منی پور کے سابق گورنر گربچن جگت نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ریاست بھر میں پولیس اسٹیشنوں اور پولیس کے اسلحہ خانوں پر حملے کیے گئے ہیں اور ہزاروں بندوقیں اور بڑی مقدار میں گولہ بارود لوٹ لیا گیا ہے۔ جموں کشمیر، پنجاب، دہلی، گجرات کے بدترین دور میں بھی ایسا نہیں ہوا تھا۔
نئی دہلی: منی پور کے سابق گورنر گربچن جگت نے دی ٹریبیون میں شائع اپنے ایک مضمون میں منی پور میں پھیلی بدامنی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ شمال–مشرقی ریاست کی صورتحال پنجاب اور جموں و کشمیر جیسی ریاستوں میں دیکھے گئے تصادم سے بھی بدتر ہے۔
ایک آئی پی ایس افسر کے طور پر جموں و کشمیر اور پنجاب میں کام کرچکے جگت نے لکھا ہے کہ،تمام دلائل کی نفی کرنے والی حقیقت یہ ہے کہ ریاست بھر میں پولیس اسٹیشنوں اور پولیس کے اسلحہ خانے پر حملہ کیا گیا ہے اور ہزاروں بندوقیں اور بھاری مقدار میں گولہ بارود لوٹ لیا گیا ہے۔ جموں کشمیر، پنجاب، دہلی، گجرات کے بدترین دور میں بھی ایسا نہیں ہوا۔
اس کےساتھ ہی انہوں نے کہا ہےکہ چوری ہوئے ہتھیار ریاست کی سیکورٹی فورسز کے لیے ایک چیلنج بنے رہیں گے۔
انہوں نے لکھا کہ منی پور میں زندگی کی پرسکون اور سست رفتار کے باوجود قبائلی آبادی کے تئیں ہمیشہ دشمنی کا احساس گامزن رہا ہے۔
جگت کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں کو واضح طور پر نشان زد کیا گیا تھا اور بڑے پیمانے پر اس کی پیروی کی گئی تھی، لیکن کراس مائگریشن (افراد اور گروہ موجودہ کمیونٹی میں شامل ہونے کے لیےاس کی زبان اور رسم و رواج کو سیکھتے ہیں) آخر کار: ایک غلطی کے طور پر ابھری، جس کے نتیجے میں حالیہ تشدد ہوا۔
انہوں نے ریاست کے لوگوں کے لیے اپنی تشویش کا اظہار کیا، جہاں 140 سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں، بہت سے لوگ زخمی ہوئے ہیں، ہزاروں مکانات اور گاؤں جل چکے ہیں اور اس کے نتیجے میں روزگار کا نقصان ہوا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘اب ان ہزاروں لوگوں کی طرف آتے ہیں، جنہوں نے نہ صرف اپنے خاندان کے افراد بلکہ اپنے گھر، مویشی اور اپنے ذریعہ معاش کو بھی کھو دیا ہے۔ وادی اور پہاڑیوں کے ہزاروں لوگ اپنے گھروں اور گاؤں سے بھاگ گئے ہیں اور پڑوسی ریاستوں یا عارضی پناہ گزین کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ سرحد پار کر کے میانمار بھی گئے ہوں گے۔ تشدد کے پہلے دور سے جو کچھ بھی بچا ہوگا، اب وہ تباہ ہو چکا ہوگا۔
انہوں نے ‘جلد بازی’میں بنائے گئے پناہ گزین کیمپوں کی حالت پر سوال اٹھاتے ہوئے پوچھاکہ کیا ایسی ریاست جو اپنے تھانوں کی حفاظت نہیں کر سکتی، اس سے’اچھے پناہ گاہ ‘ کی توقع کی جاسکتی ہے۔
جگت نے لکھا، میں نہیں جانتا کہ ریاستی انتظامیہ نے کس حد تک نظم و ضبط بحال کیا ہے اور کیا وہ ان کیمپوں میں سرگرمیوں کی نگرانی کرنے کے قابل ہے۔ یہ جنگی بنیادوں پر ہونا چاہیے، جیسے خوراک، رہائش، صفائی، ادویات، ڈاکٹر وغیرہ۔ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور میں امید کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ ریاستی حکومت چلانے والے لوگ اس چیلنج کا مقابلہ کریں۔
سابق گورنر نے جاری تشدد کی وجہ سے بے گھر ہونے والوں کی بازآبادی کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہوئے کہا کہ انہیں کیمپوں میں بند نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ان سے پڑوسی ریاستوں میں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا، ‘انہیں اپنی رہائش گاہ پر واپس جانا پڑے گا، جسے حالات کی وجہ سے انہیں چھوڑنا پڑا۔ بحالی کا یہ کام ہمارے ملک اور منی پور کا امتحان لے گا۔
تاہم، انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ حکومت ماضی میں لوگوں کی بازآبادی میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے جب بھی اور جہاں بھی ایسے سانحات ہوئے ہیں جن کے نتیجے میں لوگ بے گھر ہوئے ہیں، ہم انہیں ان کی اصل بستیوں میں بحال کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ بڑی ریاستوں اور شہروں میں لوگ روزی روٹی کی متبادل جگہیں تلاش کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، حالانکہ انہوں نے جو کچھ کھویا، اس کے برابر کبھی نہیں ملتا۔
جگت پوچھتے ہیں، ‘منی پور ایک چھوٹی ریاست ہے۔ یہاں کے لوگ اپنی وادی اور پہاڑیوں میں رہنے کے عادی ہیں۔ وہ کہاں جائیں گے اور نئی زندگی شروع کرنے کے ذرائع کہاں سے حاصل کریں گے؟’
انہوں نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ بحالی کا ایک جامع منصوبہ تیار کرنے میں مل کر کام کریں، تاکہ منی پور کے لوگوں کے انفرادی اور اجتماعی درد کو دور کیا جا سکے۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔