فیض احمد فیض کی نظم: کیا لفظ ’اللہ‘ ہندو مخالف ہے؟

جو لوگ’’ہم دیکھیں‌گے‘‘کو’ہندو مخالف‘کہہ رہے ہیں، وہ ایشور کی پوجا کرنے والے بت پرست نہیں، سیاست کو پوجنے والے بت پرست ہیں۔

جو لوگ’’ہم دیکھیں‌گے‘‘کو’ہندو مخالف‘کہہ رہے ہیں، وہ ایشور کی پوجا کرنے والے بت پرست  نہیں، سیاست کو پوجنے والے بت پرست ہیں۔

فیض احمد فیض(فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

فیض احمد فیض(فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

آئی آئی ٹی کانپور میں اس بات کی جانچ ہوگی کہ فیض کی نظم ’ہم دیکھیں‌گے‘ ہندومخالف ہے یا نہیں۔ کوئی بھی نظم/ادب ہندو مخالف ہے یا نہیں؟یا اس کے مندرجات کیا ہیں؟ اس کو سمجھنے اورجانچنے کا طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟یہ سوچتے ہوئے مجھے اچانک اس کلاس روم کی یاد آئی، جہاں اساتذہ  شعر کی قرأت کے بعد اپنی بات عام طور پر اس طرح شروع کرتے تھے کہ …شاعر اس شعرمیں یہ کہنا چاہتا ہے، یا شاعر ہمیں یہ بتانا چاہتا ہے…

مجھے یہ طریقہ کارہمیشہ سے بچکانہ لگتا رہا کیونکہ مجھے اس طریقےمیں شاعر کو ملزم بنانے کی سازش کی بو آتی رہی ہے۔ لیکن اب مجھے اپنے ان تمام اساتذہ پر بےحد پیارآ رہا ہے جنہوں نے شاعری کی ٹانگیں توڑ‌کر سارا الزام شاعر کو دے دیا کہ شاعر یہ کہنا چاہتا ہے… اور آج مجھے یقین بھی دلا دیا کہ ایسے نامطلوب اور سیاسی مواقع پر وہ بھی میرے کام آ سکتے ہیں۔جاننے والی بات یہ ہے کہ فیض کے جیتے جی پہلے ہی کئی بار پاکستان میں فیض کی وجہ سے اسلام خطرے میں آ چکا تھا اور اب ان کی  وفات کے بعد ان پر ہندو مخالف ہونے کا الزام ہے۔ خدا جانے یہ نام نہاد مذہبی لوگ الگ الگ وقت میں بھی ایک ہی لکیر کو ایک ہی طرح سے کیسے پیٹ لیتے ہیں۔

حالانکہ اس نظم میں ایسا کچھ نہیں ہے جس کو تعبیر وتصریح کی ساری کوششوں کے باوجود ہندو مخالف کہا جا سکے، لیکن فیکلٹی ممبر کو بالخصوص نظم کے بت اٹھوائے جائیں‌گےاورنام رہے‌گا اللہ کاوالے حصے میں ایسا کچھ نظر آ گیا جو ان کی تصریح میں ہندو مخالف  ہے یا ہو سکتا ہے۔فیض کی نظم کو لےکر اس جاری تنازعے کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں تو لگتا ہے کہ یہ بھی کلاس روم والی نوع  کی سازش ہے۔ یہاں شاعر نے کیاکہا،نظم کیا کہنا چاہتی ہے، سیاق وسباق کیا ہے-سب ایک طرف، بس ایک فیکلٹی ممبر کو لگاکہ شاعر یہ کہنا چاہتا ہے یا اس میں درج لفظوں کے معنی ہندو مخالف ہیں اس لئے ایک کمیٹی اس کی جانچ کرے‌گی۔

کہیں کسی نظم میں اللہ درج کر دینے سے یا کسی کےبول دینے سے یہ کیسے ثابت ہوگا کہ وہ متن ہندو مخالف ہے؟ کہیں آپ یہ تو نہیں کہناچاہتے کہ لفظ اللہ ہی ہندو مخالف ہے؟ پھر گاندھی جی‌کے پسندیدہ بھجن رگھوپتی راگھو راجا رام کےایشور اللہ تیرو نام والےاللہ میاں کا کیا کیا جائے‌گا؟شاید آپ کو یہ بات اچھی نہ لگے لیکن شاعری مذہب سےزیادہ مقدس ہوتی ہے۔ اتنی مقدس کہ ایشور-اللہ کا فرق مٹ جاتا ہے۔ شاید اسی فرق کومٹتا دیکھ کچھ لوگ فیض اور حبیب جالب جیسے شعراء سے بدگمان نظرآتےہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ فیض کی یہ بے چاری نظم ہمیشہ سےتنازعات کا شکار رہی ہے۔ ایک ذرا سا گوگل کیجئے تو پتہ چلے‌ کہ اس نظم کی صرف ایک سطر’ہم دیکھیں‌گے‘ کو دیوار پر لکھ دینے کی وجہ سے بھی طالبعلموں کو نوٹس تھمایا جا چکا ہے۔بہانےبہانے سے اس طرح کی نظموں پر اعتراض کا مطلب بہت صاف ہے کہ تمام طرح کے احتجاج اور مظاہرے میں لوگوں کی آواز بننے والے ترانے کو کبھی مذہب کے نام پر راندۂدرگاہ کرنے کی کوشش کی جائے، تو کبھی اسکول میں بچوں کے ترانےمیں بھی مذہب تلاش‌کر لیا جائے۔

فیض کو ہندو مخالف قرار دینے والوں کو جاننا چاہیے کہ وہ ہمیشہ جمہوری‎قدروں کے لئے کھڑے رہے، ایک طرف جہاں اپنے ملک پاکستان میں انہوں نے عوامی حقوق کے لئے آواز بلند کی وہیں ہندوستان میں ایک وقت میں نہرو اور اندرا گاندھی کے پیارے اس شاعر نے اندرا تک کی تنقید میں کسی لاگ لپیٹ سے کام نہیں لیا۔سابق وزیر اعظم اور وزیر اندر کمار گجرال راوی  ہیں کہ ؛ایمرجنسی کے زمانے میں فیض نے کہا، یہ خوب کیا، پاکستان کو جمہوری راہ پر لانے کے بجائے تم لوگ خودہی لڑھک گئے۔

جمہوریت کے لئے لڑنے والا شاعر بھلا کسی بھی مذہب کی توہین کیسے کر سکتا ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ فیض اصل میں کیا تھے؟

اس کا کوئی آسان اور سادہ سا جواب ممکن نہیں ہے، لیکن مذہب کی بات کریں تو وہ شدت پسند نہیں تھے، انہوں نے اکثر یہ کہا کہ میں صوفی-سوشلسٹ مسلمان ہوں اور رومی میرے مرشد ہیں۔ میری شاعری بھی اس سے الگ نہیں ہے۔ان کا عقیدہ تھا کہ صوفی ہی اپنے وقت کے سب سے بڑےکامریڈ ہوتے ہیں۔ ایک بار ان سے پوچھا گیا کہ کچھ لوگ اپنی ذات  کے حوالے سےمذہب کو دیکھتے ہیں۔ تو ان کا جواب تھا،بڑی خوشی سے دیکھیں مگر ان کو کچھ نظرآئے‌گا تبھی تو دیکھیں‌گے۔ اہم دیکھنے والی نظر ہوتی ہے۔

اپنی اہلیہ کے ساتھ فیض ،فوٹو بہ شکریہalchetron.com

اپنی اہلیہ کے ساتھ فیض ،فوٹو بہ شکریہalchetron.com

فیض کو سمجھنے کی سعی میں یاد آتی ہے وہ بات بھی جب ان کی اہلیہ ایلس نے امرتا پریتم کو ایک سوال کے جواب میں کہا تھا،

میں فیض سے امرتسر میں ملی، امرتسر ہندوستان بن گیا اور ہندوستان فیض۔

جی ایک زمانہ وہ تھا جب ہندوستان کا مطلب فیض ہوتا تھا۔ بات فیض اور ہندوستان کی ہی کریں تو جب جب ان دو ممالک کے مابین حالات  کشیدہ ہوئے فیض نے اس کوکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ ان کو پاکستان میں ملک کا دشمن اورہندوستان نواز تک کہا گیا۔ لیکن وہ اپنی کرنی کر گزرنے میں یقین رکھتے تھے۔یہاں کرشن چندر اور فیض کا ایک واقعہ بھی یاد آ رہا ہے، جو ماسکو میں پیش آیا تھا۔دراصل  ماسکو میں دنیا بھر‌کے تخلیق کاروں کی کانگریس تھی، جس میں فیض اور کرشن چندر بھی مدعو تھے۔ وہاں ہر مہمان کی میز پر اس کے ملک کاجھنڈا لگا ہوا تھا۔ہندوستان کے ترنگے والی میز سے کوئی 30 میز کی دوری پرپاکستان کا پرچم لگا تھا۔ کچھ دیر بعد وہاں فیض آئے اور ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ پھران دونوں کی نظریں ملیں اور دونوں اپنے-اپنے ملک کا پرچم لےکر آگے بڑھے اور ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔سارا ہال تالی پیٹنے لگا۔ اور پھر وہاں کہا گیا،

کیاسمجھتے ہیں یہ لوگ، ہم لوگ بھی کیا متعصب  سیاستدانوں کی طرح ایک دوسرے کے دشمن ہیں؟ ادب میں یہ دشمنی نہیں چلتی اور کاش کہیں بھی نہ چلے۔

 ہندوستان میں اسی فیض کی مقبولیت کے بارے میں پاکستان میں کہا گیاکہ وہ تو اشوک کمار بنے پھرتے ہیں۔ اس طرح کی بہت سی باتیں ہیں جو فیض کے لئے پیش کی جا سکتی ہیں، لیکن نفرت کی بھی اپنی ایک حکمرانی  ہے جو فیض کی نظم کی جانچ کرنا چاہتی ہے۔ اقتدار اور سیاسی آب و ہوا ہمیشہ سے یہی کرتے آئے ہیں۔اچھی بات یہ ہے کہ فیض اور فیض کی اس نظم سے ڈرنے والےدونوں ملکوں میں اپنی-اپنی نفرت والی سیاسی دکان چلا رہے ہیں۔ فیض وہاں اسلام کے دشمن تھے تو یہاں ہندو مخالف۔

اشارہ پاکستان کی سیاست، جنرل ضیاء الحق کی تاناشاہی اوران کے فرمان کی طرف ہے۔ خیر سے فیض اس سماج اور عوام کے شاعر رہے، جہاں جمہوریت کی بحالی اور عوامی حقوق کے لئے ان کا جیل آناجانا لگا رہا۔فیض نے جمہوریت کی سلامتی کے لئے کیا نہیں لکھا اور کس طرح کی  نافرمانی نہیں کی، شاید اس لئے ہندوستان اور پاکستان تو ایک طرف، ان کی آواز کو دنیا بھر میں مظلوموں نے اپنے گلے سے لگایا۔

اسی وجہ سے یہ بھی کہا گیا کہ کیا فیض صرف اس پاکستان کےشہری ہیں جہاں وہ رہے یا ہر اس مظلوم دنیا کے جہاں اقتدار اپنی جابرانہ پالیسی کے سہارے عوام پر ظلم کرتی ہے۔جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے کہ ان کی نظمیں جہاں فلسطینی بچوں کو لوری سناتی ہیں وہیں ویت نام کے مظلوموں کے ساتھ بھی کھڑی ہو جاتی ہے۔ فیض کی اہمیت اور ضرورت پر کبھی اور بات کی جائے‌گی، فی الحال اس نظم کو سامنے رکھتے ہیں جس کو  ہندو مخالف کہا گیا اور فیض جیسے انسان پرست شاعر کو گالی دینے کی بیہودہ کوشش کی گئی۔

تو اس نظم سے متعلق  ایک دلچسپ قصہ ہے۔ جب جنرل ضیاء الحق نے پاکستان میں ہر طرح-بولنے، لکھنے، پڑھنے یہاں تک کہ عورتوں کے ساڑی پہننے پربھی پابندی لگا رکھی تھی، ایسے وقت میں اقبال بانو جیسی فنکارہ نے سیاہ ساڑی پہن‌کر احتجاج درج کرتے ہوئے لاہور کے ایک اسٹیڈیم میں نافرمانی کو اپنا حق سمجھا اور اس کے اظہار کے لیے اسی نظم کو وسیلہ بنایا۔کہتے ہیں تقریباً پچاس ہزار لوگوں نے اس وقت بھی فیض کی اس نظم کو اپنی آواز دی، جب اقتدار کے اشارے پر اسٹیڈیم کی لائٹ بند کر دی گئی۔یاد کرنے والی بات یہ بھی ہے کہ وہاں عوام نے انقلاب زندہ باد کے نعرے لگائے۔

اس قصہ کو دوہراتے ہوئے اگر میں تھوڑی دیر کےلئے سیاسی عینک لگا لوں تو آپ کو بتا سکتا ہوں کہ اس وقت پاکستان میں جو انقلاب زندہ باد کے نعرے لگائے گئے وہ ہندوستانی نعرہ ہے۔ آپ جانتے ہی ہوں‌گے کہ یہ نعرہ مولانا حسرت موہانی نے دیا تھا جس کو بھگت سنگھ اور ان کے دوستوں نے بھی انگریزوں کے خلاف اپنا ہتھیار بنایا۔اب اس اتفاق پر کیا کہیے کہ پاکستانی عوام، فیض کی نظم اور ہندوستانی نعرہ۔ پھر آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ نعرہ اسلام مخالف تو نہیں ہے نہ۔بالکل صحیح بات ہے کہ یہ نعرہ اسلام مخالف نہیں ہے تو آپ نے یہ کیسے مان لیا کہ فیض یا فیض کی نظمیں ہندو مخالف ہیں؟

میں کلاس روم والے استاد کی طرح فیض کی اس نظم پر بات کروں اس سے پہلے دو ایک باتیں یاد کروا دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ فیض کون تھے؟ آپ چاہیں تو اس طرح کہہ لیجیے کہ فیض آپ کے لئے کیا ہیں؟ پاکستانی شاعر،مسلمان شاعر یا صرف مسلمان اس لئے ہندو مخالف ہیں؟آپ نے صحیح پڑھا میں نے فیض کو کمیونسٹ اور شوسلسٹ نہیں کہا، مسلمان لکھا ہے اور فیض ایسے مسلمان تھے جن کو ان کی زندگی میں اسلام مخالف کہا گیا۔ یہ جان‌کر شاید اچھا لگے کہ فیض کو اسلام مخالف کہنے والے اتنے ہی مسلمان تھے جتنا ان کو کوئی ہندو مخالف کہنے والا ہندو ہو سکتا ہے۔

دراصل جو لوگ ان کو ہندو مخالف کہہ رہے ہیں، وہ ایشور کی عبادت کرنے والے بت پرست  نہیں، سیاست کو پوجنے والے  بت پرست  ہیں۔ داغ نےکہا تھا؛

 زمانہ بتوں پر فدا ہو رہا ہے

خدا کی خدائی میں کیا ہو رہا ہے

بت یوں تو اردو شاعری میں محبوب کو کہا گیا ہے، لیکن یہاں فیض نے ان گونگے، بہرےاور اندھے سیاسی رہنماؤں کو بت کہا ہے جو اقتدار کی سنک میں عوام پر ظلم کرتےہیں۔ یہ بت نہ تو اردو شاعری والی محبوبہ ہے اور نہ ہی ہندوؤں کے عقیدہ میں دخل دیتے ہوئے کسی بھگوان یا ایشور کی مورتی کا تذکرہ۔

اگر آئی آئی ٹی کے شکایت کرنے والے فیکلٹی ممبر کی طرح لفظ ،علامت یا استعارہ کو لغت کے حساب سے پڑھنے کی کوشش کی جائے، تو فیض کیا پوری اردوشاعری صرف اس لئے ہندو مخالف ہو جائے‌گی کہ اس میں کافر، پرستش، صنم، بتکدے جیسےلفظوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ حالانکہ اسی وقت یہ شاعری اسلام مخالف بھی ہوجائے‌گی۔

یوں تو ادب کی تھوڑی سی بھی سمجھ رکھنے والوں کے لئے فیض کی اس نظم کو تصریح  کی چنداں  ضرورت نہیں ہے۔ اس کے باوجود نظم کو کچھ حصوں میں توڑ‌کردیکھ لیتے ہیں کہ نظم کیا کہنا چاہتی ہے۔ پہلا حصہ ملاحظہ کیجئے؛’ہم دیکھیں‌گے‘

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں‌گے

وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے

جو لوحِ ازل میں لکھا ہے

یہاں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس نظم کی فرہنگ اور بہت حد تک اس کا ٹون-آئیڈیا فیض کا اپنا یا طبع زاد خیال نہیں ہے۔ انہوں نے بہت کچھ قرآن سے لیا ہے۔ اس کے باوجود یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ صرف ترجمہ ہے۔دراصل مذکورہ نظم ان کے شعری مجموعہ مرے دل مرے مسافرمیں و یبقیٰ وجہ ربک کے عنوان سے شامل  ہے، یہی نظم عوام میں ’’ہم دیکھیں‌گے‘‘ کے عنوان سے رائج ہوچکی ہے۔نظم کا عنوان قرآن کی سورت  رحمٰن سے لیا گیا ہےاورنظم کے مندرجات بھی قرآن میں مذکور قیامت کے مناظر سے ماخوز ہیں۔

ان کی اس نظم پرجنوری 1979درج ہے اور عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ نظم اس وقت لکھی تھی جب وہ امریکہ میں تھے۔ بتا یا جاتا ہے کہ ان دنوں پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کا مارشل لا نافذتھا اور جلد ہی  ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی جانے والی تھی۔

شعری مجموعہ مرے دل مرے مسافر سے مقتبس

شعری مجموعہ مرے دل مرے مسافر سے مقتبس

دراصل فیض نے ہم عصر سماج اور سیاست کو دیکھتے ہوئے تمام الفاظ اور علامتوں کو ایک نئے معنی میں ڈھال دیا اور یہ سب انہوں نے شعوری طورپر کیا۔ اس لئے یہ نظم عوامی شعور کا بھی حصہ بن گیا۔مثلاً’وعدہ ‘ اور ‘ لوحِ ازل ‘ جیسی خالص مذہبی اصطلاح بھی اس اقتدار کے خلاف عوام کی آواز بن گئی ہیں جس میں عوام کا حصہ نہیں ہے۔ فیض خود مانتے رہے کہ لوحِ ازل پر لکھا یعنی اللہ یا ایشور کی خواہش بھی یہی ہے کہ اقتدار وہی ہے جس میں عوام شامل ہوں اور یہ انقلاب آکر رہے‌گا۔

صاف لفظوں میں کہیں تو اس میں تاناشاہی کے خلاف جمہوریت کی جیت کا یقین دلایا جا رہا ہے۔

یہ جاننا دلچسپ ہے کہ ،ایک بار جب فیض سے انقلاب کے مذہبی ہونے کو لےکر سوال کیا گیا تو ان کا دو ٹوک جواب تھا،

انقلاب اسلامی اور غیراسلامی نہیں ہوا کرتے۔جب لوگ تخت و تاج کو اُلٹنے اور بادشاہی نظام کو تاراج کرنے کے لئے سڑکوں اورگلیوں میں نکل آئیں تو پھر یہ عوامی انقلاب بن جاتا ہے۔

 اس طرح دیکھیے تو یہ عوامی انقلاب کا ترانہ ہے۔ نظم کااگلا حصہ ملاحظہ کریں؛

جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں

روئی کی طرح اڑ جائیں‌گے

ہم محکوموں کے پاؤں تلے

جب دھرتی دھڑ-دھڑ دھڑکے‌گی

اور اہلِ حَکم کے سراوپرجب بجلی کڑ-کڑ کڑکے‌گی

اس حصے میں فیض نے صاف طور پر تاناشاہی کے ظلم و ستم کوعوامی انقلاب کے سامنے روئی کی طرح اڑ جانے کی بات ایک خاص ٹون میں کہی ہے، جوقرآن سے لیا گیا ہے۔اسی طرح نظم کے اگلے حصے میں فیض نے مذہبی اصطلاحات کا خوب سہارا لیا ہے۔ مثلاًارضِ خدا، کعبہ، اہلِ صفا، مردودِحرم۔

جب ارضِ خدا کے کعبے سے

سب بت اٹھوائے جائیں‌گے

ہم اہلِ صفا مردودِ حرم

مسند پہ بٹھائے جائیں‌گے

سب تاج اچھالے جائیں‌گے

سب تخت گرائے جائیں‌گے

فیض جس ارضِ خدا یعنی خدا کی زمین پر کعبے کی بات کر رہےہیں وہ تو لغوی معنی اور جغرافیہ کے مطابق عرب میں ہے۔ اگر اس تناظر میں بھی کعبےکی بات کی جائے تو تاریخ کی اپنی گواہی یہ ہے کہ اس کعبہ سے پیغمبر ابراہیم کے ہی وقت میں’ بت’ ہٹا دئے گئے تھے۔ پھر فیض کس کعبے سے بت اٹھوانے کی بات کر رہے ہیں؟ادب کے قارئین سمجھ سکتے ہیں کہ جس طرح شاعر اپنی شاعری میں دیومالا کا استعمال کرتے ہوئے عصر ی تناظر میں اپنی بات کہتا ہے ویسے ہی وہ اسلامی اصطلاحات(تلمیح)کا استعمال کرکے بھی ہم عصر دنیا کی بات کرتا ہے۔

محسن زیدی کے ساتھ فیض(فوٹو : وکی میڈیا کامنس)

محسن زیدی کے ساتھ فیض(فوٹو : وکی میڈیا کامنس)

یہاں بھی فیض کسی عرب دنیا اور اس کے کعبے کی بات نہیں کر رہے بلکہ ان کے لئے خدا کی زمین اور اس کا کعبہ وہ ہے جس پر ہماری گُونگی، بہری اور اندھی سیاست نے قبضہ کرکے جمہوریت کی قدروں کو پامال کر دیا ہے۔اسی سیاسی بت کو اٹھوانے کی بات کرتے ہوئے فیض عوام کواہلِ صفا مردودِحرم یعنی نیک اور معصوم عوام، جس کو اقتدار نے خارج دیا ہے جیسےاوصاف کے ساتھ یاد کر رہے ہیں۔ اور بتا رہے ہیں یہی عوام تاناشاہی کے تاج کو اچھالے‌گی اور حکومت کرے‌گی۔

اب اگر اللہ والے حصے پر بات کریں تو یہاں بھی کسی مذہب کی حمایت یا مخالفت کی کوئی آواز نہیں ہے، بلکہ فیض نے یہاں’اللہ ‘ کو اس سچائی اور ایشور کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے، جس کو مٹایا نہیں جا سکتا۔

بس ’ نام رہے‌گا اللہ کا‘

جو غائب بھی ہے حاضر بھی

جو منظر بھی ہے ناظر بھی

اٹھےگا اناالحق کا نعرہ

جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

اور راج کرے‌گی خلقِ خدا

جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

سچائی ہر حال میں موجود ہوتی ہے خواہ وہ نظر آئے نہ آئے۔اور اس سچائی کا یقین دلانے کے لئے فیض نے ‘ اناالحق ‘کی بات کی ہے، اور شاید آپ واقف ہی ہو کہ اس نعرہ کو اپنے وقت کے صوفی منصور حلاج نے بلند کیا تھاجس کی وجہ سے ان کو پھانسی دی گئی تھی۔یاد رکھنے والی بات ہے کہ منصور نے اس اقتدار کے خلاف یہ نعرہ دیا تھا جس نے خود کو خدا کا نائب کہہ‌کر عوام پر اپنی خدائی چلا رکھی تھی۔

ایسے میں ایک غریب دھنیا یا جلاہے کے بیٹے کا ‘ اناالحق’ کہنا ہی تاناشاہی کے خلاف عوام کی حکومت کا اعلان تھا۔اس نعرہ کو کچھ لوگ ہندی فلسفہ(अहं ब्रह्मास्मि)کے معنی میں بھی پیش کرتے ہیں حالاں کہ اس کا لغوی معنی ہے میں حق  ہوں۔میں اور تم کی تمیز مٹا دینے والی اس نظم کی صحیح تصویرآپ ہر اس مظاہرہ میں دیکھ سکتے ہیں، جہاں لوگوں کو ان کے کپڑوں سے نہیں پہچانا جاسکتا۔

آپ ان کو صرف عوام کہہ سکتے ہیں ہندو اور مسلمان نہیں،جن کو ڈرانے کے لئے اقتدار کچھ بھی کر سکتی ہے اور کر رہی ہے۔ اور فیض جیسے شاعرحکومت کی اسی جابرانہ پالیسی کے مخالف ہیں۔تو صرف اس بنیاد پر کہ کچھ الفاظ کے معانی کو لےکر آپ کی سوچ صاف نہیں ہے اس کو ہندو مخالف یا کچھ اور کہہ دیا جائے بہت ہی مضحکہ خیز ہے۔اور فیض کے لفظوں میں کہیں تو؛

 وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا

وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

اس مضمون کو ہندی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔

Next Article

بہار: سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو آدھار، ووٹر آئی ڈی اور راشن کارڈ قبول کرنے کا مشورہ دیا

سپریم کورٹ نے بہار میں آئندہ اسمبلی انتخابات سے قبل ووٹر لسٹ رویژن کے عمل کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی سماعت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو آدھار کارڈ، ووٹر آئی ڈی اور راشن کارڈ جیسے دستاویزوں کو قبول کرنے پر غور کرنے کو کہا ہے۔

سپریم کورٹ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات (10 جولائی) کو الیکشن کمیشن کو بہار میں ووٹر لسٹ رویژن (ایس آئی آر)کے دوران آدھار کارڈ، ووٹر آئی ڈی اور راشن کارڈ جیسے دستاویزوں کو قبول کرنے پر غور کرنے کوکہا ہے ۔

سپریم کورٹ نے بہار میں آئندہ اسمبلی انتخابات سے قبل جاری ایس آئی آر کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی سماعت کے دوران یہ بات کہی۔ سماعت کے دوران الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ آدھار کارڈ شہریت کا ثبوت نہیں ہے۔

لائیو لا کے مطابق ، عدالت نے کہا، ‘ہماری پہلی رائے یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو آدھار کارڈ، الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ ووٹر آئی ڈی (جس میں فوٹو ہو) اور راشن کارڈ پر بھی غور کرنا چاہیے، کیونکہ دستاویزوں کی فہرست حتمی نہیں ہے۔’

تاہم، عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ ان دستاویزوں کے باوجود کسی  نام کو شامل یا مسترد کرنے کا حتمی اختیار الیکشن کمیشن کے پاس  ہی رہے گا۔

اس معاملے میں اب تک 10 سے زیادہ عرضیاں دائر کی گئی ہیں۔ ان میں، ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) کلیدی درخواست گزار ہے۔

بقیہ درخواستیں اپوزیشن لیڈروں نے دائر کی ہیں، جن میں آر جے ڈی ایم پی منوج جھا، ترنمول ایم پی مہوا موئترا، کانگریس لیڈر کے سی وینوگوپال، این سی پی (شرد پوار دھڑے) کی سپریا سُلے، سی پی آئی لیڈر ڈی راجہ، ایس پی لیڈر ہریندر سنگھ ملک، شیو سینا (ادھو ٹھاکرے دھڑے) کے اروند ڈی ساونت ، جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے سرفراز احمد، سی پی آئی (ایم ایل) رہنما بھٹاچاریہ شامل ہیں۔

عدالت نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ درخواست گزاروں کی طرف سے اٹھائے گئے سوال کا تعلق ‘ہندوستانی جمہوریت کی بنیادی روح، یعنی ووٹ کے حق سے ہے۔’

عدالت نے تین اہم نکات بیان کیے؛

کیا الیکشن کمیشن کے پاس اس عمل (ایس آئی آر)کو شروع کرنے کا اختیار ہے؟

اس اختیارکا استعمال کیسے اور کس عمل کے ذریعے کیا جا رہا ہے؟

یہ عمل ایسے وقت میں کیوں شروع کیا گیا جب چند ماہ (نومبر) میں بہار کے انتخابات ہونے والے ہیں؟

جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس جوائےمالیہ باگچی کی بنچ نے الیکشن کمیشن سے کہا ہے کہ وہ 21 جولائی تک اپنا جواب داخل کرے۔ کیس کی اگلی سماعت 28 جولائی کو ہوگی۔

Next Article

غیر مراعات یافتہ طبقے کے تقریباً 60 فیصد طلبا کی نیشنل اوورسیز اسکالرشپ روکی گئی، حکومت نے کہا – فنڈ نہیں

سماجی انصاف اور تفویض اختیارات کی وزارت نے تعلیمی سال 2025-26 کے لیے نیشنل اوورسیز اسکالرشپ کے لیےمنتخب 106 امیدواروں میں سے صرف 40 طلبہ کو پروویزنل اسکالرشپ لیٹر دیے ہیں۔ وزارت کا کہنا ہے کہ باقی امیدواروں کے لیے ‘فنڈز کی دستیابی کے مطابق ‘سرٹیفکیٹ جاری کیے جائیں گے۔

علامتی تصویر: یونیورسٹی لائبریری میں طلبہ۔تصویر بہ شکریہ فلکر

نئی دہلی: سماجی انصاف اور تفویض اختیارات کی مرکزی وزارت نے آئندہ تعلیمی سال 2025-26 کے لیے نیشنل اوورسیز اسکالرشپ (این او ایس) کے لیے منتخب کیے گئے 106 امیدواروں میں سے نصف سے کم یا صرف 40 طلبہ کو پروویزنل اسکالرشپ لیٹر فراہم کیے ہیں ۔

ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، وزارت نے کہا ہے کہ باقی 66 امیدواروں کو ‘فنڈکی دستیابی کے مطابق’ اسکالرشپ سرٹیفکیٹ جاری کیے جا سکتے ہیں۔

اس حوالے سے وزارت کا کہنا ہے کہ اسے کابینہ کمیٹی برائے اقتصادی امور سے منظوری نہیں ملی۔ اس کابینہ کمیٹی کی صدارت وزیر اعظم نریندر مودی کے پاس ہے۔

مودی حکومت کی طرف سے یکم جولائی کو کیے گئے اعلان کا حوالہ دیتے ہوئے اخبار نے کہا کہ’ منتخب فہرست میں باقی امیدواروں (سیریل نمبر 41 سے 106) کو پروویزنل اسکالرشپ لیٹر  ‘فنڈز کی دستیابی سے مشروط وقت پر جاری کیے جا سکتے ہیں۔’

معلوم ہو کہ این او ایس پروگرام 1954-55 میں شروع کیا گیا تھا۔ یہ درج فہرست ذات (ایس سی)، ڈینوٹیفائیڈ خانہ بدوش قبیلہ(ڈی این ٹی)، نیم خانہ بدوش قبیلہ، بے زمین زرعی مزدور یا روایتی کاریگر زمروں کے طلبہ کو مالی امداد فراہم کرتا ہے، جن کی خاندانی آمدنی 8 لاکھ روپے سالانہ سے کم ہے۔

عام طور پر، اس اسکیم کے تحت، تمام منتخب طلبہ کو پروویزنل اسکالرشپ کے لیٹرملتے ہیں، لیکن اس سال وزارت نے فنڈز کی دستیابی کے لحاظ سے مرحلہ وار خطوط بھیجنے کی تجویز دی ہے۔

اخبارکی رپورٹ کے مطابق، وزارت کے اس اقدام نے ‘طلبہ کو الجھن میں ڈال دیا ہے۔’ تاہم، وزارت نے فنڈز کی کمی کے معاملے کو کابینہ کمیٹی کو بھیج دیا ہے۔

اس معاملے کو لے کر وزارت کے ایک اہلکار نے اخبار کو بتایا، ‘کابینہ کمیٹی برائے اقتصادی امور کی طرف سے ان اسکالرشپ اسکیموں کے لیے مختص فنڈز کی عدم منظوری ایک مسئلہ ہے۔ ہمارے پاس پیسہ ہے، لیکن ہمیں اسے دینے کے لیے اوپر سے گرین سگنل کی بھی ضرورت ہے۔’

اسکالرشپ کا بحران پہلی بار نہیں

قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ (ایم این ایف) میں بھی اسی طرح کی بے قاعدگیوں کی اطلاع ملی تھی۔ جنوری 2025 سے 1400 سے زیادہ پی ایچ ڈی سکالرز کو اسکالرشپ کی ادائیگی میں رکاوٹ کا سامنا  کرنا پڑ رہاہے۔

دی وائر نے جون میں بتایا تھا کہ ان میں سے زیادہ تر اسکالروں کو دسمبر 2024 سے کم از کم مئی 2025 تک وظیفہ نہیں ملا ہے۔ کچھ اسکالروں کو اس مدت سے پہلے بھی وظیفہ نہیں ملا تھا۔

وزارت اقلیتی امور کے زیر انتظام مولانا آزاد نیشنل فیلو شپ ہندوستان میں چھ نوٹیفائیڈ اقلیتی برادریوں – مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں، بدھ متوں، جینوں اور پارسیوں سے تعلق رکھنے والے اسکالروں کو مالی مدد فراہم کرتی ہے۔

واضح ہو کہ جون 2024 کے لیے شیڈول کاسٹ کے لیے نیشنل فیلو شپ کے حوالے سے بھی افراتفری پھیلی ہوئی تھی، جس کے لیے فہرست اس سال اپریل میں ہی شائع ہوئی تھی۔

اس سلسلے میں نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی نے ابتدائی طور پر مارچ 2025 میں 865 اسکالروں کی سلیکشن لسٹ جاری کی تھی، لیکن اپریل میں ایک ‘ترمیم شدہ فہرست’ نے اس سلیکشن کو کم کر کے 805 کر دیا اور پہلے منتخب کیے گئے 487 امیدواروں کو ہٹا دیا۔

وزیراعظم کو اپوزیشن کا خط

غورطلب ہے کہ اس معاملے پر لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے 10 جون کو وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھا تھا اور محروم طبقات کے طلباء کے لیے رہائش اور اسکالرشپ پر تشویش ظاہر کی تھی۔

اپنے خط میں انہوں نے لکھا تھا کہ  دلت، شیڈول ٹرائب (ایس ٹی)، انتہائی پسماندہ طبقہ (ای بی سی)، دیگر پسماندہ طبقہ (او بی سی) اور اقلیتی طلبہ کے ہاسٹلوں کی حالت ‘قابل رحم’ ہے۔ اس کے علاوہ ان طلبہ  کے لیے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ  کی فراہمی میں تاخیر ہو رہی ہے،جس کی وجہ سے ان طبقات  کے 90 فیصد طلبہ کے تعلیمی مواقع متاثر ہو رہے ہیں۔

بہار کے معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا تھا کہ اسکالرشپ پورٹل مبینہ طور پر تین سال سے کام نہیں کر رہا ۔ اس لیے 2021-22 تعلیمی سال کے لیے کوئی اسکالرشپ نہیں دی گئی۔

اسکالرشپ سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد میں تیزی سے کمی کے بارے میں لکھتے ہوئے انہوں نے کہا تھا،’اسکالرشپ حاصل کرنے والے دلت طلبہ کی تعداد تقریباً آدھی رہ گئی ہے،جو  مالی سال 23 میں 1.36 لاکھ سے کم ہو کر مالی سال 24 میں 0.69 لاکھ رہ گئی ۔ طلبہ کی شکایت ہے کہ اسکالرشپ کی رقم ذلت آمیز حد تک کم ہے۔’

Next Article

’ضمانت قانون، جیل استثنیٰ‘ کے اصول کو حال کے دنوں میں فراموش کر دیا گیا ہے: سی جے آئی

چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ حال  کےدنوں میں ‘ضمانت قانون ہے اور جیل استثنیٰ’  کے اصول کو فراموش کر  دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) بی آر گوئی نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پرافسوس کا اظہار کیا کہ ‘ضمانت قانون ہے اور جیل استثنیٰ’ کے اصول کو حال کے دنوں میں فراموش کردیا گیا ہے۔

حال ہی میں آئی  خبر کے مطابق ، سی جے آئی گوئی نے مانا کہ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران عدالتی فیصلوں میں اس معیار کو شامل کیا گیا ہے، لیکن حالیہ برسوں میں اس کونیک نیتی سے لاگو نہیں کیا گیا ہے۔

معلوم ہو کہ چیف جسٹس نے یہ باتیں اتوار (6 جولائی) کو کوچی میں جسٹس وی آر کرشن ائیر میموریل لا لیکچر دیتے ہوئے کہیں۔

اس دوران انہوں نے کہا کہ مختلف مقدمات میں ضمانت دیتے ہوئے انہوں نے خود اس اصول کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے، جس نے ہائی کورٹس اور نچلی عدالتوں کے لیے اسی اصول پر عمل کرنے کی راہ ہموار کی۔

جسٹس گوئی نے کہا، ‘مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ گزشتہ سال، 2024 میں، مجھے پربیر پرکایستھ، منیش سسودیا اور کویتا بنام ای ڈی کے معاملات میں اس قانونی اصول کو دہرانے کا موقع ملا۔’

انہوں نے کہا کہ پسماندہ طبقات کے حقوق کے تحفظ میں جسٹس ائیر کی خدمات بہت عظیم ہیں۔

واضح ہو کہ حالیہ برسوں میں سپریم کورٹ نے زیر سماعت قیدیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کئی احکامات پاس کیے ہیں اور کہا ہے کہ مقدمے کی سماعت میں تاخیر اور طویل قید پی ایم ایل اے اور یو اے پی اےکے تحت سنگین جرائم میں بھی ضمانت دینے کی بنیاد ہے، جبکہ خصوصی قوانین کے تحت ضمانت کی شرائط سخت ہیں۔

عدالت نے منی لانڈرنگ اور غیر قانونی سرگرمیوں کے مقدمات میں ملزمان کی ضمانت کا راستہ بھی کھولا ہے۔

سی جے آئی گوئی نے انڈر ٹرائل قیدیوں کو طویل مدت تک بغیر مقدمہ چلائے جیل میں رکھنے کی جسٹس ائیر کی سخت مخالفت کو بھی یاد کیا۔

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال اگست میں ایک اہم فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ‘ضمانت اصول ہے، جیل استثنیٰ ہے’ کا روایتی خیال نہ صرف آئی پی سی کے جرائم پر لاگو ہونا چاہیے بلکہ ان دیگر جرائم پر بھی لاگو ہونا چاہیے جن کے لیے خصوصی قوانین بنائے گئے ہیں، جیسے کہ یو اے پی اے، اگر اس قانون کے تحت مقرر کردہ شرائط پوری ہوتی ہیں۔

غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے مختلف فیصلوں میں ہائی کورٹس اور نچلی عدالتوں سے ضمانت دینے میں فراخدلی کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی تھی اور کہا تھا کہ اگر ضمانت کا معاملہ بنتا ہے تو سنگین جرائم میں بھی راحت دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔

Next Article

کیا بہار میں ووٹر لسٹ رویژن کو لے کر بی جے پی بیک فٹ پر آ گئی ہے؟

ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق، ووٹر لسٹ میں ترمیم کو لے کر بہار میں بی جے پی بیک فٹ پر آ گئی ہے۔ بی جے پی کے لیے سروے کرنے والی ٹیم کے ایک ممبرنے دی نیو انڈین ایکسپریس کو بتایا، ‘جب ہم لوگوں کو کال کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ وہ بی جے پی سے کیا امید رکھتے ہیں، تو زیادہ تر لوگ ووٹر لسٹ میں ترمیم کو لے کر بی جے پی کے خلاف اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہیں۔

الیکشن کمیشن کی طرف سے اپلوڈ کی گئی ایک تصویر

نئی دہلی: اب تک کی میڈیا میں آ رہی خبریں  اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ بہار اسمبلی انتخابات سے عین قبل ووٹر لسٹ پر نظر ثانی کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ، جو غریبوں اور پسماندہ طبقات کو حق رائے دہی سے محروم کر سکتا ہے اور ان کو ‘غیر ملکی‘ قرار دیا جا سکتا ہے، حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو انتخابی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔

تاہم، اب ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی خود اس معاملے پر بیک فٹ پر آ گئی ہے ۔

دی نیو انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق ، بی جے پی کی اندرونی پری پول سروے ٹیموں کو عوام کے غصے کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ لوگ ووٹر لسٹ سے اپنےنام نکالے جانے کے خدشات کا اظہار کر تے ہوئے  بی جے پی سے ناراض ہیں۔

رپورٹ میں بی جے پی کے لیے سروے کرنے والی ٹیم کے ایک ممبر کے حوالے سے کہا گیا ہے، ‘جب ہم لوگوں کو کال کرتے ہیں اور ان سے پوچھتے ہیں کہ وہ بی جے پی سے کیا امید رکھتے ہیں اور وہ لوگوں کے خوابوں کو پورا کرنے میں بی جے پی کی کس طرح مدد کریں گے، تو زیادہ تر لوگ ووٹر لسٹ میں ترمیم کو لے کر بی جے پی کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کرتے ہیں۔

ٹیم کے ایک اور ممبر نے اخبار کو بتایا، ‘ہم 10 سے جن 6-7لوگوں سے بات کرتے ہیں، وہ کھل کر بی جے پی کے تئیں اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔’

بتادیں کہ بہار میں بی جے پی اور جے ڈی یو کچھ دیگر پارٹیوں کے ساتھ مل کر نتیش کمار کی قیادت میں حکومت چلا رہی ہے۔

رپورٹ میں حاجی پور کے ایک ووٹر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ان کے خاندان کے نام ووٹر لسٹ میں کئی دہائیوں سے درج ہیں لیکن اب ‘بی جے پی کے کہنے پر الیکشن کمیشن جو ووٹر لسٹ میں  ترمیم کروا رہا ہے، اس  میں ہم سے شہریت کا ثبوت مانگا جا رہا ہے۔’

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس نئے قدم کے بعد بی جے پی کے پرانے حامیوں کو بھی پارٹی کے تئیں اپنی وفاداری کے بارے میں دوبارہ سوچنے پر مجبورہونا پڑ رہا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اس عمل کی وجہ سے خود بی جے پی کے بہت سے ووٹر پولنگ بوتھ سے باہر ہو سکتے ہیں۔

بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، ‘یقین کریں یا نہ کریں، لیکن تقریباً 15-20 فیصد بی جے پی اور 10-15 فیصد جے ڈی یو ووٹر اس بار ووٹ نہیں ڈال سکیں گے کیونکہ ان کے پاس ضروری دستاویز نہیں ہیں۔ اگرچہ ان کے پاس آدھار اور ووٹر آئی ڈی ہے، لیکن اس نئی ترمیم میں انہیں قبول نہیں کیا جا رہا ہے۔’

قابل ذکر ہے کہ بدھ (9 جولائی) کو بائیں بازو کی جماعتوں، کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کی قیادت میں اپوزیشن اتحاد نے اس ترمیمی عمل کے خلاف بہار بند کی کال دی تھی۔

Next Article

ترکیہ میں پندرہ جولائی کی اہمیت

پندرہ جولائی 2016 کو ترک فوج کے ایک گروہ نے سویلین حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک منظم مگر ناکام کوشش کی تھی۔یوں اس بغاوت کی ناکامی کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئیں، جن میں کم از کم 40,000 افراد کو حراست میں لیا گیا۔ان میں 10,000 سے زائد فوجی اور 2,745 جج شامل تھے۔

تمام تصویریں، بہ شکریہ: ترک کمیونیکیشن ڈائریکٹوریٹ

ترکیہ کے شہروں خاص طور پر دارالحکومت انقرہ اور عروس البلاد استنبول کی کئی اہم جگہوں پر آ پ کو شیشے کے کیسز میں جلی ہوئی کاریں اور سڑکوں پر گہرے گڑھے نظر آئیں گے۔ یہ 15 جولائی 2016 کی وہ محفوظ نشانیاں ہیں، جب ترک فوج کے ایک گروہ نے سویلین حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک منظم مگر ناکام کوشش کی۔

ترکیہ کی جدید تاریخ میں اس دن کو خاصی اہمیت حاصل ہے اور اس کو جمہوریت اور قومی اتحاد کے دن کے طور پر تزک و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔

 ترکیہ کے جمہوری دور کی تاریخ میں چار بار فوج نے مداخلت کرکے سویلین حکومتوں کو برخاست کیا ہے۔ مگر یہ شاید پہلی بار تھا جب رجب طیب ایردوان کی حکومت نے مداخلت کو ناکام بناکر فوج کو ایک سویلین انتظامیہ کے تابع بناکر ہی دم لیا۔

ترک آئین میں فوج کے کردار کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے بچانے کی ذمہ دار ہے۔فوج نے پہلی مرتبہ 1960 میں اپنے اس اختیار کا استعمال کرکے ایک منتخب وزیر اعظم عدنان مندرس کو بے دخل کرکے ان پر مقدمہ چلا کر ایک سال بعد موت کی سزا دے دی۔دیگر ایسی فوجی مداخلتیں 1971، 1980 اور 1997 میں ہوئیں۔

 سخت گیر کمالسٹ ہونے کی وجہ سے فوج ایک فرض یہ سمجھتی تھی کہ وہ اتاترک کی اصلاحات، خاص طور پر سیکولرازم، اور مغرب کے ساتھ تعاون کی محافظ ہے۔

مگر ترک تجزیہ کاروں کے مطابق کمالسٹ یا سخت گیر فرانسیسی طرز کے سیکولرازم کے نفاذ کاسہرا دراصل اتا ترک کے بجائے عصمت انونو  کے سر جاتا ہے، جوملک کے پہلے وزیر اعظم رہے اور پھر بطور صدر1938 سے 1950 تک برسر اقتدار رہے۔ انہوں نے اپنے نظریہ کو تھوپنے کے لیے مصطفیٰ کمال اتاترک کے نام کا خوب استعمال کیا۔جاتے جاتے مگر ان کا احسان یہ رہا کہ انہوں نے ملک میں کثیر جماعتی انتخابات کو منظوری دے دی۔

معروف سرکردہ ترک صحافی مہمت اوز ترک 15 جولائی  2016کو  دن بھر کا کام کرنے کے بعد انقرہ کے نواح میں اپنے گھر لوٹے تھے۔ وہ ان دنوں ترکیہ کی نیم سرکاری اور سب سے بڑی نیوز ایجنسی انادولوکے غیر ملکی زبانوں کی سروس کے چیف ایڈیٹر تھے۔

ڈنر کے بعد جب انہوں نے ٹی وی آن کیا، تو دیکھا کہ استنبول میں بحیرہ اسود اور بحیرہ روم کو ملانے والی آبنائے باسفورس کے ایک پل پر سے فوجی ٹینک گزر رہے ہیں۔ ان کی چھٹی حس نے ان کو خبردار کیا کہ کچھ بڑا ہونے والا ہے۔

انہوں نے فون کرکے گاڑی منگوائی اور دوبارہ دفتر کی طرف روانہ ہوگئے۔ انقرہ ابھی تک پرسکون تھا۔ویسے بھی استنبول کے برعکس یہ شہر جلدی سو جاتا ہے۔ فوجی بغاوت کی خبر ابھی عام نہیں ہوئی تھی۔ دفتر پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ ایجنسی کے دیگر ذمہ داران بھی کوریڈور میں موجود تھے، تو معلوم ہوا کہ فوجی بغاوت شروع ہو چکی ہے۔

وہ یاد کر رہے تھے 36 برس قبل زمانہ طالبعلمی میں اسی طرح کی ایک فوجی بغاوت کے بعد ان کو انڈر گراونڈ اور پھر ملک چھوڑنا پڑا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ترک یونیورسٹیوں میں بائیں بازو، سخت گیر سیکولر نظام یعنی کمال ازم کے حامیوں اور اسلام پسند اور لبرل جمہوریت کے خواہاں گروپوں میں سخت رسہ کشی ہوتی تھی۔

اوز ترک ان دنوں انقرہ یونیورسٹی کے ایک طالبعلم تھے۔ 1980کی اس فوجی مداخلت کے بعد ان کی زندگی اجیرن بنائی گئی اور ان کو ملک چھوڑ کر تقریباً دس سال تک اپنے احباب و اقارب سے دور کئی ملکوں میں پناہ کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھانی پڑیں۔ ان کا اضطراب واجب تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ چند لمحوں کے بعد جیٹ جہازوں کی پرشور اور دھماکوں کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ معلوم ہوا کہ انٹلی ایجنسی کے صدر دفتر، صدارتی محل، پارلیامنٹ ہاؤس اور شہر کے مرکز پر بمباری ہو رہی ہے۔استنبول میں واقع فاتح سلطان محمد پل اور باسفورس پل بند کر دیے گئے۔فوجی ہیڈکوارٹر میں بعض افراد کو یرغمال بنایا گیا، جن میں چیف آف جنرل اسٹاف حلوصی آقار بھی شامل تھے۔

تقریباً رات 9 بجے باغیوں نے ترک زمینی افواج کے کمانڈر صالح زکی چولاک کو فوجی ہیڈکوارٹر بلایا اور گرفتار کیا۔ترک فضائیہ کے سربراہ عابدین اونال، جو استنبول میں ایک شادی کی تقریب میں شریک تھے، کو وہیں سے اٹھا کر اغوا کیا گیا۔

آقار کو بتایا گیا کہ وہ اس بغاوت کی حمایت کرتے ہوئے جنرل کنعان ایورن کی طرح ملک کا نظم و نسق سنبھال لیں اور انہیں اس موقع پر امریکہ میں موجود د حزمت تحریک کے سربراہ  فتح اللہ گولن سے بھی ٹیلی فون پر بات چیت کرنے کی پیشکش کی گئی الیکن جنرل حلوصی نے اس پیشکش کو ٹھکرادیا اور آئینی حکومت کی حمایت جاری رکھنے کو ترجیح دی۔اس دوران بیلٹ سے ان کا گلا گھونٹنے کی بھی کوشش کی گئی۔انکار پر انہیں آکن جی ایئر بیس منتقل کر دیا گیا۔وہاں دیگر کمانڈروں کو بھی رکھا گیا تھا۔

صدر رجب طیب ایردوان جنوب مغربی ترکی کے شہر مارماریس میں بحیرہ روم کے ساحل پر اپنی فیملی کے ساتھ ایک ہوٹل میں تعطیلات گزار رہے تھے۔رات گئے فضا میں تین فوجی ہیلی کاپٹرنمودا رہوئے اور ہوٹل پر بم برسانے لگے۔ اسی دوران چھاتہ بردار فوج کے  کمانڈودستے بھی ہوٹل کے پاس اترنے لگے۔

مگر ان کو معلوم نہیں تھا کہ محض بیس منٹ قبل ایردوان ایک ہیلی کاپٹر پر دالامان کے ایرپورٹ کی طرف روانہ ہو گئے تھے۔ انہوں نے پائلٹ کو ہیلی کاپٹر کی لائٹس بند کرنے اور نچلی پرواز کرتے ہوئے ریڈار کی پہنچ سے دوررہتے ہوئے  ائیر پورٹ پہنچنے کا حکم دیا۔ اس ہوٹل کے پاس اسپیشل فورسز اور باغی فوجیوں میں جھڑ پ بھی ہوئی۔

اوز ترک کے مطابق فرار سے قبل اسی قبل اسی ہوٹل کے صحن میں ایردوان نے صحافیوں کے ایک گروپ سے خطاب کرتے ہوئے اس فوجی بغاوت کی مذمت کی اور عوام کو سڑکوں پر آنے مزاحمت کرنے کی ترغیب دی۔ مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ نشر نہیں ہو پائی۔

لیکن جب وہ تقریباً سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے دالامان کے ایرپورٹ پہنچ کر ایک پرائیوٹ جیٹ میں سوار ہوئے، تو رات 12  بجکر 23 منٹ پر انہوں نے سی این این ترک چینل سے رابطہ کیا، جس نے براہ راست ان کا بیان اور اپیل نشر کی۔ اس کے نشر ہوتے ہی عوام سڑکوں پر امنڈ پڑے۔

پارلیامنٹ اسپیکر نے اسی وقت ہنگامی اجلاس طلب کرکے سبھی ارکین پارلیامنٹ کو ایوان میں پہنچنے کی ہدایت دی۔ٹینکوں نے ترک پارلیامان کے قریب فائرنگ کی اور عمارت کو فضائی حملے میں بھی نشانہ بنایا گیا۔ انقرہ کے مئیر ملیح گوکچیک نے میونسپلٹی کے تمام ٹرکوں، جن میں کچرا اٹھانے والے بھاری بھرکم ٹرک بھی تھے کے ڈرائیوروں کو ہدایت دی کہ ان کو فوجی ہیڈکوارٹر اور بیرکوں کے آس پاس کھڑا کردیں، تاکہ فوجی نقل و حمل میں رکاوٹ ڈالی جاسکے۔ ان کا یہ انوکھا پلان خاصا کار گر ثابت ہوا۔باغیوں کی رفتار سست ہوگئی۔

رات ایک بجے کے آس پاس ایردوان نے سی این این ترک چینل کو فون پر تفصیلی انٹرویو دیا اور عوام سے اپیل کی کہ کرفیو کی پرواہ کیے بغیر سڑکوں پر اوراستنبول کے اتا ترک ایئر پورٹ پر جمع ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ و ہ جلد ہی استنبول ایر پورٹ پہنچ رہے ہیں۔

ایردوان کا طیارہ دالامان ایئرپورٹ سے رات 11 بج کر 47 منٹ پر روانہ ہوا تھا، اور صبح 2 بج کر 50 منٹ پر اتاترک ایئرپورٹ پر اترا۔بتایا جاتا ہے کہ راستے میں اس کو مار گرانے کی کوشش ہوئی تھی، مگر پائلٹ نے ریڈیو پر اپنے آپ کو ترک فضائیہ کے طیارہ کے طور پر شناخت کروائی۔ ایک امریکی ویب سائٹ نے اس طیارہ کے روٹ کی اطلاع اپنی ویب سائٹ پر دی تھی۔جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی ادارے کسی سطح پر اس بغاوت میں شریک تھے۔

رات 11 بجے سے نصف شب تک انقرہ کے مضافاتی علاقے گولباشی میں پولیس اسپیشل فورسز کے ہیڈکوارٹر اور پولیس ایئر فورس ہیڈکوارٹر پر ہیلی کاپٹروں سے بمباری کی گئی۔گولباشی میں واقع تُرک سیٹ کے ہیڈکوارٹر پر بھی حملہ کیا گیا۔

رات 11 بج کر 50 منٹ پر فوجیوں نے استنبول کے مرکز تقسیم اسکوائر پر قبضہ کر لیا۔ رات ایک بجے تک  ایئرپورٹ کے اندر ٹینک موجود  تھے اور وہاں گولیوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ان کا ہدف کسی طرح ایردوان کے طیارے کو اترنے نہیں دینا تھا یا فوراً گرفتار کرنا تھا۔ ایروان کے انٹرویو اور عوام کے اژدھام کے باعث اسی دوران فوج نے ایرپورٹ سے انخلاء شروع کردیا۔

مگر انقرہ میں صبح 3 بجے تک فوج نے پارلیامنٹ کا محاصرہ کیا ہوا تھا اور ایک فوجی ہیلی کاپٹر فائرنگ کر رہا تھا۔ صبح 3 بج کر 12 منٹ پر وزیر اعظم بن علی یلدرم نے اعلان کیا کہ حکومت نے حالات پر قابو پا لیا ہے، انقرہ پر نو فلائی زون نافذ کر دیا گیا ہے اور جو فوجی طیارے اب بھی پرواز کریں گے، انہیں مار گرایا جائے گا۔

ادھر استنبول پہنچنے کے بعد ایردوان نے ایئرپورٹ کے اندر سے ہی ٹی وی پر خطاب کیا، اس وقت لاکھوں افراد ایئرپورٹ کے باہر جمع تھے۔تقریباً 6 بج کر 30 منٹ پروہ ایرپورٹ سے باہر آئے اور کہا کہ ترکیہ میں حکومت اب صرف بیلٹ بکس سے ہی تبدیل ہوسکتی ہے اور فوج ریاست کو نہیں چلا سکتی ہے۔ انہوں نے اپنے ایک سابق حلیف اور امریکی ریاست پنسلوانیا میں موجود فتح اللہ گولن اور ان کی حز مت یعنی خدمت تحریک پر غیر ملکی شہہ پر اس بغاوت کا الزام لگایا۔

ادھر  استنبول کے تقسیم اسکوائر اور باسفورس پل پر باغی فوجیوں نے پولیس کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔یہ شاید واحد مثال ہوگی، جب فوج پولیس اور عوام کے سامنے بے بس ہو گئی تھی۔ صبح 5 بج کر 18 منٹ تک حکومت نے اتاترک ایئرپورٹ پر مکمل کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا۔

مگر انقرہ کے فوجی ہیڈ کوارٹر کے اندر صبح  8 بجے تک بھی جھڑپیں ہورہی تھیں۔ وہاں  700  مسلح فوجیوں نے پولیس کے سامنے ہتھیار ڈال دیے، جبکہ 150 مسلح فوجیوں کو پولیس نے محصور کر دیا۔ یہ اب طے تھا کہ بغاوت کا زور ٹوٹ چکا ہے۔

جنرل حلوصی آقار کی غیر موجودگی میں استنبول میں تعینات فرسٹ آرمی کے سربراہ جنرل امید دوندار کو قائم مقام چیف آف اسٹاف مقرر کیا گیا۔چند گھنٹوں کے اندر ہی آکن جی  ایئر بیس پر یرغمال بنائے گئے چیف آف اسٹاف آقار کو بھی حکومت کے حامی دستوں نے بازیاب کرا لیا۔اس پوری رات کے آپریشن میں 350افراد ہلاک اوردوہزارکے قریب زخمی ہوگئے۔ انقرہ میں صدارتی محل کے پاس ان کی یاد میں بنائے گئے مینار اور اس کے ساتھ ڈیموکریسی میوزیم میں ان کے نام درج ہیں۔

انقرہ میں 15 جولائی کی یادگار

بتایا جاتا ہے کہ بغاوت کی ناکامی کی ایک بنیادی وجہ باغیوں کی صفوں میں انتشار اور افراتفری اور ایردوان کو حاصل عوامی حمایت تھی۔ اس کے علاوہ ترکیہ کی قومی انٹلی جنس ایجنسی (ایم آئی ٹی) کے سربراہ حکان فدان (موجودہ وزیر خارجہ) کو بغاوت کی سن گن مل گئی تھی۔

کئی ذرائع کا کہنا ہے کہ چونکہ اس بغاوت کے تانے بانے امریکہ میں بنے گئے تھے، اس لیے روسی خفیہ ایجنسیوں کو اس کی بھنک مل گئی تھی اور انہوں نے اس کو ترک ذرائع کے ساتھ شیئر کر دیا تھا۔

ترک نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی کے ساتھ پچھلے تیس سالوں سے وابستہ معروف صحافی فرقان حمید کے مطابق اس اطلاع کے ملنے کے فوراً بعد فدان نے جنرل آقار کو ٹیلی فون کرتے ہوئے فوری طور پر ملنے کی اطلاع دی اور وقت ضائع کیے بغیر مسلح افواج کے ہیڈ کوارٹر پہنچ گئے۔ وہاں بری فوج کے سربراہ جنرل صالح ذکی چولاک بھی موجود تھے۔جنہوں نے آرمی ہی کے چیف آف اسٹاف، جنرل اِحسان اُیار کو ٹیلی فون کرتے ہوئے آرمی ایویشن اسکول جانے اور حالات کا خود جائزہ لینے کے احکامات جاری کیے۔

 حمید کا کہنا ہے کہ فوج کے جتھے جس نے حکومت کا تختہ الٹنے کا پلان تیار کیا تھا میں صدر کے اے ڈی سی کے علاوہ تینوں افواج کے سربراہان کے اے ڈی سی بھی شامل تھے۔ چیف آف جنرل اسٹاف کے آفس میں انٹلی جنس سروس کے سربراہ  کی آمد نے باغیوں میں خطرے کی گھنٹی بجائی، جس پر انہوں نے رات تین بجے حکومت کا تختہ الٹنے کے پلان میں تبدیلی کرتے ہوئے رات دس بجے  ہی آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس کے علاوہ بغاوت کے اہم منتظمین میں سے ایک جنرل سیمیح ترزی کو آغاز پر ہی ایک سارجنٹ میجر عمر خالص دمیر نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔اس واقعے نے باغیوں کی کمان اور ان کے حوصلے کو شدید نقصان پہنچایا اور ان کی کارروائیاں انتشار کا شکار ہو گئیں۔

ان  دونوں واقعات سے بغاوت بے ربط اور غیر مربوط ہوگئی۔ باغیوں نے جن سپاہیوں کو متحرک کیا تھا، وہ مشن کی اصل حقیقت سے ناواقف تھے اور بعد میں بددل ہو گئے۔ان میں سے کئی نے مظاہرین پر فائرنگ کرنے کے بجائے ہتھیار ڈالنے کو ترجیح دی۔

بتایا جاتا ہے کہ استنبول میں تعینات فرسٹ آرمی کے کمانڈر جنرل امید دوندار نے خود ایردوان کو بغاوت سے خبردار کیا اور قائل کیا  کہ وہ ہوٹل چھوڑ دیں اور ان کو استنبول پہنچانے میں مدد دی۔

خفیہ ایجنسی ایم آئی ٹی نے اپنی اینٹی ایئرکرافٹ توپیں بھی متحرک کر دیں تھیں جن کی موجودگی سے باغی لاعلم تھے، اور یہ باغیوں کے طیاروں اور کمانڈو ٹیموں کے لیے رکاوٹ بن گئیں۔ایک اسپیشل فورسز یونٹ کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے صدر کو قتل یا گرفتار کرنے کے لیے بھیجا گیا، مگر وہ بیس منٹ کی دیری سے وہاں پہنچے، تب تک ایردوان وہاں سے نکل چکے تھے۔

مصنف نونہال سنگھ اپنی کتاب سیزنگ پاور: دی اسٹریٹجک لاجک آف ملٹری کوپس میں تحریر کرتے ہیں کہ اس بغاوت کی ناکامی کی ایک اور بڑی وجہ یہ تھی کہ باغی میڈیا پر کنٹرول حاصل نہ کر سکے اور اپنی مرضی کا بیانیہ ترتیب نہ دے سکے۔

کامیاب بغاوتوں میں لازمی ہوتا ہے کہ باغی ذرائع ابلاغ پر مکمل قبضہ حاصل کریں۔اس طرح چھوٹے باغی گروہ بھی خود کو مکمل طور پر فاتح ظاہر کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور اپنی کامیابی کو ناگزیر بنا کر پیش کرتے ہیں۔یوں وہ عوام، غیر جانبدار اور حتیٰ کہ وفادار فوجیوں کو قائل کر لیتے ہیں کہ وہ باغیوں کی حمایت کریں یا کم از کم مزاحمت نہ کریں۔

اس کے علاوہ باغی ترک سیٹ، جو ترکی کی مرکزی کیبل اور سیٹلائٹ مواصلاتی کمپنی تھی اور ٹیلی ویژن نیٹ ورک اور موبائل فون کے نیٹ ورک کو کنٹڑول نہیں کرسکے۔ اسی وجہ سے ایردوان کو فیس ٹائم کال کے ذریعے عوام سے خطاب کرنے کا موقع ملا اور وہ ٹی وی پر براہ راست بات کر سکے۔

اوز ترک کے مطابق باغی گروپ نے ان کی نیوز ایجنسی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ رات گئے فیکس آیا کہ موجودہ انتظامیہ کو برخاست کیا گیا ہے اور نئی انتظامیہ نیوز ایجنسی کی دیکھ بھال کرے گی۔ مگر نئی انتظامیہ نے اپنی شکل ہی نہیں دکھائی۔ اس لیے انہوں نے اپنے نیوز آپریشن جاری رکھے اور ایردوان اور دیگر لیڈروں کے بیانات جاری کرتے رہے۔

اس بغاوت میں امریکی ادراوں کے تانے بانے بعد میں ظاہر ہونا شروع ہو گئے۔ نومبر 2017 کے اوائل میں ترک حکام نے ہنری جے بارکی کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا، جو وُڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر فار اسکالرز کے مشرقِ وسطیٰ پروگرام کے سابق ڈائریکٹر تھے۔

حکام کا کہنا تھا کہ وہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں، اور  بغاوت کے دوران استنبول میں موجود تھے اور اس کے اہم منصوبہ سازوں میں شامل تھے۔

اسی طرح استنبول کے پراسیکیوٹر آفس نے گراہم ای فلر کے خلاف بھی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا۔جو ایک  امریکی مصنف اور اسلامی انتہا پسندی کے ماہر سیاسی تجزیہ کار ہیں، جنہوں نے سی آئی اے میں طویل مدت تک خدمات انجام دیں اور امریکہ کی نیشنل انٹلی جنس کونسل کے نائب سربراہ کے طور پر بھی کام کیا۔

پراسیکیوٹر آفس کے مطابق فلر نے بغاوت کی منصوبہ بندی میں مدد فراہم کی۔ ترک حکام کا خیال ہے کہ انہوں نے بغاوت سے پہلے اور بعد میں فلر کی ترکیہ میں موجودگی کا سراغ لگایا تھا۔

ویسے تو مغربی ممالک جمہوریت کے فروغ اور شہری آزاد ی کے نام پر خاصی رقوم خرچ کرتی ہیں اور مختلف ممالک میں ان تحریکوں کی پشت پناہی بھی کرتی ہیں، مگر جب یہ جمہوریت ان کے اقدار سے زیادہ ان کے مفاد  پر پوری نہیں اترتی ہے تو جمہوری حکومتوں کو اقتدار سے باہر کرنے کی سازشیں کرکے آمروں کو تخت پر بٹھانے میں مدد کردیتی ہیں۔

 عدنان مندرس نے  پہلی بار کثیر جماعتی انتخابات میں اکثریت حاصل کرکے 1950 سے 1960 تک  ترکیہ کے وزیر اعظم کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔21 مئی 1960 کو تقریباً ایک ہزار افراد، جن میں ملٹری اکیڈمی کے طلبا اور افسران شامل تھے، نے حکومت کے خلاف انقرہ میں خاموش مارچ کیا، جس کی بنا پر ان کو معزول کر دیا گیا اور پھر 17 ستمبر 1961 کو 62برس کی عمر میں ان کو امرالی جزیرے پر پھانسی دی گئی۔اس کا نام بدل کر اب ڈیموکریسی جزیرہ رکھا گیا ہے۔

ان کا قصور تھا کہ اس نے شخصی آزادیاں  بحال کرکے  مساجد اور دینی مدارس دوبارہ کھولنے کے احکامات دئے تھے، قانون سازی کرکے اذان، عربی میں دینے کی اجازت دی تھی۔

سال  1950 کے انتخابات میں عدنان بیگ کی ڈیموکریٹ پارٹی نے نعرہ دیا تھا؛ ”بس! اب عوام کی آواز سنی جائے!“اور اب وہ اس نعرے کوعملی جامہ پہنانے نکلے تھے۔

انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے چند ہفتوں میں ہی تمام سیاسی قیدیوں کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا تھا۔پابندیوں کے خاتمے کے نتیجے میں ایک ایسا آزاد پریس وجود میں آگیا تھا، جو ٹائم میگزین کے الفاظ میں”طوروس کی پہاڑیوں سے آنے والی ہوا کی طرح آزاد“ تھا۔ ان سبھی اقدامات کو سخت گیر سیکولرازم کے لیے انتہائی خطرہ قرار دیا گیا۔

اسی طرح ہمسایہ ملک ایران میں 1953 میں مقبول لیڈر محمد مصدق کی حکومت کو ایک بغاوت کے ذریعے برطرف کر دیا گیا، جس میں برطانیہ کی خفیہ ایجنسی (ایم آئی 6) اور امریکہ کی سی آئی اے کا کردار تھا۔مصدق پر بعد میں غداری کا مقدمہ چلایا گیا، انہیں تین برس کے لیے قید کی سزا دی گئی، اور پھر وہ اپنی وفات تک نظر بند رہے۔انہیں ان کے اپنے گھر میں ہی دفنایا گیا۔

خیر ترکیہ میں اس بغاوت کی ناکامی کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئیں، جن میں کم از کم 40,000 افراد کو حراست میں لیا گیا۔ان میں 10,000 سے زائد فوجی اور 2,745 جج شامل تھے۔15,000 تعلیمی شعبے کے ملازمین کو بھی معطل کر دیا گیا۔21,000 نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ کے لائسنس منسوخ کر دیے گئے کیونکہ حکومت نے دعویٰ کیا کہ وہ گولن کے وفادار تھے۔

تقریباً 160,000 سے زائد افراد کو ان کی نوکریوں سے برخاست کر دیا گیا کیونکہ ان پر گولن سے روابط کا الزام تھا۔اس بغاوت کے بعد بتدریج حکومتی معاملات میں فوجی مداخلت ختم کر دی گئی۔ آئینی عدالت میں جہاں فوجی جنرل کی بھی نشست ہوتی تھی، کو ختم کردیا گیا۔جس کی وجہ سے ترکیہ کی تاریخ میں اتا ترک کے بعد شاید ایردوان ہی واحد ایسے سویلین حکمران رہے ہوں گے، جنہوں نے طاقت کے سبھی اداروں اور مراکز پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا۔