرے سے باہر رکھیں گے کیونکہ یہ لوگ صرف ہندوؤں کے دشمن ہیں۔

ٹوئٹر پر پشپندر کل شریشتھ نامی شخص نے ایک ویڈیو شئیر کیا تھا  جس میں دکھایا گیا تھا کہ مسلمان کی شباہت والے ٹوپی کرتہ پہنے  کچھ افراد ایک شخص کو بہت برے طریقے سے پیٹ رہے تھے۔ اس ویڈیو کے تعلق سے دعویٰ کیا گیا کہ:

کیا یہ لنچنگ نہیں؟؟؟

مرنے والا ہندو اور مارنے والے مسلمان ہیں ۔

شائد اس لئے دانشمندوں کی نظر میں یہ لنچنگ نہیں ہے۔

پشپندر کے علاوہ ‘کنگنا فین کٹر ہندو‘ نامی ہینڈل سے بھی  یہی ویڈیو اپلوڈ کیا گیا تھا جو اب دونوں ہنڈلوں سے ڈیلیٹ کر دیا گیا ہے۔

آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ یہ ویڈیو ہندوستان کا  نہیں ہے بلکہ بنگلہ دیش کا  ہے جہاں  یکم اپریل  2017 کو  کچھ لوگوں نے ابو سید نامی شخص کا قتل کر دیا تھا اور  محمد علی نامی شخص کو بری طرح زخمی کر دیا تھا۔ابو سید اور محمد علی پر سیاسی جماعت ‘جوبو لیگ’ کے لیڈر منیر حسین سرکار کے قتل کا الزام تھا اور یہ واردات بنگلہ دیش کے ضلع کومیلہ میں ہوئی تھی جس کو کومیلہ کاگوج  نامی اخبار نے شائع بھی کیا تھا۔

پشپندر کلشرشتھ نے ہی  ایک دوسرا ویڈیو 23 جون کو اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر اپلوڈ کیا تھا جس میں ایک مسلم شخص کسی ہائی وے کے بلکل بیچ میں نماز ادا کر رہا تھا۔ پشپندر نے ویڈیو پر تبصرہ کیا:

اس  ویڈیو کو غور سے دیکھیں۔

کیا یہ دنگا کرانے کے مقصد سے نماز نہیں پڑھ رہا ہے؟

پشپندر نے اس ویڈیو کو اپلوڈ کرتے وقت ذہین سازی  کے مقصد سے یہ تصدیق کر لیا تھا کہ یہ ویڈیو ہندوستان کا ہے جہاں ایک مسلم شخص ہائی وے کے بیچ میں نماز پڑھ رہا ہے! پشپندر کے اس ٹوئٹ کو  تقریباً 5300 لائک حاصل ہوئے اور اس ٹوئٹ کو تقریباً 3300 مرتبہ ٹوئٹ کیا گیا۔ پشپندر کے  علاوہ بھی متعدد افراد نے اس کو شئیر کیا۔

آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ یہ ویڈیو ہندوستان کا نہیں ہے بلکہ  ملیشیا کا ہے۔ ویڈیو میں موجود بل بورڈ کی مدد سے یہ معلوم ہوا کہ جس جگہ وہ شخص نماز ادا کر رہا ہے وہ  ‘اسپرنٹ ہائی وے’ ہے جو  ایس سی لینڈ گیلری، سنگور دار الاحسان کے سامنے سے گزرتا ہے۔  جب گوگل میپ کے سہارے  اس جگہ کی اسٹریٹ ویو کو دیکھا گیا تو یہ واضح ہو گیا کہ یہ ہندوستان کا ویڈیو نہیں ہے۔ مزید، ویڈیو میں گزرتے ہوئے راہگیر نے عبادت گزار شخص کو مقامی زبان میں ہدایت بھی کی تھی، اس نے کہا تھا: بھائی یہاں نماز پڑھ کر اپنی زندگی ختم کرنے میں کیوں لگے ہو؟ راہگیر کا اشارہ اس بات پر تھا کے ہائی وے پر اس طرح نماز پڑھنے سے ایکسیڈنٹ ہونے کا اندیشہ ہے  جس میں عبادت گزار  کی جان جانے کا بھی خطرہ ہے۔آلٹ نیوز نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ ویڈیو نیا نہیں ہے۔ گزشتہ دسمبر کے اس ٹوئٹ میں بھی اس ویڈیو کو دیکھا جا سکتا ہے:

27 جون کو بی جے پی کے سابق ایم پی بلبیر پنج نے دیو اوجھا نامی ٹوئٹر ہینڈل کے ویڈیو ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کیا۔ دس سیکنڈ  کے  اس ویڈیو کلپ میں دکھایا گیا تھا کہ ایک بزرگ کو بھیڑ نے گھیر رکھا ہے، بھیڑ میں لوگ شور کر رہے ہیں اور ان کے درمیان یہ بزرگ ہاتھ جوڑ رہا ہے، بزرگ نے اپنے گلے میں ایک زنار اور  مالا پہن رکھی ہے۔ بلبیر پنج نے لکھا کہ برہمن بزرگ کے خلاف نفرت کا  یہ معاملہ کانگریس، لیفٹ  اور لبرل سیاست کا حصہ ہے۔ پنج نے اس کی مذمت کرتے ہوئے اپنے ٹوئٹ میں  طارق فتح کو بھی مینشن کیا تھا ۔

گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا میں ایک وہاٹس ایپ فارورڈ گردش میں تھا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ لندن اسکول آف اکنامکس مودی کو اعزازی ڈگری دینے والا تھا لیکن جب وہاں کے دانشمندوں نے سپریم کورٹ کے وکیل پرشانت بھوشن کی آکسفورڈ یونین کی بحث سنی تو انہوں نے نریندر مودی کو یہ اعزازی ڈگری دینے کا فیصلہ منسوخ کر دیا۔

بوم لائیو نے اس معاملے کی تحقیق کرتے ہوئے پرشانت بھوشن سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے بوم کو بتایا کہ وہ  اسی سال مئی میں لندن گئے تھے اور لندن اسکول آف اکنامکس میں خطاب دے کر آئے تھے، اس خطاب کے بعد انہوں نے تاریخی آکسفورڈ یونین کی ایک بحث میں حصہ لیا تھا اور اپنا موقف بحث کی  محترمہ صدر کے سامنے پیش کیا تھا۔ بھوشن نے بوم کو بتایا کہ غالباً یہ جھوٹ ہے اور فیک نیوز کا حصہ ہے۔

بوم نے لندن اسکول آف اکنامکس سے بھی رابطہ قائم کیا۔ ایل ایس ای کے میڈیا ریلیشن محکمے سے Charlotte Kelloway نے  بوم کو بتایا کہ  ایل ایس ای نے مودی کو اس طرح کے کسی بھی اعزاز سے سرفراز کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے، اس لئے اس کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے کہ ایل ایس ای نے اپنا کوئی فیصلہ منسوخ کر دیا ہے۔

(محمد نوید اشرفی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں اور ہر اتوار فیک نیوز پر دی وائر اردو کے لئے کالم لکھتے ہیں. ان کے پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔)