شاہد اعظمی کی طرح احتشام بھی کورٹ روم کے اندر اور باہرانصاف کی لڑائی کے لیے پرعزم تھے۔مظلوموں کے لیے لڑنے کی خواہش، ہندوتوا عناصر کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور مسلمانوں کے ساتھ ہی دیگرکمزور طبقات کے خلاف ہونے والے مظالم کے سامنے سینہ سپر ہونے کی جرأت نے انھیں اقتدار میں بیٹھے لوگوں اور ان کے اتحادیوں کی آنکھ کا کانٹا بنا دیا تھا۔
احتشام ہاشمی، فوٹو بہ شکریہ: فیس بک
سپریم کورٹ کے وکیل، انسانی حقوق کےعلمبردار اور محافظ احتشام ہاشمی کا 9 فروری کو دل کا دورہ پڑنے سے دہلی میں
انتقال ہوگیا۔
صوبہ مدھیہ پردیش کے ساگر سے تعلق رکھنے والے ہاشمی آخری سانس تک انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف لڑ تے رہے۔
میں نےجس قدر ان کے حیات وخدمات کے بارے میں واقفیت حاصل کرنے کی کوشش کی ، مجھے شدت سے وکیل اور انسانی حقوق کے محافظ
شاہد اعظمی کی یاد آئی ۔
احتشام کی اچانک موت کے بعد مجھے شاہدکی یاد شاید اس لیے بھی آئی کہ صرف دو دن بعد ہی شاہد کی شہادت کی برسی تھی۔ واضح ہو کہ 13 سال قبل
11 فروری 2010 کو کچھ نامعلوم افراد نے ممبئی کے کُرلا واقع دفتر میں انہیں قتل کر دیا تھا۔
ان کی شہادت کے تیرہ سال بعدبھی اب تک
مقدمے کی سماعت مکمل نہیں ہوئی ہے اور مجرموں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاسکا ہے۔
وفات کے وقت احتشام کی عمرمحض 40 سال تھی۔ اگرچہ ان کا عرصہ حیات المناک طور پر بہت مختصررہا، لیکن وہ اپنے پیچھے گراں قدراور غیر معمولی خدمات کی ناقابل فراموش میراث چھوڑ گئے ہیں،بلاشبہ آنے والے دنوں میں ان کی خدمات کو یاد کیا جاتا رہے گا۔ متوسط طبقہ سے آنے والے احتشام اپنے خاندان میں پہلے وکیل تھے ، اس کے باوجود انہوں نے وکالت میں بہت جلد اپنی ایک نمایاں جگہ بنا لی تھی۔
انہوں نے قانون کی ڈگری بھی اس لیے حاصل کی تھی کہ وہ کمزور اور مظلوم لوگوں کی نمائندگی کرنا چاہتے تھے۔ احتشام کے ایک رشتہ دار نے اس سلسلے میں مجھے بتایا کہ کامرس سے انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد، انہوں نے قانون کے پانچ سالہ کورس میں داخلہ لیا، کیونکہ وہ صرف ضرورت مندوں کی مدد کرنا چاہتے تھے۔
رشتہ دار کے بقول،انہوں نے کارپوریٹ لاء میں بھی ڈپلومہ کورس کیا تھا، لیکن وہ بنیادی طور پر فوجداری اور انسانی حقوق کے مقدمات میں کمزور لوگوں کے معاملوں کی پیروی کرنے کے خواہش مند تھے۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں وکالت کی ، حالاں کہ وہ ملک کے مختلف حصوں کے معاملات کی پیروی کرتے تھے۔ نہ صرف سپریم کورٹ میں بلکہ ضلع، سیشن اور ہائی کورٹ میں بھی،بالخصوص مدھیہ پردیش میں۔
مجھے کئی ایکٹوسٹ اور انسانی حقوق کے وکلاء نے بتایاکہ، اکثر پیشہ ور وکیلوں کے برعکس، وہ مظلوموں کی نمائندگی کرنے میں خود ہی پہل کرتے تھے اور اس کا انتظاربالکل نہیں کرتے تھے کہ مظلوم ان کے پاس آئیں گے تب وہ ان کی مدد کریں گے۔ احتشام آگے بڑھ کر ایسے لوگوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے تھے اور ان کے معاملوں کی پیروی کرتے تھے۔
شاہد کی طرح احتشام بھی کورٹ روم کے اندر اور باہرانصاف کی لڑائی کے لیے پرعزم تھے۔ وہ قانون کے ساتھ نبرد آزما ہوتے تھے اور ضرورت پڑنے پر اس کو چیلنج بھی کرتے تھے۔وہ کالے قوانین، جس کے ذریعےاکثرمسلمانوں اور دیگر کمزور طبقات کو نشانہ بنایا جاتا ہے،اس کے خلاف کورٹ کے باہر صدئے احتجاج بلند کرنے کے ساتھ ہی انہوں نے ان قوانین اور ضابطوں کو عدالت میں چیلنج کیا۔
انہوں نے سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی ایک عرضی (پی آئی ایل ) دائر کی، جس میں انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کو ‘
غیر آئینی، غیر قانونی اور ناقابل نفاذ‘ قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ عرضی میں ہندوستان میں من مانی انٹرنیٹ بندش کو روکنے کی اپیل کی گئی تھی، بالخصوص شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے)مخالف مظاہروں کے پس منظر میں۔
سال2021 میں، انہوں نے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد اور وکیلوں کی ایک ٹیم کی قیادت کی تھی، جس نے تریپورہ میں فرقہ وارانہ تشدد کے بارے میں
فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ شائع کی۔ اس رپورٹ کی وجہ سے تریپورہ پولیس نے ان کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت مقدمہ درج کیا۔ بعد میں سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ ان کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھایا جائے۔
احتشام جہاں قانونی چارہ جوئی اور عدالتوں میں لڑائی کی اہمیت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے، وہیں وہ اس جدوجہد میں کمیونٹی کی شمولیت اور ان کے فعال ہونے کی قوت سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔ حال ہی میں، میں نے احتشام کا ایک مختصر لیکن انتہائی طاقتور ویڈو کلپ دیکھا جو سوشل میڈیا پر گردش کر رہا تھا اور جس میں وہ مسلم کمیونٹی سے کچھ اس طرح اپیل کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں کہ مسلمان اپنے بچوں کو قرآن کے ساتھ ساتھ ہندوستانی آئین کے مطالعہ کے لیے بھی آمادہ کریں۔
ان کے الفاظ تھے ؛
آپ اپنے بچوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور ایک ہاتھ میں سمویدھان، پلیز اس کی شروعات کیجیے… آپ اپنے بچوں کو قرآن کے ساتھ سمویدھان کی بھی تعلیم اور معلومات دیں۔ اور ان کو اس کے لیے راضی کریں کہ وہ قرآن کے ساتھ سمویدھان کو بھی پڑھیں تبھی وہ اپنے حقوق کے لیے لڑ سکتے ہیں۔
احتشام صاف گو، پراعتماد اور حوصلہ مند انسان تھے۔ وہ ان معاملات کو بھی اٹھانے کے لیے تیار رہتے تھے، جس کے بارے میں لوگ دو بار سوچتے ہیں۔ کمزورلوگوں کےلیے لڑنے کی خواہش، ہندوتوا عناصر کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور مسلمانوں کے ساتھ ہی دیگرکمزور طبقات کے خلاف ہونے والے مظالم کے سامنے سینہ سپر ہونے کی جرأت نے انھیں اقتدار میں بیٹھے لوگوں اور ان کے اتحادیوں کی آنکھ کا کانٹا بنا دیا تھا۔ انہیں میڈیا کے ساتھ ساتھ خود ان کی پیشہ ور برادری نے بھی نشانہ بنایا۔
احتشام ہاشمی، فوٹو بہ شکریہ: فیس بک
ایک وکیل نے
نیوز لانڈری کو بتایا کہ اس سال 28 جنوری کو، مدھیہ پردیش کے اندور میں 300 کے قریب وکلاء نے عدالت کے اندر ہاشمی پر حملے کی کوشش کی۔ وکیل نے مزید کہا، وہ ایک مثال قائم کرنا چاہتے تھے کہ کوئی بھی وکیل اس طرح کے مقدمات لینے کی جرأت نہ کرے… ہاشمی کو پولیس کی حفاظت میں وہاں سےباہر نکلنا پڑا۔
دریں اثنا، ہندی روزنامہ بھاسکر نے 30جنوری کو ان کا نام لیے بغیرانہیں بدنام کرنے کی غرض سے ایک اسٹوی شائع کی۔ اخبار کو اپنے قانونی نوٹس میں، احتشام نے زور دے کر کہا تھا کہ یہ اسٹوری پوری طرح سے بے بنیاد اور ہتک آمیز ہے۔
احتشام کی اچانک رحلت نے بہت سے لوگوں کو سوگوار کر دیا ہے۔ امت سریواستو، دہلی میں مقیم ایک وکیل ہیں ،جنہوں نے احتشام کے ساتھ سے کام کیا ہے۔ کچھ دن پہلے جب میں نے ان سے بات کی تو وہ صدمے میں تھے۔
انہوں نے فیس بک پر احتشام کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا؛
ہم سب کو یہ یقین کرنے میں کافی وقت لگے گا کہ اب آپ ہمارے ساتھ نہیں ہیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آپ نے جس طرح سے اپنی زندگی بسر کی، آپ کے خیالات اور معاشرے کے لیے آپ کی خدمات، آپ کا بھائی چارہ اور سب کو ایک ٹیم کے طور پر متحد رکھنے کے آپ کے نظریے کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
بھوپال میں مقیم وکیل دیپک بندیلے نے مجھے بتایا کہ انہیں یہ یقین کرنے میں کئی دن لگے کہ احتشام بھائی اب ہمارے درمیان نہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا؛وہ دہلی میں ہمارے نمائندہ تھے اور جب بھی ہمیں کسی معاملے میں ان کی ضرورت ہوتی تھی تو وہ صرف ایک فون کال کی دوری پرتھے۔
غور طلب ہے کہ،مارچ 2020 میں، جب دیپک کو مدھیہ پردیش کے کچھ پولیس اہلکاروں نے اس لیے
بے دردی سےزدوکوب کیا کہ وہ ‘مسلمان جیسےنظر آرہے تھے’ تو ان کا کیس احتشام نے ہی لیا تھا۔ بقول دیپک ؛ ان کی موت صرف ایک فرد کی موت نہیں ہے،اور نہ ہی ایک قوم کا خسارہ ہے، جس کے بارے میں وہ ہمیشہ فکر مند رہتے تھے، بلکہ ہم نےایک ایسے شخص کو بھی کھو دیا جو انسانیت میں کامل یقین رکھتے تھے اور ہر شخص کی مدد کے لیے انتھک محنت کرتے تھے۔
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔)