سول سوسائٹی گروپوں نے مارچ 2017 اور مارچ 2018 کے بیچ میں اتر پردیش میں پولیس انکاؤنٹر کے 17معاملوں کا مطالعہ کیا،جن میں18 لوگوں کی موت ہوئی تھی۔ ان میں سے کسی میں بھی کسی پولیس اہلکار پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ان معاملوں کی جانچ نیشنل ہیو من رائٹس کمیشن نے بھی کی تھی۔ ان میں سے 12 معاملوں میں کمیشن نے پولیس کو کلین چٹ دے دی ہے۔
(فوٹو : یوتھ فار ہیومن رائٹس ڈاکیومینٹیشن)
نئی دہلی:سول سوسائٹی گروپوں کی ایک رپورٹ سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ کس طرح اتر پردیش میں پولیس کی بربریت لگاتار بڑھتی جا رہی ہے اور مبینہ طور پر ‘غیرعدالتی قتل’ہو رہے ہیں، لیکن انتظامیہ اس کو نظر انداز کرتا آ رہا ہے۔ پولیس کومسلسل مناسب جانچ کے بغیر ان کے‘غیرقانونی ’ کاموں کے لیے کارروائی سےبری کیا جا رہا ہے۔
ویسے تو ہندوستان میں اس طرح کےقتل کوئی نئی بات نہیں ہیں، لیکن صوبے کی موجودہ یوگی آدتیہ ناتھ سرکار نے اسے ایک الگ سطح پر پہنچا دیا ہے، جہاں آئے دن پولیس کی بربریت دیکھنے کو ملتی ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ خود وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے قانون کی مبینہ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف پولیس کےتشددکی حوصلہ افزائی کی ہے اور اس کو
ریاستی حکومت کے‘مضبوط لاء اینڈ آرڈر’کے طور پر پیش کیا ہے۔
ایسی صورتحال میں مبینہ غیرعدالتی قتل کے لیے ذمہ دار پولیس عہدیداروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی ہے اور ‘دکھاوے والی جانچ’کرکے معاملے کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا جاتا ہے۔
نیوز رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ مارچ 2017 سے لےکر اب تک صوبے میں پولیس فائرنگ کی 8472 واقعات رونما ہوئے ہیں،جس میں146لوگوں کی موت ہوئی اور 3302 لوگ گولی سے زخمی ہوئے ہیں۔
تین سول سوسائٹی گروپوں یوتھ فار ہیومن رائٹس ڈاکومینٹیشن، سیٹیزنز اگینسٹ ہیٹ اینڈ پیپلز اور پیپلس واچ نے اپنی رپورٹ میں17مبینہ غیرعدالتی قتل کے معاملوں کا مطالعہ کیا ہے، جو کہ مارچ 2017 اور مارچ 2018 کے بیچ میں ہوئے تھے اور ان میں 18 لوگوں کی موت ہوئی تھی۔
ان تمام معاملوں میں جانچ میں بڑی خامیاں اورمقررہ ضابطہ میں گڑبڑیاں پائی گئی ہیں۔
ایکسٹنگوشنگ لاء اینڈ لائف: پولیس کلنگس اینڈ کور اپ ان دی اسٹیٹ آف اتر پردیش،نام کی اس رپورٹ کو این ایچ آرسی سے موصولہ قانونی اورسرکاری دستاویزوں کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔
ان معاملوں میں مبینہ طور پر شامل کسی بھی پولیس اہلکار کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے۔
عالم یہ ہے کہ تمام معاملوں میں متاثرین کے ہی خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی، جس میں آئی پی سی کی دفعہ307(قتل کی کوشش) کو بھی جوڑا گیا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسا اس لیے کیا گیا ہے تاکہ پولیس کے اس دعوے کوتقویت مل سکے کہ‘اپنے دفاع ’میں یہ قتل کیے گئے تھے۔
اس کے علاوہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حراست میں موت کی جانچ کے لیے جو ضابطے قائم کیے گئے ہیں، ان کی ہر سطح پر انتظامیہ نے خلاف ورزی کی ہے۔
جبکہ سپریم کورٹ (پیپلس یونین فار سول لبرٹیز بنام مہاراشٹر اسٹیٹ،2014 معاملے میں)اور این ایچ آرسی دونوں نے مبینہ غیرعدالتی قتل کی جانچ کے لیےہدایات جاری کیے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چونکہ ان ہدایات کی کچھ اصطلاحات مبہم ہونے کی وجہ سےپولیس افسروں اور ایگزیکٹومجسٹریٹوں سے لےکرخود این ایچ آرسی کے افسر کارروائی سے بچ جاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، ان معاملوں میں متاثرین کے خلاف دائر ایف آئی آر میں ایک جیسی کہانی کا ذکر کیا گیا ہے، جو کہ یہ دکھاتا ہے کہ پولیس تشدد کو جائز ٹھہرانے کی باربار کوشش کر رہی ہے۔
ان سب کے بعد اگر کسی معاملے میں جانچ ہوتی بھی ہے تو اسی پولیس تھانے کے افسروں کے ذریعے جانچ کی جاتی ہے،جس کے پولیس اہلکارمتعلقہ قتل کےمعاملے میں شامل ہوتے ہیں۔اس کی وجہ سے ‘غیرجانبدارانہ جانچ’پر یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، دوسرےپولیس تھانےکے ذریعے کی گئی‘غیرجانبدارانہ جانچ’بھی بھروسےمند نہیں پائی گئی ہے، کیونکہ انہوں نے پولیس کے ‘اپنے دفاع’کے دعوے پر آسانی سے یقین کر لیا، باوجود اس کے کہ کئی سوال اٹھانے والے شواہد پیش کیے گئے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا، ‘قتل کے لیےدفاع کی دلیل کو عدالتی ٹرائل کے توسط سے ثابت کرنا ہوتا ہے۔’پولیس کی دلیل کو حتمی سچ نہیں مانا جا سکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان معاملوں میں پولیس کے بیانات میں بھی تضادات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پوسٹ مارٹم رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ متاثرین کے جسم پر گولی کے کئی زخم تھے اور ان کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں، جو کہ یہ دکھاتا ہے کہ انکاؤنٹر‘فرضی’ تھا۔
انہوں نے کہا کہ جوڈیشیل مجسٹریٹ نے بھی پولیس پر سوال نہیں کیا ہے اور جانچ افسروں کی جانب سے سونپی گئی کلوزر رپورٹ کو قبول کر لیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ 16 میں سے 11 معاملے، جس میں کلوزر رپورٹ سونپی گئی تھی، میں مجسٹریٹ نے اپنےفرائض کو پورانہیں کیا۔
سول سوسائٹی گروپوں نے کہا کہ ان معاملوں میں مہلوکین کو ہی ملزم بناکر معاملے کو بند کرنے سے پہلے متاثرین کو نوٹس جاری کرنے کی ضرورت کو ختم کر دیا گیا تھا۔
ان تمام17 معاملوں کی جانچ این ایچ آرسی نے بھی کی تھی۔ ان میں سے 12 معاملوں میں کمیشن نے پولیس کو کلین چٹ دے دی ہے۔ ایک معاملہ یوپی اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن کو منتقل کر دیا گیا تھا اور دو دیگرکی ابھی بھی جانچ کی جا رہی ہے۔ باقی کے ایک معاملے کی موجودہ صورتحال کی جانکاری اس رپورٹ میں شامل نہیں کی جا سکی ہیں۔
ان 17 میں سے صرف ایک معاملے میں این ایچ آرسی نے پولیس کو ملزم ٹھہرایا کہ انہوں نے غیرقانونی طریقے سے کام کیا ہے، لیکن اس میں بھی متاثرہ فیملی کو معاوضہ دینے کا حکم دیتے ہوئے کمیشن نے ملزم پولیس افسروں کے خلاف ایف آئی آر نہیں ہونے کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ این ایچ آرسی نے دوسرے معاملے میں پولیس کے حقائق پر مبنی تضادات اور خامیوں کو نظر انداز کیا۔اس نےطریقہ کار اور قانون کے خلاف ورزیوں پر بھی دھیان نہیں دیا، جہاں متاثرہ پر ایف آئی آر کرنے اور ملزم پولیس والوں پر کیس نہ درج کرنے، پولیس کے ‘اپنے دفاع’کی دلیل پر ہی کیس بند کرنے، جائے وقوع سے شواہد جمع کرنے اور محفوظ کرنے میں خلاف ورزی وغیرہ کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ این ایچ آرسی کی ایک اور ناکامی متاثرین کے اہل خانہ کو ملنے والی دھمکیوں کو نظر انداز کرنے کا فیصلہ ہے۔اہل خانہ اور انسانی حقوق کے محافظوں نے این ایچ آرسی کو خط لکھ کر ان دھمکیوں کے بارے میں بتایا ہے، جو انہیں انصاف پانے کی کوشش میں پولیس اور افسروں سے مل رہے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے، ‘این ایچ آرسی نے متاثرین کو ہراساں کرنے سےمتعلق خطوط کا نہ تو کوئی جواب دیا اور نہ ہی انہیں ریکارڈ میں لیا۔’
رپورٹ کے مطابق، یہ خصوصی طور پر پریشان کن ہے کہ خود این ایچ آرسی، جس نے غیر عدالتی قتل کے معاملوں کی جانچ کیسے کی جانی چاہیے، پر ہدایات تیار کیے ہیں، ہی قوانین کی کھلے طور پر خلاف ورزی کی اجازت دے رہا ہے۔
اس رپورٹ کو لےکر سپریم کورٹ کےسبکدوش جج جسٹس مدن بی لوکر نے کہا کہ اس طرح کی رپورٹ اہم ہیں، کیونکہ یہ ہو رہی ناانصافی کو اجاگر کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘مجھے لگتا ہے کہ عدلیہ تھوڑی مایوس ہوئی ہے۔مثلاً منی پور میں ہم نہیں جانتے کہ سپریم کورٹ کے ذریعے آرڈر جاری کرنے کے باوجود غیر عدالتی قتل کے معاملوں میں، کیا ہوا؟’
انہوں نے سوال اٹھایا،‘یہاں تک کہ این ایچ آرسی اور اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن بھی کچھ نہیں کر رہے ہیں۔ اگر وہ کچھ نہیں کرتے ہیں تو ان اکائیوں کے ہونے کا کیا فائدہ ہے؟’
انہوں نے کہا، ‘پولیس جوابدہی کے لائق کام نہیں کرتے ہیں۔سول سوسائٹی کچھ نہیں کر پا رہی ہے۔ یہیں سے ایسی خبریں اہم ہو جاتی ہیں، جو باعث تشویش ہونے کے باوجود حقائق کو سامنے لاتی ہیں۔’
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)