ہندوستان اورجنوب ایشیائی خطے میں تحریک نسواں کی علمبردار رہیں 75 سالہ کملا کا سنیچر کوانتقال ہو گیا۔ وہ صنفی مساوات ،تعلیم ، غریبی کے خاتمے،انسانی حقوق اور جنوبی ایشیا میں امن کے مسئلوں پر 1970 سے مسلسل سرگرم تھیں۔
کملا بھسین۔ (فوٹو بہ شکریہ: Tanveer Shehzad, White Star/Herald)
نئی دہلی:حقوق نسواں کی علمبردار،شاعرہ اورمصنفہ کملا بھسین کاسنیچر کوانتقال ہو گیا۔ وہ 75 سال کی تھیں۔سماجی کارکن کویتا شریواستو نے ٹوئٹر پر بتایا کہ بھسین نے صبح تقریباً تین بجے آخری سانس لی۔
کویتا شریواستو نے ٹوئٹ کیا،‘ہماری پیاری دوست کملا بھسین کا 25 ستمبر کوصبح لگ بھگ تین بجے انتقال ہو گیا۔ یہ ہندوستان اور جنوب ایشیائی خطے میں تحریک نسواں کے لیے ایک بڑا صدمہ ہے۔ ناسازگار ماحول میں بھی انہوں نے زندہ دلی سے زندگی کا لطف اٹھایا۔ کملا آپ ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گی۔’
بھسین صنفی مساوات ،تعلیم ،غربت کے خاتمے ،انسانی حقوق اور جنوبی ایشیا میں امن کےمسائل پر 1970سے مسلسل سرگرم تھیں۔
ان کی پہچان تانیثی قدروں کو زمینی کوششوں سے ملانے والے جنوب ایشیائی نیٹ ورک ‘سنگت’کے بانی کے طور پر بھی ہے، جس کوانہوں نے سال 2002 میں شروع کیا تھا اور جو گاؤں اور آدی واسی کمیونٹی کی محروم خواتین کے لیےکام کرتا ہے۔
بھسین کی پیدائش24 اپریل1946کو موجودہ پاکستان کے منڈی بہاؤالدین ضلع میں ہوا تھا۔ وہ خود کو ‘آدھی رات کی سنتان’کہتی ہیں، جس کا مطلب تقسیم کے آس پاس پیدا ہوئی برصغیر کی نسل سے ہے۔
انہوں نےراجستھان یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی تھی اور مغربی جرمنی کے منسٹر یونیورسٹی سے سوشیالوجی آف ڈیولپمنٹ کی پڑھائی کی۔ 1976-2001 تک انہوں نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے ساتھ کام کیا۔ اس کے بعد انہوں نے خود کو پوری طرح سے ‘سنگت’کے کاموں اور زمینی جدوجہد کے لیےوقف کر دیا۔
بھسین نے پدری نظام اور جینڈر پر خوب لکھا ہے۔ان کی مطبوعہ تخلیقات کا تقریباً30زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے۔
ان کی اہم تصنیفات میں لافنگ میٹرس(2005; بندیا تھاپر کے ساتھ)، ایکسپلورنگ میسکلیونٹی(2004)،بارڈرس اینڈ باؤنڈریز:ویمن ان انڈیاز پارٹیشن(1998،رتو مینن کے ساتھ)، وہاٹ از پیٹریارکی؟(1993) اور فیمنزم اینڈ اٹس رلیوینس ان ساؤتھ ایشیا (1986،نگہت سعیدخان کے ساتھ) شامل ہیں۔
اپنی تحریروں اور سرگرمیوں میں بھسین ایک ایسی نسائی تحریک کا سپنا بنتی ہیں، جو طبقات ، سرحدوں اور دوسرے تمام سماجی اور سیاسی تقسیم کی حدود کو پار کرجائے۔
سال2017 میں دیے ایک انٹرویو میں بھسین نےکہا تھا کہ مردوں کو میں یہ کہنا چاہوں گی کہ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ پدری نظام کس طرح انہیں غیرانسانی بنا رہا ہے۔ مثلاً،پدری نظام انہیں رونے کی اجازت نہیں دیتا۔ انہوں نے اپنی جذباتی ذہانت کھو دی ہے۔ وہ خود اپنے جذبات کو نہیں سمجھ پاتے۔
امریکہ میں ٹیڈ ٹاک ہمیں بتاتے ہیں کہ وہاں لڑکیوں کے مقابلےنابالغ لڑکوں کی خودکشی کی شرح چار گنی ہے، کیونکہ وہ خود کو ہی نہیں سمجھ پاتے ہیں۔
اگر ایک عورت کسی مردسے یہ کہتی ہے کہ وہ اس سے پیار نہیں کرتی تو وہ اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیتا ہے۔ جب اسے لگتا ہے کہ اس کی بیوی نے اسے پیار سے نہیں چوما تو وہ شکایت نہیں کرتا۔
وہ اسے تھپڑ مار دینے کو زیادہ آسان سمجھتا ہے، کیونکہ پدری نظام نے اسے یہی سکھایا ہے۔ ایک مرد جو بس میں کسی عورت کےسینوں کو دبانے میں خوشی محسوس کرتا ہے، اسے ایک نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔ وہ صحت مند نہیں ہے۔
انہوں نے کئی بار مختلف فورمز پرخواتین کے ریپ کو لےکراستعمال ہونے والی اصطلاحات پر بھی سوال اٹھائے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریپ ہوتا ہے ‘تب عزت مرد کی لٹتی ہے عورت کی نہیں۔’
ایک انٹرویو میں انہوں نے پدری نظام اورریپ کے سلسلے میں کہا تھا،
‘کیا آپ کو لگتا ہے کہ عورت کا ریپ کرنےوالا مردانسان ہے؟اسے کہا گیا ہے کہ اسے دوسری کمیونٹی کی عورتوں کا ریپ کرنا ہے کیوں کہ وہ ایک لڑکا ہے، اور وہ ایک بڑے مقصد کے لیے ریپ کر رہا ہے۔ وہ اپنےبدن کو عورتوں کے خلاف ایک ہتھیار میں بدل دیتا ہے۔ کیا وہ ہتھیار تب محبت کا آلہ بن سکتا ہے؟
بنگلہ دیش میں پاکستانی فوج، ویت نام میں امریکی فوج،یا ہندوستان میں ہندو رائٹ ونگ مرد-جب وہ کسی ایسی کمیونٹی کی عورت کا ریپ کرتے ہیں، جس سے وہ نفرت کرتے ہیں، تب وہ اپنا بچہ اسی عورت کےحمل میں ڈال دیتے ہیں، جو ان کی نفرت کا نشانہ بنتی ہیں۔ ان کی نسل کے ساتھ ان کا کیا رشتہ ہے؟
جب لوگ کہتے ہیں کہ کسی کمیونٹی کی عورت کا ریپ ہونے سے اس کمیونٹی کی عزت مٹی میں مل گئی تو میں یہ پوچھتی ہوں کہ آخر وہ اپناوقارکسی عورت کے بدن میں کیوں رکھتے ہیں؟ اس دنیا میں جو کچھ بھی خراب ہے، اس کے پیچھے میں غلبہ حاصل کرنےوالی مردانگی اور زہریلی مردانگی کا ہاتھ دیکھتی ہوں۔
کملا بھسین کےانتقال پر سماجی کارکنوں،بالخصوص خواتین کارکنوں نے اپنے گہرے رنج وغم کا اظہار کیا ہے۔آل انڈیا پروگریسو ویمن ایسوسی ایشن کی سکریٹری کویتا کرشنن نے انہیں یاد کرتے ہوئے ان کی ایک نظم بھی شیئر کی ہے۔
کویتا نے لکھا، ‘ہماری پیاری کملا بھسین کے گزر نے پر حیران اور غمزدہ ہوں۔ امید بانٹنے، اپنے گیتوں اور دوستی میں وہ کتنی فراخدل تھیں۔ ان کے پاس یہ خاص ہنرتھا، سوچ بدلنے کی اور وہ تانیثی ڈسکورس کو اتنی عام زبان میں سمجھاتی تھیں کہ ایک بچہ بھی سمجھ لے۔ ذرابھی گھمنڈ نہیں، ہمیشہ تنقید کو قبول کرنے اور اس کے مطابق ڈھلنے کو تیار رہتی تھیں…الوداع کملا…’
معروف اداکارہ اورسماجی کارکن شبانہ اعظمی نے انہیں یاد کرتے ہوئے لکھا، ‘مجھے ہمیشہ لگتا تھا کہ کملا بھسین کو کوئی ہرا نہیں سکتا اور وہ آخر تک ایسی ہی رہیں… ان کے قول وفعل میں کبھی کوئی تضادنہیں رہا۔ ہم ایکشن-ایڈ کے لوگ اور وہ ہزاروں، جن کی زندگی کو انہوں نے سنوارا، ان کے بنا اور غریب ہو جائیں گے۔ چلیے، ان کی زندگی اور ان کی خدمات کاجشن منائیں۔ ریسٹ ان پیس۔’
مزدور کسان شکتی سنگٹھن (ایم کےایس ایس)کےبانی نکھل دے نےتنظیم اور سماجی کارکن ارونا رائے کی طرف سے لکھا، ‘جاں باز کملا بھسین نے اپنی آخری لڑائی بھی ہنستے ہوئے اور ایک اچھی زندگی کا جشن مناتے ہوئے لڑی۔ ان کی کمی بہت کھلےگی۔ ان کی ہمت، ان کی ہنسی، ان کے گیت اور ان کی حیرت انگیز طاقت ان کی وراثت ہیں۔ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ ہیں، وہ ہم ہزاروں لوگوں کے ساتھ رہیں گی۔’
تاریخ داں ایس عرفان حبیب نے بھی بھسین کے گزر نے پرافسوس کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے لکھا، ‘پیاری دوست اورغیرمعمولی انسان کملا بھسین کےانتقال پر بہت رنج ہوا۔ کل ہی تو ہم ان کی صحت کے بارے میں بات کر رہے تھے لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ اگلے ہی دن چلی جائیں گی۔ آپ بےحد یاد آئیں گی۔’