سینٹر فار میڈیا اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019کے انتخابات میں ہندوستان میں سیاسی پارٹیوں اور الیکشن کمیشن نے کل ملا کر 600بلین روپے خرچ کیے۔ جس میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے 270بلین روپے خرچ کیے۔ یعنی فی ووٹر 700روپے خرچ کیے گئے ہیں اور ایک پارلیامانی حلقہ میں 100کروڑ یعنی ایک بلین روپے خرچ کیے گئے۔ تقریباً200بلین روپے ووٹروں میں بانٹے گئے، 250بلین روپے پبلسٹی پر خرچ کیے گئے اور 50بلین روپے لاجسکٹکس وغیرہ پر خرچ کیے گئے۔
(فوٹو بہ شکریہ: پی ٹی آئی)
ایک دہائی سے زائد عرصہ قبل ہندوستان کی معروف جواہر لال یونیورسٹی سے فارغ التحصیل میرے ایک ساتھی کو سیاست میں شامل ہونے کا شوق چرایا۔صوبہ اترپردیش کے ایک قصبہ میں اپنے کاروبار کے ساتھ کئی برسو ں سے انہوں نے حق اطلاعات کے قانون کا سہارا لےکر مقامی طور پر کورپشن کے خلاف جنگ شروع کی تھی اور اس کے علاوہ ان کی سعی سے عوام کے لیے بنیادی ضروریات یعنی پانی، بجلی اور سڑک کی فراہمی آسان ہو گئی تھی۔
بطور ایک آزاد امیدوار انہوں نے نگر نگم یعنی مونسپل کارپوریشن کے چیئرمین کا انتخاب لڑا اور اس عہدے پربرسوں سے براجمان ایک بھاری بھرکم سیاستدان کو ہرا کر کامیابی حاصل کی۔جب جیتنے کی خوشی اور ڈھول نقاروں کی آوازیں تھم گئیں اور ان کو اپنا دفتر سنبھالنا پڑا تو معلوم ہوا کہ چیئرمین تو ہمہ وقت ڈیوٹی پر ہوتا ہے، ملاقاتیوں کا سلسلہ اور مسائل کا انبار سانس بھی نہیں لینے دیتا ہے۔چند روز میں ہی ان کو معلوم ہوا کہ اپنا کاروبار بند کرکے پورا دن کار پوریشن کے دفتر میں بیٹھ کر ملاقاتیوں کو سنبھالنا، معزز شہریوں کو چائے ناشتہ کروانا یا شہر کا دورہ کرنا ہی اب ان کا روز مرہ کا کام ہے۔
اس پر طرہ کہ چیئرمین کی کوئی تنخواہ نہیں ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا وہ حیران و پریشان تھے کہ ان کے بغل کے قصبہ کے نگر نگم کے چیئرمین کے پاس عالیشان گاڑیوں کی فلیٹ اور محل نما مکانات تھے اور یہی حال تقریباً صوبہ کی سبھی مونسپل کارپوریشنوں کے چنے ہوئے عہدیداروں کا بھی تھا۔ کوئی تنخواہ نہیں، اپنے کاروبار کے لیے فرصت نہیں اور ہر دن سینکڑوں افراد کو چائے پلانا، آخر گزارہ ہو تو کیسے؟
خیر اس دوست کا کہنا تھا کہ اسی شش و پنج میں مہینہ گزر گیا اور وہ تقریباً تیار تھے کہ سیاست کو خیر باد کہہ کر واپس اپنی دنیا میں آجائیں تاکہ اہل و عیال کو پالنے کے لیے حصول رزق میں جٹ جائیں۔ مہینہ کی پہلی تاریخ کو گھر کے دروازے پر صبح سویرے دستک ہوئی تو معلوم ہو اکہ قصبہ کے ٹھیکہ داروں کی یونین کا وفد ملنے آیا ہے۔ علیک سلیک کے بعد انہوں نے ایک پیکٹ حوالے کیا، جس میں چند لاکھ روپے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ کارپوریشن کے چیئرمین کے لیے ماہانہ ہدیہ ہے، جو وہ کئی دہائیوں سے دیتے آرہے ہیں، جب سے ملک میں بلدیاتی اداروں کے ذریعے گراس روٹ جمہوریت نے جڑ پکڑ لی ہے۔
چند لمحوں کے بعد بیوپار منڈل اور چھاپڑی فروشوں کی انجمن، غرض شام تک ایسی درجنوں تنظیموں کے نمائندے دستک دیتے رہے اور ہدیہ پیش کرتے رہے۔ ایک انجمن کے عہدیدار نے ان کو کہا کہ وہ ان کو جلدی فارغ کردیں، کیونکہ ان کو ممبر اسمبلی اور مقامی ممبر پارلیامنٹ کے گھر جاکر ان کو بھی ماہانہ ہدیہ عنایت کرنا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ یہ نو منتخب چیئرمین ان ہدیوں کو ٹھکراتے رہے۔ مگر ان کو ادراک ہوگیا کہ آخر گراس روٹ پر ڈیموکریسی کی دیوی کیسے کام کرتی ہے۔ان کا کہنا ہے ان بلدیاتی اداروں کا قیام ہی اسی لیے کیا گیا ہے کہ مقامی سیاستدانوں کو انتظامیہ کے ساتھ مل کر بد عنوانی کرنے کی کھلی چھوٹ دےکر پارٹی، اور دیگر سیاستدانوں کے لیے رقومات فراہم کروانے کا انتظام کرایا جائے۔
اسی طرح مجھے یاد ہے کہ اسی ریاست کے ایک ڈویژن میں ایک اور ساتھی کا پولیس کے محکمہ میں بطور ڈی آئی جی تقرر ہوا۔ وہ بھی جے این یو کے ہی فارغ التحصیل تھے۔ سول سروس میں کامیابی کے بعد جب سے ان کو پولیس کا محکمہ دیا گیا تھا، اپنی صاف شبیہ کی وجہ سے ان کو کسی علاقے کی کمانڈ نہیں دی گئی تھی، بلکہ ہیڈ کوارٹر میں ہی فائلوں کی کھنگالنے کی ذمہ داری پر مامور تھے۔
صنعتوں کے جال کی وجہ سے صوبہ میں یہ ڈویژن کورپٹ افسران اور سیاستدانوں کے لیے پیسہ اگانے کے معاملے میں جانا جاتا ہے۔ ان کی تقرری کے چند ما ہ بعد جب علاقے کے دورہ پر وزیر اعلیٰ آپہنچی تو باقی افسران کی طرح وہ بھی ان کی خدمت میں جٹ گئے۔ شام کو وزیر اعلیٰ نے بغیر کسی لاگ و لپیٹ کے ان کو بتایا کہ سیاسی پارٹی چلانا کوئی کھیل تماشہ نہیں ہے، اس کے لیے زر درکار ہوتا ہے اور ان کو کسی ضلع کے پولیس انچارج کا تجربہ نہ ہوتے ہوئے بھی اس ملائی والے ڈویژن کا انچارج بنایا گیا ہے اور ابھی تک وہ ان کی پارٹی کو فنڈز مہیا نہیں کروا پا رہے ہیں۔
ان کو وارننگ دی گئی کہ اگلے دن شام تک وہ ایک کروڑ روپیہ لےکر حاضر ہو جائیں، ورنہ اپنی ملازمت اور کریئر پر فاتحہ پڑھ لیں۔ پریشانی کے عالم میں انہوں نے صبح سویرے ان کے گھر پر آئے پولیس کپتان کو بتایا کہ ان کا تبادلہ یقینی ہے اور وہ اہم فائلوں کا نمٹارہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایس ایس پی نے ان کو دلاسہ دیا اور اور علاقے کے دس پولیس تھانوں کے سربراہوں کو فون کر کے دس لاکھ روپے فی تھانہ جمع کرنے کی ہدایت دی۔ شام تک ڈی آئی جی صاحب نے وزیر اعلیٰ کو ایک کروڑ روپے تھما کر اپنی نوکری بچا لی۔
چند برس قبل حق اطلاعات قانون، امیدواروں کے ذریعے فائل کیے گئے حلف ناموں اور دیگر ذرائع سے حاصل کیےدستاویزات کے ذریعے معلوم ہو اکہ ایک رکن اسمبلی یا رکن پارلیامنٹ کی دولت میں پانچ سالوں میں50ہزار گنا اضافہ ہوا ہے۔ شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش سے منتخب ممبر اسمبلی وشواناتھ نے 2009میں دائر حلف نامہ میں اپنی آمدنی اور جائیداد چار لاکھ روپے بتائی تھی۔ پھر 2014کے انتخابات کے موقع پر دائر حلف نامہ میں آمدن اور جائیداد 14کروڑ روپے دکھائی۔
یعنی ان کی آمدن میں ہوشربا 35ہزار گنا اضافہ ہو گیا تھا۔ اسی طرح لوک سبھا کے ممبران کے حلف نامہ جو میں نے چیک کیے ان کے مطابق 2009اور2014کے درمیان اوسطاً ایک ممبر کی آمدن میں 1200گنا اضافہ ہوا تھا۔ اگر ان کے مشاہرہ کا جائزہ لیا جائے تو ہندوستان میں ایک ممبرپارلیامنٹ کو تمام الاؤنس اور تنخواہ کے ساتھ ماہانہ ایک لاکھ چالیس ہزار کے قریب رقم ملتی ہے۔ یعنی سالانہ یہ رقم 35لاکھ کے قریب بنتی ہے۔ اب یہ کون سی ایسی گیدڑ سنگھی ہے جس سے ان کی آمدن میں اس قدر ہوشربا اضافہ ہوتا ہے۔
سینٹر فار میڈیا اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019کے انتخابات میں ہندوستان میں سیاسی پارٹیوں اور الیکشن کمیشن نے کل ملا کر 600بلین روپے خرچ کیے۔ جس میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے 270بلین روپے خرچ کیے۔ یعنی فی ووٹر 700روپے خرچ کیے گئے ہیں اور ایک پارلیامانی حلقہ میں 100کروڑ یعنی ایک بلین روپے خرچ کیے گئے۔ تقریباً200بلین روپے ووٹروں میں بانٹے گئے، 250بلین روپے پبلسٹی پر خرچ کیے گئے اور 50بلین روپے لاجسکٹکس وغیرہ پر خرچ کیے گئے۔
مزید ماضی کی طرح سیاسی پارٹیاں اب عوامی چندہ پر چلتی ہیں نہ الیکشن میں نامزد امیدوار اپنے حلقہ میں چندہ کی کوئی مہم چلاتا ہے۔ ان حالات میں وافر تعداد میں یہ فنڈز کون فراہم کرتا ہے، ایک معمہ ہے؟ اگر کارپوریٹ گھرانے سیاسی جماعتوں اور منتخب نمائندوں کو فنڈز دیتے ہیں، تو اس کے عوض وہ اگلے پانچ سال تک کیا لیتے ہیں ایک بڑا سوال ہے؟
میڈیا اسٹڈیزادارے کے سربراہ این بھاسکر راؤ کے مطابق 2024کے عام انتخابات میں ہندوستان میں ایک ٹریلین روپے خرچ ہونے کے امکانات ہیں۔ معروف پاکستانی بیورو کریٹ او ر غالباً جموں و کشمیر کے دوسرے سول سروس آفیسر قدرت اللہ شہاب نے اپنی تصنیف شہاب نامہ میں لکھا ہے کہ الیکشن کا کاروبار بلیک مارکیٹ سے زیادہ وسیع اور دست غیب سے زیادہ طلسماتی ہے۔ جو جنوبی ایشیاء کے الیکشن سسٹم پر فٹ آتی ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ یہ پیسہ کہیں سے وصول تو ہونا ہی ہے اور عوام کی جیبوں سے اس کو برآمد ہونا ہے۔ انتخابات کو سہل اور کم خرچ بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے اور کورپشن کو جڑ سے اکھاڑنے کا یہ واحد طریقہ ہے۔ جمہوریت کا واحد مقصدعام آدمی کو با اختیار بنانا اور اقتدارکی دیوی کو اس کی چوکھٹ تک لانا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو سسٹم کا حصہ سمجھے اور حکمرانوں کو اپنا وکیل یا اپنی ذات کا قائم مقام تسلیم کرے۔
بد عنوانی کی جڑ ہی شخصیت پرستی اور انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے زرکا استعمال ہے۔ یورپی ممالک نے انتخابی اصلاحات کے ذریعے اس کو کسی حد تک ایڈریس کیا ہے۔ مثال کے طور پر ڈنمارک اور دیگر کئی ممالک میں انتخابی مہم چلانے کے لیے سیاسی پارٹیوں کو قومی خزانے سے رقم دی جاتی ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ سابق الیکشن میں جو پارٹی قومی اور علاقائی سطح پر جتنے ووٹ حاصل کرتی ہے اسی حساب سے اسے رقم دی جاتی ہے۔
چند برس قبل ڈنمار ک کی پارلیامنٹ کے اسپیکر نے مجھے بتایا کہ الیکشن میں انہوں نے اپنے حلقہ انتخاب پر 20000 ڈالر خرچ کیے تھے، لیکن انہیں اپنی جیب سے پھوٹی کوڑی بھی نہیں دینی پڑی کیونکہ یہ رقم پارٹی اور سرکار ی فنڈ سے ملی تھی۔ ان ممالک میں انتخابی مہم بھی مختصر ہوتی ہے، اس وجہ سے بھی اخراجات کم ہوتے ہیں۔ انتظامی ڈھا نچہ بھی ایسا ہے کہ لوگ اپنی روزمرہ ضرورتوں کے لیے سرکاری حکام پر بہت کم انحصارکرتے ہیں۔ غالباً اس سے بھی ملک کو بدعنوانی سے پاک رکھنے میں مدد ملی ہے۔کم و بیش یہی صورت حال میں نے اسرائیل میں بھی دیکھی ہے۔ ان ممالک میں بد عنوانی دفاعی اور دیگر ممالک کے ساتھ سودوں میں اعلیٰ سطحوں پر ہوتی ہوگی، مگر اندورن ملک نچلی سطح پر یا سیاسی سطح پر بہت ہی کم ہے۔
ان ممالک کے لیڈر ان بھی سادگی کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں اس لیے شاید ان کو کورپشن کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ موہن داس کرم چند المعروف مہاتما گاندھی نے 1937میں اس وقت کے کانگریسی وزرائے اعلیٰ کو اپنے خط میں لکھا تھاکہ ،
کانگریسیوں کو یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ سادگی پر ان (گاندھی) کی ہی اجارہ داری ہے‘ جس کا مظاہرہ وہ1920ء سے دھوتی کی صورت میں کر رہے ہیں۔ میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی مثال پیش کرنا چاہتا ہوں۔ میں رام اور کرشن کو مثال کے طور پر اس لیے پیش نہیں کرسکتا کہ یہ ماقبل تاریخ کے نام ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مہا رانا پرتاپ اور شیوا جی انتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے لیکن اس بات پر اختلاف ہے کہ جب وہ اقتدار میں آئے تو انہوں نے کیا طرز عمل اپنایا۔
البتہ پیغمبراسلام‘ حضرت ابوبکر اور عمر کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔ پوری دنیا کی دولت ان کے قدموں میں تھی، اس کے باوجود انہوں نے جس طرح کی جفاکش اور سادہ زندگی گزاری اس کی کوئی دوسری مثال تاریخ میں ملنی مشکل ہے۔حضرت عمر نے اپنے گورنروں کو بھی موٹا کپڑا پہننے اور موٹا آٹا کھانے کی ہدایت دی تھی۔
اگر کانگریسی وزراء بھی اسی سادگی اور کفایت شعاری کو برقرار رکھیں گے جس پر وہ1920سے گامزن ہیں تو اس سے ہزاروں روپے بچیں گے‘ جس سے غریبوں کی امیدیں روشن ہو سکتی ہیں اور خدمات کے آہنگ میں تبدیلی آسکتی ہے۔ میں اس جانب اشارہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ سادگی کا مطلب بدحالی ہر گز نہیں، سادگی میں ایک خوبصورتی اور کشش ہوتی ہے جسے اس خوبی کو اپنانے والے بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ پاک صاف اور باوقاررہنے کے لیے پیسے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ دکھاوا اور نمائش بالعموم فحاشی کے مترادف ہوتے ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گاندھی کی ان نصیحتوں کویورپی ممالک کے سیاست دانوں نے حرف بہ حرف اپنا لیا ہے لیکن ہمارے آخری رسول حضرت محمد کو ماننے والوں نے ان تعلیمات کو بہت پہلے سے بھلا رکھا ہے جس کا انجام آج عوام کو بد حالی اور تباہی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔