سال 1967 میں سکم کے ناتھو لا میں جھڑپ کے بعد دونوں ملکوں کے بیچ یہ سب سے بڑا تصادم ہے۔ اس وقت ہندوستان کے 80 فوجی ہلاک ہوئے تھے اور 300 سے زیادہ چینی فوجی مارے گئے تھے۔
لداخ کے پاس بالٹال میں ایک عارضی کیمپ کے پاس موجودہندوستانی فوج۔ (فوٹو: رائٹرس)
نئی دہلی: مشرقی لداخ میں سوموار کی رات گلوان گھاٹی میں چین کے ساتھ جھڑپ میں ہندوستانی فوج کے ایک کرنل سمیت 20 فوجی ہلاک ہو گئے۔ پچھلی پانچ دہائی سے بھی زیادہ کے عرصے میں سب سے بڑے فوجی تصادم کی وجہ سے علاقےمیں سرحد پر پہلے سے جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
فوج نے شروع میں منگل کو کہا کہ ایک افسر اور دوفوجی ہلاک ہوئے، لیکن دیر شام بیان میں کہا گیا کہ 17 دیگر فوجی جو بہت زیادہ اونچائی پر صفر سے نیچےدرجہ حرارت میں ڈیوٹی کے دوران شدید طو رپرزخمی ہو گئے تھے، انہوں نے دم توڑ دیا ہے۔ اس سے ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد بڑھ کر 20 ہو گئی ہے۔’
ان میں سے 16 بہار ریجمنٹ کے ایک کمانڈنگ آفیسر بھی تھے۔سرکاری ذرائع نے کہا ہے کہ چینی فوجی بھی اسی تناسب میں ہلاک ہوئے ہیں، حالانکہ چین ہلاکتوں کو لےکر خاموش ہے۔سال1967 میں سکم کے ناتھو لا میں جھڑپ کے بعد دونوں ملکوں کے بیچ یہ سب سے بڑا تصادم ہے۔ اس وقت تصادم میں ہندوستان کے 80 فوجی ہلاک ہوئے تھے اور 300 سے زیادہ چینی فوجی مارے گئے تھے۔ اس علاقے میں دونوں طرف نقصان ایسے وقت میں ہوا ہے، جب سرکار کی توجہ کووڈ 19 کے بحران پرہے۔
فوج کے ایک بیان میں کہا گیا، ‘ہندوستانی اور چینی فوجیوں کے بیچ گلوان علاقے میں جس جگہ پر 15/16 جون کی رات جھڑپ ہوئی، وہاں سے دونوں طرف کے فوجی ہٹ گئے ہیں۔’اس میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ فوجی کس طرح ہلاک ہوئے ہیں اور دونوں فریق کے بیچ کسی طرح کی گولاباری کا بھی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
ہندوستانی فوج کے ذرائع نے بتایا کہ جھڑپ میں ہتھیاروں کا استعمال نہیں کیا گیا اور اکثر جوان چین کی طرف سے کیے گئے پتھراؤ اور لوہے کی چھڑوں کے استعمال کی وجہ سےزخمی ہوئے۔جھڑپ میں زخمی ہوئے افسر کی پہچان 16ویں بہار ریجمنٹ کے کمانڈنگ افسر کرنل سنتوش بابو کے طور پر ہوئی۔ وہ تلنگانہ کے رہنے والے تھے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، نئی دہلی میں وزیر دفاع راجناتھ سنگھ منگل کو دن میں فوج اور ملٹری کے حکام سے معاملے کی جانکاری لیتے رہے اور دیر رات وزیر اعظم نریندر مودی کی رہائش پر ہوئی بیٹھک میں شامل ہوئے۔ اس بیٹھک میں وزیر داخلہ امت شاہ اور وزیر خاارجہ ایس جئے شنکر اور وزیر خزانہ نرملا سیتارمن وغیرہ موجود تھے۔
اس بیٹھک میں مشرقی لداخ کےحالات کا جامع تجزیہ کیا گیا۔یہ سمجھا جا رہا ہے کہ ہندوستان نے 3500 کیلومیٹر کی سرحد(ایل اے سی )پر چین کے جارحانہ رویے سے نپٹنے کے لیے اپنے مضبوط موقف کوجاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔انڈین ایکسپریس کے مطابق، اس سے پہلے راجناتھ سنگھ کے ذریعے فوج کی بیٹھک میں وزیر خارجہ جئے شنکر، چیف ڈیفینس اسٹاف بپن راوت، فوجی چیف جنرل ایم ایم نرونے، بحریہ چیف ایڈمرل کرم بیر سنگھ اورفضائیہ چیف ایئر چیف مارشل آرکے ایس بھدوریا شامل ہوئے تھے۔
فوجی ذرائع نے بتایا کہ مشرقی لداخ میں چینی فضائیہ کی بڑی سرگرمیاں دیکھی گئی ہے۔ دونوں ملکوں کی فوج نے جھڑپ کی جگہ پر میجر جنرل سطح کا مذاکرہ کیا ہے۔وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ مشرقی لداخ میں دونوں ملکوں کے بیچ پرتشدد جھڑپ، علاقےمیں ‘پہلے کے حالات کو یک طرفہ طریقے سے بدلنے کے چینی فریق کی کوشش’ کی وجہ سے ہوئی۔
چین کی سرکاری میڈیا نے منگل کو چینی فوج کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ گلوان گھاٹی پر اس کی ‘ہمیشہ’ خود مختاری رہی ہے اور الزام لگایا کہ ہندوستانی فوج نے ‘جان بوجھ کر اکسانے والے حملے کیے’ جس کی وجہ سے ‘شدید تصادم ہوا اور فوجی ہلاک ہوئے۔’انڈین ایکسپریس نے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ دونوں ملکوں کی فوج کے درمیان پرتشدد جھڑپ 15 جون کی رات ایل اے سی اور گلوان اورشیوک ندیوں کےمغرب میں واقع سنگم کے بیچ ہوا۔ علاقے سے پیچھے ہٹنے کو لےکر دونوں فریق کے بیچ پیٹرولنگ پوائنٹ 14 پر بات چیت ہو رہی تھی، جو ایل اےسی، جہاں گلوان ندی کو پار کرتی ہیں، اس کے کافی نزدیک ہے۔
حکام نے بتایا کہ تصادم کو ختم کرنے کو لےکر ہندوستانی اور چینی فوج ایل اےسی اور گلوان اور شیوک ندیوں کے سنگم پر ایک بفرزون یعنی نو مینس لینڈ بنانے پر راضی ہوئے تھے۔ تصادم ختم کرنے کے لیے ہندوستانی فوج کو دونوں ندیوں کے سنگم کے مغرب میں رہنا تھا اور چینی فوج کو ایل اےسی کے مشرق میں ۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، حکام نے بتایا کہ گلوان ندی کے جنوبی طرف بفر زون میں چینی فوجیوں کے ذریعے ایک نئی چوکی بنانے کو لےکر بحث شروع ہوئی۔اسی دوران 16 بہار ریجمنٹ کے کمانڈگ افسر اور ان کے فوجی چینی فوج سے وہ چوکی ہٹانے کے لیے دباؤ دینے لگے، جس کے بعد حالات خراب ہوئے اور تشدد شروع ہوا۔
حکام نے بتایا کہ چینی فوجیوں نے ہندوستانی فوجیوں پر لاٹھی، بیٹ اور بانس وغیرہ سے حملہ کر دیا تو ہندوستانی فوج کو بھی جوابی کارروائی کرنی پڑی۔حکام کے مطابق، لڑائی کے دوران کچھ فوجی یا تو ندی میں گر گئے یا انہیں ڈھکیل دیا گیا۔ کچھ لاشیں ندی سے برآمد کی گئی ہیں، جبکہ کچھ دوسروں کے ساتھ بے رحمی سے مارپیٹ کی گئی تھی۔ کچھ جوانوں کی موت ہائپوتھرمیا(شدیدسردی کی وجہ سےبدن کا درجہ حرارت بہت کم ہو جانا)کی وجہ سے ہو گئی۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، حکام نے بتایا کہ شروعات میں کچھ ہندوستانی فوجیوں کو پہلے قیدی بنا لیا گیا تھا، جنہیں میجر جنرل سطح کی بات چیت کے بعد رہا کیا گیا تھا۔حکام نے بتایا کہ ان میں سے کچھ کوشدید چوٹیں بھی آئی تھیں۔دریں اثناہندوستان نے منگل کو کہا کہ مشرقی لداخ میں ہندوستان اور چین کے بیچ تصادم علاقے میں ‘موجودہ صورتحال کو ایک طرفہ طریقے سے بدلنے کے چینی فریق کی کوشش’کی وجہ سے ہوا۔
وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ پہلےاعلیٰ سطح پر جورضامندی بنی تھی، اگر چین نے سنجیدگی سے اس کی پیروی کی ہوتی تو دونوں فریق کو ہوئے نقصان سے بچا جا سکتا تھا ۔وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ہندوستان اور چین فوجی اور سیاسی ڈائیلاگ کے ذریعے مشرقی لداخ میں سرحدی علاقے میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے چرچہ کر رہے ہیں اورسینئرکمانڈروں کے بیچ چھ جون کو بامعنی بات چیت ہوئی تھی۔
وزارت نے کہا کہ دونوں فریق کشیدگی دور کرنے کی کارروائی کو لےکرراضی ہوئے تھے۔وزارت خارجہ نے کہا، ‘اس کے بعد اعلیٰ سطح پر بنی رضامندی کی بنیاد پر فیصلے کونافذ کرنے کے لیے گروپ کمانڈروں نے سلسلہ وار بیٹھکیں کیں۔ ہمیں امید تھی کہ یہ صحیح ڈھنگ سے ہوگا لیکن چینی فریق گلوان گھاٹی میں ایل اے سی کے بارے میں بنی رضامندی سے الگ چلے گئے۔’
وزارت نے کہا کہ مشرقی لداخ میں ہندوستان اور چین کی فوج کے بیچ تصادم علاقے میں ‘پہلے کی صورتحال کو ایک طرفہ طریقے سے بدلنے کے چینی فریق کی کوشش’ کی وجہ سے ہوا۔وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ شریواستو نے کہا، ‘بارڈر مینجمنٹ پرذمہ دارانہ نظریہ ظاہر کرتے ہوئےہندوستان کا صاف طور پر ماننا ہے کہ ہماری ساری سرگرمیاں ہمیشہ ایل اےسی کے ہندوستانی حصہ کی طرف ہوئی ہیں۔ ہم چین سے بھی ایسی ہی امید کرتے ہیں۔’
شریواستو نے کہا، ‘ہماراپختہ یقین ہے کہ سرحدی علاقے میں امن بنائے رکھنے کی ضرورت ہے اور مذاکرہ کے ذریعے اختلافات دور ہونے چاہیے۔’انہوں نے کہا، ‘اس کے ساتھ ہی، ہم ہندوستان کی خودمختاری اورعلاقائی سالمیت کو یقینی بنانے کے لیے پوری طرح پرعزم ہیں۔’
ملک کی سلامتی اور سالمیت کے لیے ہم ساتھ کھڑے ہیں: سونیا
کانگریس صدر سونیا گاندھی نے لداخ کی گلوان گھاٹی میں چینی فوجیوں کے ساتھ جھڑپ میں 20 ہندوستانی جوانوں کی ہلاکت پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے منگل کو کہا کہ ملک کی سلامتی اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لیے ہم سب ساتھ کھڑے ہیں۔انہوں نے ایک بیان میں کہا، ‘لداخ کی گلوان گھاٹی میں ہماری فوج کے افسروں اور جوانوں کی ہلاکت پر شدید دکھ اور گہرا صدمہ ہوا ہے۔ ان کے حوصلہ اور قربانی کو سلام ہے۔
سونیا نے کہا، ‘ملک کی سلامتی اورعلاقائی سالمیت کےتحفظ میں ہم سب ساتھ کھڑے ہیں۔’
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے تشویش کا اظہار کیا
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے ہندوستان اور چین کے بیچ ایل اے سی پر تشدد اور موت کی خبروں پر تشویش کا اظہار کیا اور دونوں ملکوں سے اپیل کی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ تحمل سے کام لیں۔سکریٹری جنرل کے ترجمان نے منگل کو یہ جانکاری دی۔انہوں نے کہا، ‘ہندوستان اور چین کے بیچ ایل اے سی پر تشدد اور موت کی خبروں پر ہم تشویش کا اظہار کرتے ہیں اور دونوں ملکوں سے زیادہ سے زیادہ تحمل سے کام لینے کی اپیل کرتے ہیں۔’
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)