ایلگارپریشدمعاملےمیں ملزم وکیل سریندرگاڈلنگ نےتلوجہ سینٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ پر ان کی دوائیوں کی سپلائی روکنے کاالزام لگایا ہے۔ بتایا گیا کہ ان دوائیوں کےلیےان کےاہل خانہ نے نچلی عدالت سے اجازت لی تھی،لیکن اب عدالتی احکامات کی بھی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔
ایلگار پریشد معاملے میں ملزمین کے ساتھ ہو رہے غیرانسانی سلوک کےالزامات کے درمیان وکیل سریندر گاڈلنگ نےتلوجہ سینٹرل جیل کےسپرنٹنڈنٹ پر ان کی آیورویدک دوائیوں کی سپلائی روکنے کا الزام لگایا ہے۔
دراصل ان دوائیوں کی اجازت نچلی عدالت نے انہیں دی تھی لیکن الزام ہے کہ عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرکے انہیں دوائیاں مہیا نہیں کرائی جا رہی ہیں۔
ہائپرٹینشن، ذیابطیس،دل کے امراض، خون کی مقدار میں کمی کی وجہ سے بےہوشی اور سروائیکل اسپانڈلائٹس سے جوجھ رہے گاڈلنگ نے تلوجہ جیل کےسپرنٹنڈنٹ یو ٹی پوار کی شکایت کرتے ہوئے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل (اے ڈی جی پی)اتل چندر کلکرنی کو خط لکھا تھا کہ انہیں دوائیاں نہیں مہیا کرائی جا رہی ہیں۔
یہاں تک کہ ملزمین(کارکنوں،ماہرین تعلیم اور وکیلوں)کا بھی دعویٰ ہے کہ انہیں باربار مہاراشٹر جیل انتظامیہ کو اس کے لیے قائل کرنا پڑتا ہے کہ ان کے ساتھ جیل میں انسانی سلوک کیا جائے۔
جیل حکام پانی پینے کےلیےسپرجیسی معمولی چیزوں کے بنیادی حقوق سےمحروم کر رہا ہے، جس کے بعد کارکنوں کو عدالت کا رخ کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ کچھ معاملوں میں محکمہ جیل نے عدالت کے احکامات کی بھی خلاف ورزی کی۔
گاڈلنگ نے 23 نومبر کو لکھے اس خط میں حال کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیٹے کو انہیں دوائیاں دستیاب کرانے کے لیے ناگپور سے ممبئی ٹرائل کورٹ تک کا سفر طے کرنا پڑا لیکن تلوجہ جیل لوٹنے پر انہیں جیل کے گیٹ پر روک لیا گیا اور دوائیوں کو اندر لے جانے کی منظوری نہیں دی گئی۔
گاڈلنگ نے خط میں کہا،‘جیل کی تلاشی کےدوران بابا(جیل اسٹاف)اور جیلر نے آیورویدک دوائیوں پر اعتراض کیا۔ میں نے انہیں چیف میڈیکل افسر(سی ایم او)کے اجازت نامے اور عدالت کے حکم کے بارے میں بتایا لیکن انہوں نے کہا کہ ہم عدالت کے حکم یا سی ایم او کی اجازت کو قبول نہیں کرتے۔ ہم صرف جیل سپرنٹنڈنٹ کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔’
گاڈلنگ کا کہنا ہے کہ دواؤں کو جیل کے گیٹ پر ہی جمع کر لیا گیا اور انہیں آج تک یہ دوائیاں نہیں مل پائی ہیں۔
گاڈلنگ کو ممبئی شفٹ کیےجانے سے پہلے وہ کئی مہینوں تک پونے کی یرودا جیل میں تھے۔اس وقت پوار یرودا جیل کے سپرنٹنڈنٹ تھے۔ وہاں پر بھی کارکنوں نے ان پر زیادتی کرنے کےالزام لگائے ہیں۔
گاڈلنگ نے اس خط میں کہا ہے،‘موجودہ سپرنٹنڈنٹ کی عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرنے کی عادت ہے۔’
پوار پر قبل میں لگے اس طرح کے الزامات کی وجہ سے انہیں 2018 میں خصوصی یواے پی اے عدالت نے وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا تھا۔
گاڈلنگ نے اپنے خط میں اپنی حالت کا ذکر کرتے ہوئے اور سردیوں میں نہانے کے لیے ایک بالٹی گرم پانی تک نہیں ملنے کا ذکر کیا ہے۔ ان کی میڈیکل پوزیشن کی وجہ سے ان کے لیے ٹھنڈے پانی میں نہانا مشکل ہے۔
انہوں نے خط میں کہا ہے کہ وہ لگاتار جیل اسٹاف سے انہیں دوائیاں مہیا کرانے کو کہتے ہیں۔ ان کے وکیل کا کہنا ہے،‘انہیں(گاڈلنگ)جیل میں ہر بار کہا جاتا ہے کہ ہم صرف جیل میں پوار کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔’
گاڈلنگ خط میں کہتے ہیں کہ اس کی وجہ سے ان کی صحت لگاتار خراب ہو رہی ہے۔ انہوں نے خط میں کہا، ’24 نومبر کو وہ ٹوائلٹ میں بےہوش ہو گئے تھے اور اس سے ان کے سر میں چوٹ لگی تھی۔ دوائیاں نہ ملنے اور گرم پانی نہ ہونے سے ان کی زندگی کو خطرہ ہے۔’
دی وائر نے پوار سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ اے ڈی جی پی کلکرنی نے دی وائر کو بتایا کہ وہ اس وقت سفر کر رہے تھے اور انہوں نےگاڈلنگ کے خط کو نہیں دیکھا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘مجھے واپس کام پر لوٹنے میں تین سے چار دن لگیں گے۔ ایک بار واپس لوٹنے پر ہی میں اس شکایتی خط کو دیکھ پاؤں گا۔’
حال کےبرسوں میں محکمہ جیل خصوصی طور پرتلوجہ جیل اسٹاف نے قیدیوں کے حقوق کی پوری طرح سے خلاف ورزی کی ہے۔
ایلگار پریشدمعاملے میں ملزم سب سے بزرگ لوگوں میں سے ایک فادر اسٹین سوامی کو سپر تک مہیا نہیں کرایا گیا تھا اور انہیں اپنے اس بنیادی حق کے لیے عدالت کا رخ کرنا پڑا تھا۔
وہ پارکسنز بیماری سے متاثر تھے اور ایک نارمل کپ سے پانی نہیں پی سکتے تھے۔ بعد میں جب ان کی صحت بگڑی اور وہ کوروناسے متاثر ہوئے تو جیل انتظامیہ نے ان کی مناسب طبی نگہداشت بھی نہیں کی اور آخرکار ایک نجی اسپتال میں انہوں نے دم توڑ دیا۔
اسی طرح معاملے میں ایک دوسرے ملزم سینئر صحافی اور کارکن گوتم نولکھا کو جیل میں مناسب چشمہ تک مہیا نہیں کروایا گیا۔ یہ بنیادی سہولیات ہیں جو بنا کسی جھنجھٹ کے دستیاب کرائی جانی چاہیے لیکن جیل انتظامیہ نے ہر بار ان میں پریشانیاں کھڑی کیں۔
جب یہ معاملہ بامبے ہائی کورٹ کے علم میں آیا تو ججوں نے کہا، ‘انسانیت سب سے اہم ہیں۔ باقی سب کچھ بعد میں۔ یہ مناسب وقت ہے کہ جیل انتظامیہ کے لیے بھی ورک شاپ کی جائے۔ عدالت نے معاملے میں جانچ کے حکم دیے۔’
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)