خصوصی رپورٹ : حال ہی میں کابینہ نے این جی ٹی میں وزارت ماحولیات کے دوسینئر افسروں کو ماہرین کے طور پر ممبر بنانے کی منظوری دی ہے۔ ان کی مدت کارپانچ سال کے بجائے تین سال طےکی گئی ہے۔ ماہرین ماحولیات کا الزام ہے کہ مدت کار کو گھٹاکر مرکزی حکومت این جی ٹی کی خودمختاری کو متاثر کرنا چاہتی ہے۔
نئی دہلی: مرکزی وزارت ماحولیات نے حال ہی میں کابینہ کے ذریعے نیشنل گرین ٹریبونل(این جی ٹی)میں دو ماہرین کی تقرری کے متعلق دستاویز عام کرنے سےمنع کر دیا ہے۔ وزارت نے کہا کہ ایسی جانکاری کا انکشاف کرنے سے ریاست کے اسٹریٹجک مفادات متاثر ہوںگے۔گزشتہ دو ستمبر 2019 کو محکمہ پرسنل اینڈ ٹریننگ(ڈی او پی ٹی)نے ایک حکم جاری کرکےکہا تھا کہ کابینہ کی تقرری کمیٹی نے وزارت ماحولیات کے دو موجودہ افسروں کو این جی ٹی میں ماہر ین کے طو رپرممبربنایا ہے۔ حکم میں کہا گیا کہ ان کی مدت کار’تین سال یا اگلے حکم ‘ تک کے لئے ہوگی۔
حالانکہ نیشنل گرین ٹریبونل ایکٹ، 2010 میں واضح طور پر لکھا ہے کہ این جی ٹی کے چیئر مین، جوڈیشل ممبر اور ماہرین ممبرکی تقرری پانچ سال کے لئےہوگی اور ایک بار تقرر ی کے بعد دوبارہ ان کی اس میں تقرر ی نہیں کی جا سکےگی۔کارکنان ماحولیات کا الزام ہے کہ این جی ٹی میں ممبروں کی مدت کارگھٹاکر مرکزی حکومت اس کی آزادی کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
دی وائر نے وزارت ماحولیات میں آر ٹی آئی درخواست دائر کرکےتقرری سے متعلق دستاویز، اس عہدے کے لئے درخواست کئے لوگوں کے نام اور ان کی مہارت، شارٹ-لسٹ کرنے کے لئے بنائی گئی سرچ کمیٹی یا تقرری کمیٹی کے اجلاس کےمنٹس سمیت کئی دستاویز مانگے تھے۔ حالانکہ وزارت نے تمام نکات کی جانکاری دینےسے منع کر دیا۔ وزارت ماحولیات نے اپنے جواب میں کہا، ‘این جی ٹی میں ممبر کی تقرری کا عمل ابھی چل رہا ہے اس لئے آر ٹی آئی ایکٹ،2005 کی دفعہ 2005 کے تحت یہ جانکاری نہیں دی جا سکتی ہے کیونکہ اس سے ریاست کے اسٹریٹجک مفادات متاثر ہوںگے۔’
حالانکہ کابینہ نے ڈائریکٹر جنرل برائےجنگلات سدھانت داس اورایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل برائےجنگلات (جنگلات تحفظ) سیبل داس گپتا کو این جی ٹی میں ممبر بنانے کی منظوری دے دی ہے۔ صرف اس کو ہندوستان کاگزٹ آف انڈیا میں شائع ہونا یعنی کہ تقرری کو نوٹیفائی کرنا باقی رہ گیا ہے۔آر ٹی آئی قانون کی دفعہ 8 (1) (آئی) کی پہلی شرط میں لکھا ہے کہ فیصلہ لینے کے بعد، جس بنیاد پر فیصلہ لیا گیا ہے اس سے متعلق تمام دستاویز، کابینہ کونسل کے فیصلے اور ان کے اسباب کو عام کیا جانا چاہیے۔ حالانکہ وزارت ماحولیات نے تقرری سے متعلق کوئی جانکاری دینے سے منع کر دیا ہے۔
سابق سینٹرل انفارمیشن کمشنر شری دھر آچاریہ لو نے کہا، ‘ایک بار جب کابینہ نے فیصلہ لے لیا ہے تو اس سے متعلق تمام دستاویز دینا چاہیے۔ ایسا نہ کرنا آر ٹی آئی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ ‘وزارت نے یہ نہیں بتایا کہ کس بنیاد پر کابینہ نے کمیٹی کے ممبروں کی تقرری تین سال کرنے کے لئے منظوری دی ہے، جبکہ این جی ٹی ایکٹ میں پانچ سال کی مدت طے کی گئی ہے۔
اس سے پہلے 2018 میں
ڈاکٹر نگین نندا کی تقرری این جی ٹی میں ممبر کے طور پر کی گئی اور ان کی مدت کارپانچ سال کے لئے طے کی گئی تھی۔ اسی طرح سال 2016 میں ڈاکٹر ایس ایس گربیال کی تقرری کے لئے جاری کئے گئے
حکم میں لکھا ہے کہ ان کو پانچ سال یا 65 سال کی عمرتک، جو بھی پہلے ہو، کے لئے تقرری کی جا رہی ہے۔کارکنان ماحولیات کا کہنا ہے کہ مدت کارد کم کی جاتی ہےتو یہ این جی ٹی کی آزادی کے ساتھ سمجھوتہ کرنے جیسا ہوگا۔
ماحولیاتی وکیل رتوک دتا نے
بار اینڈ بنچ ویب سائٹ میں شائع ایک مضمون میں کہا، ‘حال کی تقرری سے حال میں کی گئی تقرری این جی ٹی کو ایک جوڈیشل باڈی اور ماحولیات پر ایک ماہر باڈی کے طور پر تباہ کر دیںگی۔ ‘اس کے علاوہ حال میں جن دو لوگوں کی تقرری ہوئی ہے،ان کو لےکر مفادات کے ٹکراؤ ہونے کے بھی الزامات ہیں۔ ان میں سے ایک سدھانت داس ڈائریکٹر جنرل برائےجنگلات ہیں، جن کی تقرری ہوئی ہے۔ ڈائریکٹر جنرل برائے جنگلات مشاورتی کمیٹی برائے جنگلات (ایف اے سی) کا صدر ہوتا ہے، جو جنگل کی زمین کو غیر-جنگلاتی کاموں کے لئے استعمال میں لانے پر فیصلہ لیتا ہے۔
ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل برائے جنگلات (جنگلات تحفظ)بھی ایف اے سی کا ممبرہوتا ہے اور دوسرے شخص سیبل داس گپتا کی تقرری اسی عہدے پر کی گئی ہے۔ ایف اے سی کے ذریعے دی گئی جنگلات کی منظوری کے فیصلے کے خلاف معاملوں کی سماعت این جی ٹی میں ہوتی ہے۔ اس طرح جو دو لوگ جنگلات کی منظوری کے فیصلے میں شامل تھے، وہی لوگ اپنے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت کر سکتے ہیں۔ قانون کے مطابق، این جی ٹی میں ممبر کے عہدے پر خصوصی مہارت رکھنےوالوں کی تقرری کی جانی چاہیے۔ حالانکہ پچھلے کچھ سالوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہاس عہدے پر زیادہ تر نوکرشاہوں کی ہی تقرری کی جا رہی ہے۔ زیادہ تر لوگ ہندوستانی جنگلات خدمات (آئی ایف ایس) سے ہیں۔
دتا نے کہا،’جب 2011 میں این جی ٹی بنایا گیا تھا تو اس وقت زیادہ تر ماہر ممبر غیرنوکرشاہ،ماحولیاتی سائنس داں اور پروفیسر تھے۔ حالانکہ 2014 سے آئی ایف ایس کے افسروں کی ہی تقرری کی جا رہی ہے۔ اس کا اثر این جی ٹی کے فیصلوں پر پڑ رہا ہے۔ ‘مودی حکومت کی پچھلی مدت کار میں بھی این جی ٹی کی حالت کافی خراب تھی۔ستمبر 2018 میں دی وائر نے اپنی
ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ این جی ٹی میں تقریباً70 فیصد عہدےخالی پڑے ہیں۔ ٹریبونل کے زونل دفاتر کی صورتحال کافی خراب ہے۔
حالانکہ وزراء نے پہلے کہا تھا کہ وہ این جی ٹی کو یو پی اے حکومت کےمقابلے اور زیادہ سنجیدگی سے لینا چاہتے تھے، لیکن یہ باتیں بیان بازی تک سمٹی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ چنئی، بھوپال، پونے اور کولکاتہ میں چار علاقائی این جی ٹی بنچ اس وقت تقریباًبند پڑے ہوئے ہیں۔