کیا سیاست اب محض طاقت اور دولت کا منافع بخش پیشہ ہے؟

سینٹر فار میڈیا اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019کے انتخابات میں ہندوستان میں سیاسی پارٹیوں اور الیکشن کمیشن نے کل ملا کر 600بلین روپے خرچ کیے۔ جس میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے 270بلین روپے خرچ کیے۔

 سینٹر فار میڈیا اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019کے انتخابات میں ہندوستان میں سیاسی پارٹیوں اور الیکشن کمیشن نے کل ملا کر 600بلین روپے خرچ کیے۔ جس میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے 270بلین روپے خرچ کیے۔

علامتی فوٹو: رائٹرس

علامتی فوٹو: رائٹرس

پچھلی دو دہائیوں سے نئی دہلی میں ہندوستانی سیاست کو کور کرتے ہوئے مجھے یہ احساس تو ہوگیا ہے کہ اس خطے میں سیاست سے بہتر کوئی اور منافع بخش پیشہ شاید ہی ہوسکتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ ایک مفلس اور نادار فرد پر جب سیاست کی دیوی مہربا ن ہوجاتی ہے، تو راتوں رات دولت کی دیوی اس کی چوکھٹ کو چوم لیتی ہے۔

چند برس قبل حق اطلاعات قانون اور امیدواروں کے ذریعے فائل کیے گئے حلف ناموں اور دیگر ذرائع سے حاصل کیے گئے دستاویزات کے ذریعے معلوم ہو اکہ ایک رکن اسمبلی یا رکن پارلیامنٹ کی دولت میں پانچ سالوں میں 50ہزار گنا اضافہ ہوا ہے۔اسی طرح لوک سبھا کے ممبران کے حلف نامے جو میں نے چیک کیے ان کے مطابق 2009 اور 2014 کے درمیان اوسطاً ایک ممبر کی آمدنی میں 1200گنا اضافہ ہوا تھا۔

اگر ان کے مشاہرہ کا جائزہ لیا جائے، تو ہندوستان میں ایک ممبرپارلیامنٹ کو تمام الاؤنس اور تنخواہ کے ساتھ بس ماہانہ ایک لاکھ چالیس ہزار کے قریب رقم ملتی ہے۔ جو اس کے ایک دن کے خرچ سے بھی کم رقم ہوتی ہے۔ سینٹر فار میڈیا اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019کے انتخابات میں ہندوستان میں سیاسی پارٹیوں اور الیکشن کمیشن نے کل ملا کر 600بلین روپے خرچ کیے۔ جس میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے 270بلین روپے خرچ کیے۔

ماضی کی طرح سیاسی پارٹیاں اب عوامی چندہ پر چلتی ہیں نہ الیکشن میں نامزد امیدوار اپنے حلقہ میں چندہ کی کوئی مہم چلاتا ہے۔ ان حالات میں وافر تعداد میں یہ فنڈز کون فراہم کرتا ہے، ایک معمہ ہے؟  2024کے عام انتخابات میں ہندوستان میں ایک ٹریلین روپے خرچ ہونے کے امکانات ہیں۔

دہلی کے نواح میں تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کے فارم ہاؤسز، تو کسی عجائب گھر سے کم نہیں ہیں۔ بطور صحافی سیاست دانوں کی پرائیوٹ پارٹیوں میں جانے کی وجہ سے ان فارم ہاؤسز کو اندر سے دیکھنے کا موقع ملاہے۔ ان میں سوئمنگ پول سے لےکر دنیا کی تمام آرائشیں موجود ہیں، جن کی کوئی فرد تمنا کرسکتا ہے۔ ان پارٹیوں میں قیمتی شراب و کباب کی محفلیں جمائی جاتی ہیں ۔ ان پارٹیوں اور ان میں شامل افراد کو دیکھ کر یہ یقین کرنا پڑتا ہے کہ طاقت اور دولت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

لیکن اگرآپ سیاسی جماعت جوائن کرتے وقت کارکنان کے عہد اور حلف کو دیکھیں تو وہ روئے زمین پر سب سے زیادہ صالح انسان نظر آئیں گے۔ کانگریس ہو،  یا بی جے پی یا کوئی علاقائی پارٹی،غرض  ہر پارٹی نئے ممبران کو متعارف کرواتے ہوئے ان سے یہ عہد لیتی ہے کہ وہ ایک مثالی انسان بنیں گے۔انہیں شراب سے پرہیز کرنے، کھادی(کاٹن)کاتنے او ر پوری عمر صرف یہی کپڑے پہننے کا عہد کرناپڑتا ہے۔ نیز سبھی مذاہب کا احترام کرنے اور مذہبی رواداری برقرار رکھنے کا حلف بھی اٹھانا پڑتا ہے۔

حال ہی میں جب   کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے پارٹی کے ریاستی سربراہوں کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران ان سے  پوچھا کہ میٹنگ میں کون اس امید سے آیا ہے کہ میٹنگ کے بعد شراب سرو ہوگی؟ اس سوال نے اس کمرے میں موجود تقریباً سب لوگوں کو حیران کر دیا۔ تب میٹنگ میں موجود اراکین کو پارٹی جوائن کرتے وقت کے حلف یاد دلائے گئے اور ان کواحساس دلایا گیا کہ کس حد تک وہ اس عہد کو نبھاتے ہیں۔

شراب نوشی سے پرہیز کرنا کانگریس کے عہدنامہ  میں رکھی گئی نو شرائط میں شامل ہے۔ ممبران کو مذہب یا ذات پات کی تفریق کے بغیر ایک مربوط معاشرے میں یقین رکھنے کے علاوہ، جسمانی مشقت سمیت دیگر کام انجام دینے کا بیڑہ اٹھانا ہوگا۔ سیکولرازم، سوشلزم اور جمہوریت کو فروغ دینا اور چھوت چھات سے پرہیز کرنے کا بھی عہد لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کانگریس کے تمام ورکروں و لیڈروں کے لیے لازم ہے کہ ان میں مہاتما گاندھی کی طرح کھادی کاتنے کے قابلیت بھی ہونی چاہیے۔

اسی طرح حکمران بی جے پی کے آٹھ نکاتی عہد میں مثبت سیکولرازم  اور انسانیت پسندی پر یقین رکھنے کی قسم دلائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ عہد لیا جاتا ہے کہ کارکن ذات، جنس یا مذہب کی بنیاد پر دوسروں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کر یں گے۔مگر عملی زندگی میں اس کے کارکنان اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کرتے ہیں۔ وہ رواداری کا عہد تو کرتے ہیں، مگر کسی بھی اختلافی آواز کو برداشت نہیں کرتے ہیں۔اگر سیاسی جماعتوں کے اراکین اس حلف کو یاد کرکے اس پر عمل کریں، تو ہندوستان عملی طور پر دنیا کے لیے قابل فخر مثالی معاشرہ بن سکتا ہے۔

مگر لگتا ہے کہ جو لوگ ان پارٹیوں میں شامل ہوتے ہیں وہ  یہ حلف پڑھتے ہی نہیں ہے۔

بائیں بازوشاید واحد سیاسی جماعت ہے جہاں نئے کارکن کو پارٹی میں داخلہ کے بعد چھ ماہ کا ٹریننگ کورس مکمل کرنا پڑتا ہے۔اس کے بعد سال کے آخر میں اس کا امتحان ہوتا ہے، جس میں کارل مارکس اور دیگر لیڈران کے بارے میں سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ پھر اگلے چھ ماہ تک اس کو آبزرویشن میں رکھا جاتا ہے۔ جس کے بعد ہی مکمل ممبرشپ تفویض ہوتی ہے۔

مہاتما گاندھی نے 1937 میں اس وقت کے کانگریسی وزرائے اعلیٰ کوسادگی اپنانے کی تلقین کی تھی۔ اپنے خط میں انہوں نے  لکھا تھاکہ ؛

کانگریسیوں کو یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ سادگی پر ان (گاندھی) کی ہی اجارہ داری ہے۔جس کا مظاہرہ وہ1920 سے دھوتی کی صورت میں کر رہے ہیں۔ میں حضرت ابوبکراور حضرت عمرکی مثال پیش کرنا چاہتا ہوں۔ میں رام اور کرشن کو مثال کے طور پر اس لیے پیش نہیں کرسکتا کہ یہ ماقبل تاریخ کے نام ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مہا رانا پرتاپ اور شیوا جی انتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے لیکن اس بات پر اختلاف ہے کہ جب وہ اقتدار میں آئے تو انہوں نے کیا طرز عمل اپنایا۔

البتہ پیغمبراسلام،حضرت ابوبکراورحضرت عمرکے بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔ پوری دنیا کی دولت ان کے قدموں میں تھی، اس کے باوجود انہوں نے جس طرح کی جفاکش اور سادہ زندگی گزاری اس کی کوئی دوسری مثال تاریخ میں ملنی مشکل ہے۔حضرت عمر نے اپنے گورنروں کو بھی موٹا کپڑا پہننے اور موٹا آٹا کھانے کی ہدایت دی تھی۔ اگر کانگریسی وزراء بھی اسی سادگی اور کفایت شعاری کو برقرار رکھیں گے جس پر وہ1920 سے گامزن ہیں تو اس سے ہزاروں روپے بچیں گے‘جس سے غریبوں کی امیدیں روشن ہو سکتی ہیں اور خدمات کے آہنگ میں تبدیلی آسکتی ہے۔

میں اس جانب اشارہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ سادگی کا مطلب بدحالی ہر گز نہیں، سادگی میں ایک خوبصورتی اور کشش ہوتی ہے جسے اس خوبی کو اپنانے والے بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ پاک صاف اور باوقاررہنے کے لیے پیسے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ دکھاوا اور نمائش بالعموم فحاشی کے مترادف ہوتے ہیں۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مہاتما گاندھی کی ان نصیحتوں کویورپی ممالک کے سیاست دانوں نے حرف بہ حرف اپنا لیا ہے لیکن ہمارے لیڈروں نے ان تعلیمات کو بہت پہلے سے بھلا رکھا ہے جس کا انجام آج عوام کو بد حالی اور تباہی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔

(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کاکا یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)