ایک محتاط اندازے کے مطابق بڑے جلسوں یعنی وزیر اعظم نریندر مودی کے ہر جلسے پر 50 کروڑروپے کی لاگت آتی ہے، اس میں ان کی نقل و حمل کی لاگت شامل نہیں ہے، کیونکہ اس کا خرچہ ہندوستانی فضائیہ اور ان کی حفاظت پر مامور اسپیشل پروٹیکشن گروپ کو اٹھانا پڑتا ہے۔
پارلیامانی جمہوریت کی داغ بیل ڈالنے والوں کے خواب و خیال میں نہ رہا ہوگا کہ اس نظام کا اہم ستون یعنی الیکشن جنوبی ایشیاء میں خاص طور پر کاروبار کا روپ دھار کرکے بلیک مارکیٹ سے زیادہ وسیع اور دست غیب سے بھی زیادہ طلسماتی بن سکتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہندوستان میں الیکشن کمیشن نے پارلیامانی انتخابات لڑنے والے امیدواروں کے لیے اخراجات کی حد کو 75لاکھ اور بڑے حلقوں میں 95 لاکھ کی، تو ایک دن میں نے دارالحکومت دہلی میں اپنے حلقہ جنوبی دہلی کا دورہ کرکے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ ایک امیدوار کو پارلیامنٹ کا الیکشن لڑنے کے لیےکس قدر رقم کی ضرورت پڑتی ہوگی۔
دیکھا کہ اس حلقہ کے 846 پولنگ بوتھوں سے ذرا دوری پر تینوں بڑی پارٹیوں یعنی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) عام آدمی پارٹی یعنی عآپ اور کانگریس کے ذیلی دفاتر کھلے ہیں، جن میں دس سے بیس افراد ہمہ وقت موجود رہتے ہیں، چائے، ناشتہ کے دور دن بھر چلتے رہتے ہیں۔ان سبھی عارضی دفاتر کے لیے خیمہ، لاؤڈ اسپیکر، ٹرانسپورٹ کا انتظام ہے۔ ووٹنگ کے دن پولنگ بوتھوں کے لیے ہر پارٹی نے چار پولنگ ایجنٹ تعینات کیے ہوئے تھے۔
جب خیمہ کرایہ پر دینے والوں، لاؤڈ اسپیکر فراہم کرنے والوں اور جن ہوٹلوں سے ناشتہ، چائے وغیرہ آتی تھی، سے پتہ کیا، تو معلوم ہوا کہ ہر امیداوار کا خرچہ ایک ماہ کی کیمپینگ کا ساڑھے تین کروڑ سے کم نہیں تھا۔ یہ 2014 کی کہانی ہے۔ یہ خرچہ ا ب دس کروڑ سے زیادہ تجاوز کر گیا ہوگا۔ یہ رقم اس کے علاوہ ہے، جو پارٹی کا مرکزی دفتر تشہیر اور لیڈروں کے جلسوں کے انعقاد کے لیے خرچ کرتاہے۔بہت سے امیدوار اپنی انتخابی مہم کے دوران نقد رقم اور دیگر تحائف سائیکل، ساڑیاں، فون، کچن کا ساز و سامان اور یہاں تک کہ بکرے، مرغ اور شراب کی بوتلیں بھی ووٹروں کو لبھانے کے لیے دیتے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق بڑے جلسوں یعنی وزیر اعظم نریندر مودی کے ہر جلسے پر 50 کروڑروپے کی لاگت آتی ہے، اس میں ان کی نقل و حمل کی لاگت شامل نہیں ہے، کیونکہ اس کا خرچہ ہندوستانی فضائیہ اور ان کی حفاظت پر مامور اسپیشل پروٹیکشن گروپ کو اٹھانا پڑتا ہے۔
اپوزیشن کو بھی بڑی ریلیوں پر اتنی ہی یا کچھ زیادہ ہی ر قم خرچ کرنی پڑتی ہوگی، کیونکہ ان کو چارٹرڈ جہاز اور ہیلی کاپٹر وغیرہ کا کرایہ اپنی جیب سے ادا کرنا پڑتا ہے۔ امیدواروں کے لیے پھر ایک اور خرچہ انتخابات کے بعد کا ہوتا ہے، جب ان کو بھاری رقوم خرچ کرکے چارٹرڈ اکاؤٹنٹ متعین کرتے پڑتے ہیں، جو ہیر پھیر کرکے الیکشن کمیشن کو بتاتے ہیں کہ انہوں نے اس کی متعین کردہ حد کے اندر ہی رقوم خرچ کی ہیں۔
الیکشن کمیشن کے افسرا ن نیز عوام کو بھی پتہ ہوتا ہے یہ امیدوار کی مہم کا آدھے دن کا بھی خرچہ نہیں ہوسکتا ہے، مگر کیا کیا جائے بدعنوانی کی اصل جڑ کو درکنا ر کرکے اگلے پانچ سال تک زبانی جمع خرچ کرکے بدعنوانی پر قد غن لگانے کے نام پر دکھانے کے لیے حریفوں کے ہاں ریڈ کرواکے پھر اگلے انتخاب کی تیاری کی جاتی ہے۔
حکمرانوں کو جوابدہ بنانے کے لیے جو پارلیامانی نظام اپنایاگیا تھا، وہ اب سرمایہ داروں کی لونڈی بن چکا ہے۔ انتخابات کا طریقہ کار ہی ایسا ہے کہ اس کی جڑیں کورپشن کی زمین میں گڑی ہیں۔ ہندوستان میں،جہاں عام انتخابات کا بگل بج چکا ہے، اس بار ایک اندازے کے مطابق 1.20 ٹریلین روپے یعنی 14.4بلین ڈالر خرچ ہو جائیں گے۔ ان میں سے الیکشن کمیشن کا خرچ صرف بیس فیصد ہی ہے۔
اسٹیٹسٹا ریسرچ ڈپارٹمنٹ کے مطابق، 2019 کے انتخابات میں 550 بلین روپے خرچ کیے گئے تھے۔ ان میں حکمران جماعت بی جے پی نے تقریباً 275 بلین روپے خرچ کیے تھے۔ 2020 میں امریکی صدارتی اور کانگریس کے انتخابات میں بھی تقریباً 14.4 بلین ڈالر خرچ کیے گئے تھے۔ یعنی انتخابی اخراجات کے مقابلے میں ہندوستان امریکہ کی برابری کرنے کی پوزیشن میں پہنچ چکا ہے۔فرق بس اتنا ہے کہ امریکہ میں سیاسی امیدواراں کی فنڈنگ کا سسٹم شفاف ہے۔ یعنی ووٹروں کو معلوم ہے کہ کون کس امیدوار کو رقوم فراہم کر رہا ہے اور اس کے بدلے میں کیا فائدے چاہتا ہے۔ جنوبی ایشیاء کی جمہوریت میں فنڈنگ کا یہ سسٹم دبیز طلسماتی تہہ میں دبا ہوا ہے۔
سیاسی پارٹیوں کی فنڈنگ کو اور زیادہ پیچیدہ بناتے ہوئے2017 میں ہندوستان کے اس وقت کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے ایک عجیب و غریب اسکیم کا اعلان کیا۔جس کے مطابق جو کارپوریٹ ادارے سیاسی پارٹیوں کو رقوم دینا چاہتے ہیں، وہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا جاکر بانڈ خریدیں، جس پر کسی کا نام درج نہیں ہوگا۔ یہ ایسا ہی سسٹم ہے، جیسے پوسٹ آفس سے پوسٹل آرڈر ملتا تھا۔ مگر ظاہر سی بات ہے کہ بینک، جو وزرات خزانہ کے تحت کام کرتا ہے، اپنے پاس تو ریکارڈ رکھتا ہی ہے، اور حکمرانوں کو اس تک رسائی تو ہوتی ہی ہے۔یہ سسٹم اس لیے لاگو کیا گیا تھا تاکہ سیاسی پارٹیوں اور عوام سے یہ پوشیدہ رکھا جائے کہ کس کارپوریٹ ادارے نے کس پارٹی کو کتنی رقوم دیں۔
کارپوریٹ اداروں کو تحفظ دینا مقصود تھا، تاکہ اگر کوئی ایسی پارٹی پاور میں آتی ہے، جس کو انہوں نے فنڈ نہ کیا ہو، و ہ اس کے عتاب کا شکار نہ ہوجائیں۔ مگر بھلا ہو سپریم کورٹ کا، جس نے حال ہی میں اس سسٹم کو کالعدم کرکے حکم دیا کہ ووٹرو ں کے لیے یہ جاننا لازم ہے کہ جس پارٹی کو وہ ووٹ دے رہے ہیں، اس کو کون رقوم دے رہا ہے۔ کورٹ نے اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو حکم دیا کہ یہ ڈیٹا فی الفور الیکشن کمیشن کے حوالے کرے اور الیکشن کمیشن کو ہدایت دی کہ اس کو اپنی ویب سائٹ پر عام کردے۔بینک نے پہلے تو لیت و لیل سے کام لےکر اس کو جون تک ٹالنے کی کوشش کی، مگر کورٹ کے سخت رویہ کے بعد اس کو یہ ڈیٹا عام کرنا ہی پڑا۔
ان اعداد و شمار کے مطابق، حکمران بی جے پی کو 2018 سے 2022 تک کل 92 بلین روپے ($ 1.1 بلین) روپے کے بانڈ ملے۔یعنی کل انتخابی بانڈز کی مالیت کا 57 فیصد اس نے حاصل کیا۔اہم اپوزیشن کانگریس پارٹی کو اسی مدت میں 9.6 بلین روپے یا 10 فیصد بانڈ ملے۔ اہم بات یہ ہے کہ کچھ کارپوریٹ اداروں نے خسارے میں ہوتے ہوئے بھی دل کھول کر سیاسی جماعتوں کو چندہ دیا، جس کی بس یہی ایک توضیح سامنے آسکتی ہے کہ یہ شاید شیل کمپنیاں تھیں۔ انتخابی بانڈز خریدنے والی 200 سرفہرست فرموں میں سے کم از کم 16 نے اس وقت عطیہ دیا جب ان کا اپنا کاروبار پچھلے تین سالوں سے مسلسل خسارے میں چل رہا تھا۔ وہ اپنے شئیر ہولڈرز کو پیسہ دینے کی پوزیشن میں نہیں تھے، مگر مجموعی طور پر سیاسی جماعتوں کو انہوں نے سات ارب ر وپے کا عطیہ دیا۔ اس میں سے 460 کروڑ روپے (60 فیصد سے زیادہ) بی جے پی کو دیے۔
ہندوستان میں کمپنی ایکٹ کی رو سے، کوئی کمپنی پچھلے تین مالی سالوں میں کمائے گئے اوسط منافع کا صرف 7.5فیصد ہی سیاسی یا سماجی کاموں کے لیے عطیہ کرسکتی تھی۔ تاکہ کمپنی کے شئیر ہولڈرز کے مفادات کا تحفظ ہوسکے اور کمپنی کے افسران ان کے خون پسینہ کی کمائی لٹاتے نہ پھریں۔ مثال کے طور پر، اگر کسی کمپنی نے تین سال کے لیے اوسطاً 100 روپے کا منافع کمایا، تو اسے چوتھے سال میں صرف 7.5 روپے عطیہ کرنے کی اجازت تھی۔ یہ عام فہم ہے کہ کوئی بھی کمپنی جو اپنے منافع سے غیر متناسب عطیہ کرتی ہے وہ کالے دھن کو سفید بنانے میں ملوث ہوسکتی ہے۔مگر 2017میں ہی جب الیکٹورل بانڈ کی اسکیم نافذ کی گئی، تو خاموشی کے ساتھ کمپنی ایکٹ کی اس ایک لائن کو ختم کردیا گیا۔
اس ترمیم کے ذریعے کمپنی کے ایگزیکٹوز اپنے من کے مطابق عطیہ کرسکتے ہیں۔ رپورٹرز کلیکٹو نامی ویب سائٹ نے جب بانڈ خریدنے اور پھر ان کو سیاسی پارٹیوں کی دینے والی سرفہرست 200 فرموں کی کارپوریٹ فائلنگ کا تجزیہ کیا، تو معلوم ہوا کہ اگر 7.5 فیصد کی حد برقرار رکھی جاتی تو ان کمپنیوں میں سے 16 کو سیاسی جماعتوں کو ایک روپیہ بھی دینے کی اجازت نہ ہوتی۔ مزید برآں، ان 200 فرموں کو اس سال صرف 21 لاکھ روپے عطیہ کرنے کی اجازت ہوتی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کمپنیوں نے مل کر سیاسی جماعتوں کو 87ارب روپے عطیہ میں دیے۔
مثال کے طور پر ٹیلی کام کمپنی بھارتی ایئرٹیل کے گوشوارہ کے مطابق مالی سال 2020-21 اور 2022-23 میں اس کمپنی کو97.17 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا، جس کی وجہ سے وہ شئیر ہولڈروں کے ساتھ پیسے بٹورنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔مگر اس کے باوجود، کمپنی نے سیاسی جماعتوں کو 19.7 ارب ر وپے سے زائد کا عطیہ دیا۔ اس میں سے 197 کروڑ روپے بی جے پی کو 50 لاکھ روپے جموں و کشمیر کی نیشنل کانفرنس کو اور 10 لاکھ روپے بہار کی راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کو دیے۔ اسی طرح ڈی ایل ایف کمرشل ڈیولپرز لمیٹڈنے مالی سال 20-2019 میں 20 کروڑ روپے کا عطیہ دیا حالانکہ اسی مدت میں 210 کروڑ روپے کا نقصان گوشوارہ میں دکھایا۔
گوشوار میں خسارہ دکھانے والی ان 16 فرموں کے علاوہ، کم از کم 31 فرموں نے اپنے تین سال کے اوسط منافع سے کہیں زیادہ چندہ دیا۔ کولکاتہ کی شراب تقسیم کرنے والی فرم کیسل لیکرز پرائیویٹ لمیٹڈ نے پچھلے تین سالوں میں بمشکل 6 لاکھ روپے کا منافع کمایا، مگر سیاسی جماعتوں کو 7.5 کروڑ روپے یعنی منافع سے 118 گنا زیادہ عطیہ دیے۔ کیونٹر فوڈپارک انفرا پرائیویٹ لمیٹڈ نے مالی سال 2019-20 میں 195 کروڑ روپے کا عطیہ دیا، حالانکہ اس نے صرف 12.4 لاکھ روپے کا منافع کمایا تھا۔اسی طرح ایک اور کمپنی مدن لال لمیٹڈ نے مالی سال 2020 میں 185.5 کروڑ روپے کا عطیہ دیا۔ مگر اس سال کمپنی کا منافع بس 5.18 کروڑ روپے تھا۔ پچھلے تین سالوں کی اوسط سے، کمپنی کو 2.5 کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا تھا۔ ایسی سخاوت پر تو حاتم طائی بھی شرمندہ ہوگاکہ نقصان اٹھانے کے باوجود عطیات دیے۔ اکثر کمپنیوں نے عطیات حکمران بی جے پی کو دئے، چند ایک نے ایسی اپوزیشن پارٹیوں کو دیے، جو صوبوں میں برسراقتدار تھے۔
کانگریس پارٹی کے جنرل سکرٹری اور ترجمان جے رام رمیش، جو خود بھی ماہر معاشیات ہیں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی ڈانٹ کے بعد اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں، ا ن کے تجزیہ سے ایک اور بات کا پتہ چلتا ہے کہ جن کارپوریٹ گروپ نے عطیہ دیے ہیں اس کے فوراً بعد ہی ان کو سرکاری کاموں کے ٹھیکہ بھی ملے ہیں۔ مالی بدعنوانی میں ملوث ہونے کی پاداش میں چند کمپنیوں کے خلاف تفتیشی ایجنسیوں نے جب ریڈ کرکے جانچ کرنا شروع کی، تو انہوں نے بانڈ خرید کر حکمران پارٹی کو تھما دیے۔ اس کے بعد ان کے خلاف کیسز میں نرمی برتی گئی۔ رمیش کا کہنا ہے کہ 38 کارپوریٹ گروپوں نے 3.8 لاکھ ٹریلین روپے کے 179 سرکاری ٹھیکے اور پروجیکٹ الیکٹورل بانڈز عطیہ کرنے کے بعد حاصل کیے۔
مثال کے طور پر ٹنل بنانے والی ایک کمپنی آپکو انفرا کو 15جنوری 2020کو کشمیر میں ایک میگا ٹنل بنانے کا ٹھیکہ مل گیا، جس سے سرینگر سے سونہ مرگ اور لداخ جانے میں آسانی ہو جائےگی۔ اسکے دو دن بعد اس نے دس کروڑ روپے کے بانڈ خرید کر بی جے پی کے دفتر میں جمع کروا دیے۔ اگلے دس ماہ تک اس کمپنی نے تیس کروڑ روپے عطیہ کے طور پر دیے۔ اسی طرح تفتیشی ایجنسیوں نے تین سالوں میں جن 56 کمپنیوں پر مالی بدعنوانیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے ریڈ کی، انہوں نے 25ارب روپے کے بانڈ خرید کر حکمران پارٹی کے دفتر میں جمع کروائے۔ رمیش کے مطابق یہ ایک طرح کی ہفتہ وصولی ہے، یعنی دھمکی دےکر کمپنیوں سے عطیات وصول کیے گئے۔ عطیات دینے کے بعد ہی ان پر ریڈ کا سلسلہ بند ہوجاتا تھا۔ ان کے مطابق 16 فر ضی کمپنیوں نے تقریبا 419 کروڑ روپیہ کا چندہ بی جے پی کو دیا ہے۔ یہ کمپنیان کیا کام کرتی ہیں کس طرح کا کاروبار کرتی ہیں، کسی کو معلوم نہیں ہے۔
یہ کمپنیاں چاہے حکمران جماعت کو یا اپوزیشن کو رقوم دیتی ہوں، یہ ان کے لیے ایک طرح کی سرمایہ کاری ہے۔ یہ پیسہ کہیں سے وصول تو ہونا ہی ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ عوام کی جیبوں سے اس کو برآمد ہونا ہے۔ یورپی ممالک نے انتخابی اصلاحات کے ذریعے سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کے ایشو کو کسی حد تک ایڈریس کیا ہے۔ مثال کے طور پر ڈنمارک، ترکیہ اور دیگر کئی ممالک میں انتخابی مہم چلانے کے لیے سیاسی پارٹیوں کو قومی خزانے سے رقم دی جاتی ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ پچھلے الیکشن میں جو پارٹی قومی اور علاقائی سطح پر جتنے ووٹ حاصل کرتی ہے اسی حساب سے اسے رقم دی جاتی ہے۔مگر اس کے لیے پھر موجودہ برطانوی فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ سسٹم کی جگہ متناسب نمائندگی پر مبنی جمہوری سسٹم لاگو کرنا پڑے گا۔جن کارپوریٹ اداروں کو چندہ دینا ہے، ان کے لیے لازم ہونا چاہیے وہ یہ رقوم الیکشن کمیشن کے ذریعے قائم کردہ الیکٹورل ٹرسٹ میں جمع کروائیں اور پھر وہاں سے ووٹوں کے تناسب کے اعتبار سے پارٹیوں میں بانٹے جائیں۔
چند برس قبل ڈنمار ک کی پارلیامنٹ کے اسپیکر نے مجھے بتایا کہ الیکشن میں انہوں نے اپنے حلقہ انتخاب پر 20000 ڈالر خرچ کیے تھے، لیکن انہیں اپنی جیب سے پھوٹی کوڑی بھی نہیں دینی پڑی کیونکہ یہ رقم پارٹی اور سرکار ی فنڈ سے ملی تھی۔ یہی کچھ پچھلے سال ترکیہ کے انتخابات کے موقع پر امیدوارں نے بتایا، جو پارلیامان کے لیے قسمت آزمائی کررہے تھے۔ ان ممالک میں انتخابی مہم بھی مختصر ہوتی ہے، اس وجہ سے بھی اخراجات کم ہوتے ہیں۔ انتظامی ڈھا نچہ بھی ایسا ہے کہ لوگ اپنی روزمرہ کی ضرورتوں کے لیے سرکاری حکام پر بہت کم انحصارکرتے ہیں۔ غالباً اس سے بھی ان ممالک کو بدعنوانی کو کم کرنے میں مدد ملی ہے۔
اگر کارپوریٹ گھرانے سیاسی جماعتوں اور منتخب نمائندوں کو فنڈز دیتے ہیں، تو اس کے عوض وہ اگلے پانچ سال تک کیا لیتے ہیں ایک بڑا سوال ہے؟انتخابات کو سہل اور کم خرچ بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے اور کورپشن کو جڑ سے اکھاڑنے کا یہ واحد طریقہ ہے۔ہندوستان کے ایک سابق وزیر دفاع آنجہانی جارج فرنانڈیز کہتے تھے، جب انہوں نے 1967میں ممبئی میں کانگریس کے ایک اہم لیڈرایس کے پاٹل کو ہراکر بھارتی سیاسی تاریخ کا ایک پڑا اپ سیٹ کیا، تو پوری مہم پر صرف دو ہزار روپے خرچ ہوئے تھے اور یہ روپے بھی ٹریڈ یونین اداروں نے عوامی چندہ سے حاصل کئے تھے۔
میرے آبائی قصبہ کشمیر کے سوپور ٹاؤن میں جب انتخابات کا موسم قریب آتا تھا، تو جماعت اسلامی کے امیدوار سید علی گیلانی انتخابی مہم شروع کرنے سے قبل چندہ اکٹھا کرنے کی مہم شروع کرتے تھے۔ ان کا استدلال تھا کہ اگر کوئی چندہ دیتا ہے، تو ووٹ بھی دے گا اور وہ اس کے تئیں جوابدہ بھی رہیں گے۔ اسی طرح جموں و کشمیر کے ابھی تک کے طاقتور ترین وزیر اعلیٰ شیخ محمد عبداللہ سال یا دوسال میں ایک بار خود لال چوک، ہری سنگھ ہائی اسٹریٹ وغیرہ کا پیدل دورہ کرکے اپنی پارٹی کے لیے چندہ اکٹھا کرتے تھے۔
سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد تو یہ بھانڈہ پھوٹ گیا ہے کہ ہندوستان میں سیاسی پارٹیوں کو کون، کیسے اور کیوں چندہ دیتا ہے؟ مگر جموں و کشمیر میں سرگرم پارٹیوں کی فنڈنگ پر ہنوز سوالات ہیں۔ ان کا تام جھام وغیرہ کس کی مرہون منت ہے، ابھی تک پردہ راز میں ہے۔ جمہوریت کا مقصد تو عام آدمی کو با اختیار بنانا اور اقتدارکی دیوی کو اس کی چوکھٹ تک لانا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو سسٹم کا حصہ سمجھے اور حکمرانوں کو اپنا وکیل یا اپنی ذات کا قائم مقام تسلیم کرے۔مگر جب یہ حکمران کارپوریٹ اداروں کے زیر سایہ اقتدار کے گلیاروں پر براجمان ہوں، تو کون عوام اور کیسا عوام۔ ووٹر کا مصرف تو بس ووٹنگ کے دن ہوتا ہے، اور وہ ووٹ بھی قیمت دےکر حاصل کیا جاتا ہے اور پھر اگلے پانچ سال اس کی چھاتی پر مونگ دل کر ان طاقتوں کو فائدہ پہنچانے کے سامان کرنے ہوتے ہیں، جنہوں نے اس امیدوار یا پارٹی پر سرمایہ کاری کی ہو۔