انتخابات کے دور میں فیک نیوز کی اشاعت میں اضافہ ہونا سوشل میڈیا کا فطری تقاضا ہے اور اس کی دلیل اس رپورٹ میں موجود ہے جو یہ بتاتی ہے کہ کس طرح سیاسی پارٹیاں فیک نیوز کی اشاعت میں کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہیں۔
26 فروری کو بالاکوٹ میں مبینہ طور پر کی گئی ایئر اسٹرائیک میں مودی حکومت نے دعوے کئے تھے کہ ہندوستانی ایئر فورس نے اپنی ایئر اسٹرائیک میں بڑی تعداد میں پاکستانی دہشت گردوں کو ہلاک کیا تھا۔ جب میڈیا کے ایک حصّے اور اپوزیشن لیڈران نے حکومت سے اس کا ثبوت مانگا تو حکومت کے وزیروں نے ان لوگوں کو ملک مخالف اور غدار کہا۔ ملک کو ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی حکومت صرف باتوں کو ا دھر ادھر کرنے میں مشغول رہی اور کوئی پختہ ثبوت نہیں دے پائی۔
لیکن 13مارچ کو وہ ہوا جس کا حکومت کو بھی احساس نہیں تھا، ٹوئٹر پر ایک ویڈیو سامنے آیا جس کے تعلق سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ ویڈیو پاکستان کا ہے جس میں کچھ لوگ اس بات کو قبول کر رہے ہیں کہ ان کے تقریباً 200 افراد کو ہندوستانی ایئر فورس نے مار ڈالا ہے۔
SengeHSering نامی ٹوئٹر ہینڈل سے سب سے پہلے یہ
ویڈیو شئیر کیا گیا تھا۔ سیرنگ امریکہ میں مقیم ایکٹوسٹ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے یہ ویڈیو عام کیا۔
شرم کی بات تو یہ ہے کہ اس جھوٹے ویڈیو کو اساس بناکر مرکزی وزیر روی شنکر پرساد حکومت کی پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں اور میڈیا کے جس طبقے نے اس جھوٹی ویڈیو کو بریکنگ نیوز بنایا اور ملک کو گمراہ کیا اس طبقے کے قصیدے پڑھ رہے ہیں (ویڈیو میں13 منٹ کے بعد دیکھئے)۔ یہی حال دوسرے وزیر گری راج سنگھ کا بھی ہے۔انتخابات کے دور میں فیک نیوز کی اشاعت میں اضافہ ہونا سوشل میڈیا کا فطری تقاضا ہے اور اس کی دلیل اس رپورٹ میں موجود ہے جو یہ بتاتی ہے کہ کس طرح سیاسی پارٹیاں فیک نیوز کی اشاعت میں کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہیں۔
اسی طرح کا ایک پروپیگنڈہ گزشتہ ہفتے بھی نظر آیا جس میں ایک حجاب پوش خاتون اپنے ہاتھ میں ایک پلے کارڈ لئے ہوئے ہے جس پر لکھا ہے؛‘مودی کو اپنا گھر بھرنا ہوتا تو وہ 13سال گجرات کا چیف منسٹر رہ کر بھر لیتا، اسے کرسی سے نہیں صرف اپنے دیش سے پریم ہے۔
یہ تصویر سوشل میڈیا میں بہت زیادہ وائرل ہوئی اور حجاب پوش مسلم خاتون کے ہاتھ میں پلے کارڈ سے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ ہندوستانی مسلمان بھی مودی کی سچائی اور حب الوطنی کو سمجھتے ہیں۔اس طرح کی تصویروں کی حقیقت جان لینا کوئی بڑا کام نہیں ہے۔ ایک عام شہری جب اس تصویر کو گوگل امیجز میں ریورس سرچ کرےگا تو اس کو اصل تصویر مل جائےگی۔آپ کومعلوم ہوجائےگاکہ اصل تصویر میں خاتون کے پلے کارڈ پر انگریزی میں لکھا ہے کہ میں مسلمان ہوں لیکن میں عرب نہیں ہوں۔ یہ تصویر UMW مشن کا حصّہ تھی جس کو غالباً BJP کی آئی ٹی سیل نے تبدیل کر دیا !
عام انتخابات کی وجہ سے ملک بھر میں ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ لاگو کیا جا چکا ہے جس کے تحت سیاسی لیڈروں اور سیاسی پارٹیوں کو ایسے تمام اقدام سے بچنا ضروری ہوتا ہے جن سے اس بات کا اندیشہ ہو کہ ان کے اس فعل سے ووٹر کی رائے میں غیر مناسب تبدیلی آئےگی۔ یہ کوڈ الیکشن کمیشن جاری کرتا ہے جس میں تمام ہدایتیں واضح طور پر لکھی ہوتی ہیں۔
گزشتہ ہفتے فیس بک اور وہاٹس ایپ پر اسی طرح کا ایک دستاویز وائرل ہوا جو ایسا معلوم دیتا تھا کہ کسی سرکاری محکمے سے جاری کیا گیا ہے۔ یہ دستاویز ایک خط کی شکل میں تھا جسے کرائم پریونشن کونسل اف انڈیا کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔ اس خط میں ہدایت دی گئی تھی کہ عام شہری اس بات کا خیال رکھیں کہ ملک میں ماڈل کوڈ اف کنڈکٹ لاگو ہو چکا ہے، لہذا سوشل میڈیا پر کوئی بھی ایسی بات نہ لکھیں جس سے ملک میں بدعنوانی کا ماحول پیدا ہو اور امن ختم ہو جائے۔
حالانکہ یہ خط نیک مقصد کے ساتھ لکھا گیا تھا لیکن یہ خط کہاں سے جاری ہوا اس کی تفتیش کرنا بھی لازمی ہے۔ سوشل میڈیا ہوَش سلیر نے اپنی تفتیش میں بتایا کہ یہ خط فرضی ہے کیوں کہ کرائم پریونشن کوکونسل کے نام سے کوئی سرکاری ادارہ ہندوستان میں نہیں ہے۔ جب خط پر موجود ویب سائٹ اور موبائل نمبر پر رابطہ قائم کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ویب سائٹ مکمل نہیں ہے اور یہ ادارہ سرکاری ادارہ نہیں ہے۔
موجودہ حکومت اپنی ہر ناکامیابی کا ٹھیکرا آج کل پنڈت نہرو کے سر پر پھوڑ رہی ہے۔ اقوام متحدہ میں مسعود اظہر معاملے میں جب چین نے ہندوستان کا ساتھ نہیں دیا تو حکومت نے اس کا ذمہ دار بھی نہرو کو ہی بتایا۔ حکومت کا ماننا ہے کہ جب ہندوستان کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں پرماننٹ سیٹ مل رہی تھی تو نہرو نے سیٹ لینے سے انکار کر دیا اور یہ کہا کہ ہندوستان سے پہلے یہ حق چین کا ہے۔ لہذا یہ سیٹ چین کو دے دی جائے۔ روی شنکر پرساد نے یہ توہمت نہرو پر لگائی۔ ہم قارئین کو رویش کمار کے اس ویڈیو سے روبرو کراتے ہیں جس میں حکومت کے اس دعوے کی زمینی حقیقت سے پردہ اٹھایاگیا :
(محمد نوید اشرفی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں اور ہر اتوار فیک نیوز پر دی وائر اردو کے لئے کالم لکھتے ہیں. ان کے پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔)