فیک نیوز راؤنڈ اپ: کیا پرینکا گاندھی نے بچوں سے مودی مخالف نعروں میں گالیاں بلوائیں؟ کیا دہلی میں گوتم گمبھیر اپنے ہمشکل سے الیکشن ریلیاں کروا رہے ہیں؟
آج 12 مئی کو لوک سبھا انتخابات اپنے چھٹے مرحلے میں پہنچ چکے ہیں اور عوام اس شدت کی گرمی میں گھروں سے نکل کر ووٹ کر رہے ہیں۔ انتخابات کے اس دور میں ایک طرف ووٹر اپنی اگلی حکومت کے خیر مقدم کے لئے تیار ہیں تو دوسری جانب سیاسی لیڈروں، سیاسی جماعتوں اور میڈیا کی طرف سے غلط بیانی اور فیک نیوز کی اشاعت میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے! خاص طور سے مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی اور ان کی پارٹی ترنمول کانگریس کو بی جے پی مسلسل نشانہ بنا رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے بڑے بڑے میڈیا اداروں نے ممتا بنرجی کی طرف غلط بیان منسوب کرتے ہوئے اپنے پورٹلوں اور ٹی وی چینلوں پر یہ عام کیا کہ ممتا نے ایک ریلی میں کہا کہ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ مودی کو ایک زوردارطمانچہ ماریں !اس خبر کو
آج تک،
اے بی پی نیوزاور
سی این این نیوز 18نے شائع کیا۔ آج تک کی نیوز اینکر انجنا اوم کشیپ نے اس حوالے سے اپنے ایک شو میں ترنمول کے نمائندے منوجیت مونڈل کو بھی نشانہ بنایا۔ آج تک نے اس ویڈیو شو کے علاوہ اپنے پورٹل پر خبر بھی شائع کی جسکا
عنوان تھا؛ آپے سے باہر ہوئیں ممتا بنرجی، بولیں مودی کو تھپڑ مارنے کا من کرتا ہے۔
غور طلب ہے کہ پرائم منسٹر نریندر مودی6 مئی کو مغربی بنگال میں ایک ریلی میں عوام سے مخاطب تھے جب انہوں نے ممتا بنرجی اور ان کی پارٹی کے تعلق سے کہا کہ صوبہ مغربی بنگال میں بچوں کی تعلیم پر حکومت نے ‘ٹرپل ٹی’ ٹیکس لگا رکھا ہے جس کی وجہ سے تعلیم کے میدان میں صوبے کے حالات بدتر ہیں۔ مودی نے بتایا کہ ٹرپل ٹی ٹیکس کا مطلب ہوتا ہے:
ترنمول ٹولہ بازی ٹیکس ٹولہ بازی سے ان کی مراد لوٹ کھسوٹ سے تھی۔
مودی کے اس تبصرے پر ممتا بنرجی نےبانگلہ زبان میں کہا کہ جب مودی مغربی بنگال آتے ہیں اور ممتا بنرجی کو ٹولہ باز قرار دیتے ہیں تو میری خواہش ہوتی ہے کہ ان کو جمہوریت کا ایک زوردار طمانچہ ماروں!
ممتا کا اشارہ مودی کو براہ راست طمانچہ مارنے کی طرف نہیں تھا بلکہ وہ غالباً ان کو انتخابات میں شکست دینے کی بات کر رہیں تھیں جس کی وجہ سے انہوں نے ‘جمہوریت کا زوردار طمانچہ’ لفظ کا استعمال کیا۔ اس حقیقت کو ترنمول کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل پر ایک
ویڈیو ٹوئٹ میں بھی واضح کیا گیا۔
دہلی میں مشرقی دہلی سے سابق کرکٹر گوتم گمبھیر بی جے پی کے لوک سبھا امیدوار ہیں۔دہلی کے ڈپٹی چیف منسٹر
منیش سسودیہ سے لے کر صحافی
روہنی سنگھ تک نے ایک تصویر ری ٹوئٹ کی جس میں دکھایا گیا ہے کہ ایک الیکشن ریلی میں گوتم گمبھیر کار میں اگلی سیٹ پر بیٹھے ہیں جب کہ ایک شخص جو ان کا ہمشکل معلوم ہوتا ہے، کار میں کھڑا ہوکر عوام سےروبرو ہو رہاہے۔
اس تصویر کے تعلق سے تنقیدی لہجے میں کہا گیا کہ گوتم الیکشن سے پہلے دھوپ اور گرمی سے بچنے کے لئے اپنے ‘ڈپلیکیٹ’کا استعمال کر رہے ہیں، جب منتخب ہوکر پارلیامنٹ جائیں گےتووہاں بھی اپنےڈپلیکیٹ کو ہی بھیجیں گے۔سوشل میڈیا پر الزام لگایا گیا کہ گوتم گمبھیر نے الیکشن ریلی میں اپنے ہمشکل کا استعمال کیا ہے۔
بوم لائیو نے انکشاف کیا کہ تصویر میں گوتم گمبھیر کے ہمشکل نظر آنے والے شخص گورو اروڑہ ہیں۔ گورو اروڑہ 2017 میں کانگریس پارٹی سے ایم سی ڈی کا الیکشن لڑ چکے ہیں۔ گورو گوتم گمبھیر کے کافی قریبی ہیں اور ان کے سیاست میں قدم رکھنے سے پہلے بھی گوتم گمبھیر سے جڑے رہے ہیں۔ بوم نے گوتم گمبھیر کے پی آر منیجر سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ ریلی میں گورو کو ہمشکل یا ‘ڈبل’ کی طرح استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ بلکہ جس علاقے میں ریلی موجود تھی اس میں گورو کے عوام کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، اس بنا پر وہ گوتم گمبھیر کے لئے لوگوں سے روبرو ہیں۔
گزشتہ ہفتے ٹوئٹر اور فیس بک پر ایک ویڈیو بہت وائرل ہوا جس کے ساتھ یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ ویڈیو راجستھان کے ناگور ضلع کا ہے جہاں بی جے پی کے غنڈے مسلمانوں کو ووٹ کرنے سے روک رہے ہیں اور ان کے ساتھ مارپیٹ کر رہے ہیں۔ لکھا گیا؛
مسلمانوں کو ووٹ دینے سے ورک رہی ہے مودی سرکار۔ بی جے پی، آر ایس ایس، شو سینا والے بوڑھوں، بچوں اور خواتین پر مار پیٹ کر رہے ہیں۔ اس ویڈیو کو میڈیا والے شئیر نہیں کریں گے، اس لئے اس ویڈیو کو زیادہ سے زیادہ شئیر کریں۔ اور آر ایس ایس اور مودی کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ یہ ویڈیو پرانی ہے جس کا تعلق راجستھان سے نہیں ہے بلکہ گجرات کے ضلع ویرامگم سے ہے۔ آلٹ نیوز نے ویڈیو کے مختلف اسکرین گریب کو گوگل میں ریورس امیج سرچ کیا اور پایا کہ یہ ویڈیو پرانی ہے جس کو ایک ٹوئٹر ہینڈل سے اسی سال 3 اپریل کو اپلوڈ کیا گیا تھا۔
خبروں کے مطابق گجرات کے ویرامگم میں ٹھاکروں اور مسلمانوں کے درمیان فساد ہوا تھا تھی۔ معاملہ یہ تھا کہ مقامی قبرستان کی دیوار پر جب کسی نے کپڑے سکھانے کے لئے کپڑے پھیلائے تو ان کو اس کے لئے منع کیا گیا لیکن وہ نہیں مانے اور بات بڑھ گیی۔
انڈین ایکسپریس نے یکم اپریل کو رپورٹ کیا تھا کہ اس فساد میں 15لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ لہٰذا یہ واضح ہو جاتا ہے راجستھان میں کہیں بھی مسلمانوں کے ساتھ ایسا کچھ بھی پیش نہیں آیا ہے جس کا دعویٰ وائرل ویڈیو میں کیا گیا ہے۔
ابھیجیت مجمدار ایک صحافی ہیں اور
مائی نیشن نامی نیوز پورٹل کے
ایڈیٹر ان چیف ہیں۔ ابھیجیت نے 30 اپریل کو ایک ویڈیو ٹوئٹ کیا جس میں پرینکا گاندھی کچھ بچوں کے درمیان ہیں۔ یہ بچے پرینکا گاندھی اور کانگریس کی حمایت میں نعرے لگا رہے تھے کہ اچانک نریندر مودی کو اپنے نعروں میں نازیبا الفاظ بولنے لگے۔ ویڈیو میں دکھایا گیا کہ پرینکا بچوں کے اس عمل پر خوش ہو رہیں تھیں۔ ابھیجیت نے اپنے ویڈیو ٹوئٹ میں لکھا تھا؛
لب ولباب یہ ہے کہ نہرو گاندھی پریوار نے اسی طرح ملک پر 70 برس حکومت کی ہے۔
اسی ویڈیو کو
اسمرتی ایرانی،
پریش راول اور
انکر سنگھ نے بھی ٹوئٹ کیا تھا۔ انکر سنگھ کو نریندر مودی خود فالو کرتے ہیں۔ ویڈیو کی حقیقت یہ ہے کہ ویڈیو کو کسی سافٹ ویئر کی مدد سے تبدیل کیا گیا ہے۔ اصل ویڈیو میں جب بچے مودی کے خلاف گالیاں بول رہے ہیں تو پرینکا نے ان کو ایسا کرنے سے منع کیا اور کہا کہ؛یہ والا نہیں، یہ والا اچھا نہیں لگتا، اچھے اچھے والے ٹھیک ہیں۔ ویڈیو میں حقیقت سامنے ہے جو یہ واضح کرتی ہیں کہ پریش راول اور اسمرتی ایرانی نے غلط ویڈیو شئیر کی تھی؛
Priyanka Gnadhi – Slogans from
Alt News on
Vimeo.
(محمد نوید اشرفی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں اور ہر اتوار فیک نیوز پر دی وائر اردو کے لئے کالم لکھتے ہیں. ان کے پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔)