فیس بک کے بی جے پی رہنما کی مسلم مخالف پوسٹ کی ان دیکھی کی رپورٹ پر غور کرے گی پارلیامانی کمیٹی

امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ فیس بک نے ناراضگی کے ڈر سے بی جے پی رہنما کی مسلم مخالف پوسٹ پر کارروائی نہیں کی تھی۔انفارمیشن ٹکنالوجی پر پارلیامنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئر مین ششی تھرور نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے میں فیس بک کی بات سننا چاہیں گے۔

امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ فیس بک نے ناراضگی کے ڈر سے بی جے پی رہنما کی مسلم مخالف پوسٹ پر کارروائی نہیں کی تھی۔انفارمیشن ٹکنالوجی پر پارلیامنٹ  کی اسٹینڈنگ کمیٹی  کے چیئر مین ششی تھرور نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے میں فیس بک کی بات سننا چاہیں گے۔

(السٹریشن: رائٹرس)

(السٹریشن: رائٹرس)

نئی دہلی: انفارمیشن ٹکنالوجی پر پارلیامنٹ  کی اسٹینڈنگ کمیٹی امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کی اس رپورٹ پرغور کرےگی جس میں یہ کہا گیا ہے کہ فیس بک نے ناراضگی کے ڈر سے بی جے پی رہنما کی مسلم مخالف پوسٹ پر کارروائی نہیں کی۔رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں فیس بک کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بی جے پی کے ایک رہنما اور دیگر‘ہندو نیشنلسٹ لوگوں اور گروپوں’کی نفرت بھری پوسٹ کو لےکر ان پر فیس بک کے ہیٹ اسپیچ ضابطہ لگائے جانے کی مخالفت کی تھی۔

پارلیامانی کمیٹی کے چیئرمین اور کانگریس رہنما ششی تھرور نے کہا، ‘کمیٹی ان رپورٹس کے بارے میں ضرور فیس بک سے سننا چاہے گی اور یہ بھی جاننا چاہےگی کی ہندوستان  میں ہیٹ اسپیچ ختم کرنے کے لیے ان کی کیا تجویز ہے۔’

تھرور نےمزیدکہا کہ، ‘ہماری پارلیامانی کمیٹی ‘شہریوں کےحقوق کےتحفظ اورسوشل/آن لائن نیوز میڈیا پلیٹ فارموں کے غلط استعمال  کو روکنے’سے متعلق  اس رپورٹ پر غورکرےگی۔ یہ معاملہ انفارمیشن ٹکنالوجی کے دائرہ اختیار میں ہے اور اس سے پہلے بھی فیس بک کو طلب کیا جا چکا ہے۔’

حالانکہ تھرور کےتبصرے پر بی جے پی ایم پی  اور اس کمیٹی کے ممبر نشی کانت دوبے نے کہا کہ انہی معاملات کو کمیٹی  کے سامنے اٹھایا جا سکتا ہے جو قابل قبول  ہیں اور پارلیامنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی  کے اصولوں  کے مطابق ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان کمیٹیوں کوممبروں کے ذریعے اپنی پارٹی کے رہنماؤں کی‘انا’کی تسکین کے لیے سیاسی پلیٹ فارم نہیں بنانا چاہیے۔

دوبے نے کہا، ‘اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین کے پاس اپنے ممبر کے ساتھ ایجنڈے  پر چرچہ  کے بنا کچھ بھی کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ششی تھرور کو کمیٹی اور اسپیکر کی رضامندی کے بنا اس طرح راہل گاندھی کے ایجنڈہ کی تشہیر نہیں کرنی چاہیے۔’

غورطلب ہے کہ وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں فیس بک کی جنوبی  اور وسط  ایشیاانچارج  کی پالیسی ڈائریکٹرآنکھی داس نے بی جے پی رہنما ٹی راجہ سنگھ کے خلاف فیس بک کے ہیٹ اسپیچ ضابطوں  کے نفاذکی مخالفت کی  تھی کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ اس سے کمپنی کے رشتے  بی جے پی سے خراب ہو سکتے ہیں۔

ٹی راجہ سنگھ تلنگانہ اسمبلی میں بی جے پی کے واحد ایم ایل اے ہیں اور وہ اپنے فرقہ وارانہ بیانات  کے لیے معروف  ہیں۔امریکی اخبار کی اس رپورٹ میں فیس بک کے کچھ سابق  اور کچھ موجودہ  ملازمین  کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ آنکھی داس نے اپنے اسٹاف کو بتایا کہ مودی کے رہنماؤں کی جانب سےضابطوں کی خلاف ورزی پر کارروائی کرنے سے ہندوستان  میں کمپنی کے کاروباری امکانات  کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے بارے میں پوچھے جانے پر فیس بک کے ترجمان نے انڈین ایکسپریس کو بتایا، ‘ہم ہیٹ اسپیچ اورتشدد پھیلانے والے موادپر روک لگاتے ہیں۔ ہم کسی بھی سیاسی پارٹی یا اس سے رشتےکی پراہ کیے بناعالمی سطح  پر ان ضابطوں کونافذکرتے ہیں۔ حالانکہ ہمارا ماننا ہے کہ ہمیں اس سمت  میں اور قدم اٹھانے ہیں، ہم اس سمت میں ترقی  کر رہے ہیں اورغیرجانبداری اور درستگی کو یقینی بنانے کے لیے ہم ریگولر آڈٹ کرواتے ہیں۔’

اس رپورٹ کے بعد سے کانگریس اور بی جے پی کے بیچ الزام تراشیاں  شروع ہو گئی ہیں۔ کانگریس رہنما راہل گاندھی نے رپورٹ کو لےکر بی جے پی اورآر ایس ایس  پر فیس بک اور وہاٹس ایپ کا استعمال کرتے ہوئے رائے دہندگان کو متاثر کرنے کے لیے‘فرضی خبریں’ پھیلانے کاالزام لگایا۔

اس پرشدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے انفارمیشن ٹکنالوجی کے مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نےاپوزیشن پارٹی  کو کیمبرج انالیٹیکاوالےمدعے کی یاد دلانے کی کوشش کی۔پرساد نے ٹوئٹ کیا، ‘جو ہارنے والے لوگ اپنی ہی پارٹی میں لوگوں کو متاثر نہیں کر سکتے، وہ ایسا ماحول بناتے رہتے ہیں کہ پوری دنیا پر بی جے پی اور آر ایس ایس کا کنٹرول ہے۔’

انہوں نے کہا،‘آپ انتخاب سے پہلےاعدادوشمارکو ہتھیار بنانے کے لیے کیمبرج انالیٹیکااور فیس بک کے ساتھ گٹھ جوڑ کرتے ہوئے رنگے ہاتھ پکڑے گئے تھے اور اب ہم سے سوال پوچھنے کی جرأت کر رہے ہیں۔’

اس سے پہلے راہل گاندھی نے رپورٹ کی ایک تصویر ڈالتے ہوئے ٹوئٹ کیا تھا اور بی جے پی اور سنگھ کو نشانہ بنایاتھا۔انہوں نے کہا، ‘بی جے پی اور آر ایس ایس ہندوستان  میں فیس بک اور وہاٹس ایپ پر کنٹرول  کرتے ہیں۔ وہ اس کے ذریعےفرضی خبریں اورنفرت پھیلاتے ہیں اور رائے دہندگان  کو لبھانے کے لیے اس کا استعمال کرتے ہیں۔ آخرکار امریکی میڈیا نے فیس بک کے بارے میں سچ سامنے لا دیا ہے۔’

راہل کے بیانات پر جواب دیتے ہوئے پرساد نے یہ بھی کہا، ‘سچ یہ ہے کہ آج انفارمیشن حاصل کرنے اور اظہار رائے کی آزادی  کوجمہوری شکل دیا گیا ہے۔ اب ان پر آپ کی فیملی کےپیروکاروں  کا قبضہ نہیں رہا ہے اور اس لیےیہ بات آپ کو چبھتی ہے۔’پرساد نے جس کیمبرج انالیٹیکا کا ذکر کیا وہ 2018 میں کانگریس پر لگے الزامات سے متعلق ہیں۔

الزام تھے کہ برٹش کمپنی نے 2019 کے لوک سبھاانتخاب میں رائے دہندگان کو متاثرکرنے کے لیے کانگریس کو فیس بک کے کئی  پوسٹ کاتجزیہ کرنے کی پیشکش کی تھی۔ کانگریس نے الزامات کو خارج کر دیا تھا۔وہیں، کانگریس نے رپورٹ میں لگائے گئے الزامات کی جانچ جوائنٹ پارلیامانی کمیٹی(جے پی سی)سے کرانے کی مانگ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہندوستانی جمہوریت کی بنیاد کے لیے خطرہ  ہیں اور ان کی جانچ کی جانی چاہیے۔

کانگریس ترجمان  اجئے ماکن نے ایک ڈیجیٹل پریس کانفرنس میں ان الزامات میں جےپی سی جانچ کرانے کی مانگ کرتے ہوئے کہا کہ فیس بک نے بی جے پی اراکین پارلیامنٹ کے معاملے میں اپنے ضابطے کی ان دیکھی کی۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)