ان دنوں ٹی وی نیوز چینلوں کی وجہ سے ریا چکرورتی لعنت ملامت، استہزا اور طعن و تشنیع کانشانہ بن چکی ہیں، جن پر بنا کسی ثبوت کے تمام طرح کے الزام لگائے گئے ہیں۔
سشانت معاملے کو لےکر مختلف ٹی وی چینلوں کی کوریج(بہ شکریہ : متعلقہ چینل/ویڈیوگریب)
کچھ وقت پہلے تک ریا چکرورتی عوام کے بیچ معروف نہیں تھیں۔ حالانکہ ٹی وی کی دنیا میں قدم رکھے ہوئے انہیں ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے، وہ فلموں میں بھی کم نظر آئی ہیں۔لیکن آج ملک میں کووڈ سے جان گنواتے ہزاروں ہندوستانی، ہندوستان اورچین کے بیچ سرحدی کشیدگی، بدحالی کے راہ پرگامزن معیشت، وبا کے بیچ انجینئرنگ اور میڈیکل کورس کاانٹرنس اگزام دینے کو مجبور لاکھوں اسٹوڈنٹ کے مسائل کے بیچ‘ریا’ ہی وہ خبر ہیں، جس کے بارے میں بڑے میڈیاادارےبات کرنا چاہتے ہیں۔
عوام کوتقسیم کرنے والے ٹی وی کے شور شرابہ اور عجلت پسندی کے بیچ ریا کی امیج ایک‘مجرم’ کی ہے، جس پر اپنے ساتھی سشانت سے پیسے وصول کرنے، ڈرگس لینے اور شاید اس کو خودکشی کے لیے اکسانے یا کم سے کم اس کے قتل کی سازش میں شامل ہونے تک کے الزام ہیں۔
ان تمام الزامات کی بنیاداس بارے میں ہوئی الٹی سیدھی باتیں، سوشل میڈیا کی گالی گلوچ اور شروع میں خودکشی سمجھے گئے موت کی سنسنی خیزلامتناہی کوریج کا گھال میل تھا۔سی بی آئی اور ای ڈی جیسی سرکاری جانچ ایجنسیوں کے ذریعے چکرورتی سے گھنٹوں پوچھ تاچھ ہوئی، جو اب بھی جاری ہے۔
روز رات کو نیوز چینلوں کے پرائم ٹائم پر، جہاں اینکر جج، جیوری، جلاد تمام کردار نبھاتا ہے، وہاں تہذیب کی تو کیا بات کی جائے، صحافت کے ہر اصول کو بالائے طاق رکھ کر ریا کو راکشش بنایا جا رہا ہے۔اس سب کے بیچ جیسی بھی مشتبہ جانکاری نکل کر آتی ہے، اس کو بنا کسی ثبوت کے عوام کے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے۔
ہندوستانی ناظر میڈیا کی اس سطح کے ہسٹیریا کا عادی ہے، لیکن اگر کبھی میڈیا کے کرتوتوں کی تاریخ لکھی جائےگی، تب ہیش ٹیگ ایس ایس آر ضرور حالیہ سالوں کے ٹاپ تین معاملوں میں سے ایک ہوگا۔کچھ ایک آدھ چینلوں کو چھوڑ دیں، تو کسی نے بھی ریا چکرورتی کو سننے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ جو انٹرویو انہوں نے دیے، ان میں وہ ایک زمینی انسان کی طرح نظر آئی ہیں، انہوں نے اپنی بات کو صبروتحمل سے اورمضبوطی کے ساتھ رکھا ہے۔
باقی کے ٹی وی میڈیا ان کے خلاف ان وحشیانہ نشریات کوجاری رکھے ہوئے ہیں۔ ٹی وی پر جو ہو رہا ہے، اس کے لیے سازش شاید ایک غلط لفظ ہو سکتا ہے، لیکن معاملے کی کوریج اور ٹون اس کے منصوبہ بند ہونے کی جانب اشارہ کرتی ہے۔سرکاری جانچ ایجنسیوں کے آدھے ادھورے ‘شواہد’سے نکلی جانکاریاں الزام لگا رہے نیوز چینلوں کے پاس پہنچتی ہیں، جہاں یہ ایک خاص نیریٹو کو بنائے رکھنے کی کوشش کرتی دکھتی ہیں۔
اناڑی جانچ کرنے والے اوراحمق میڈیا کس حد تک مل کر کام کر رہے ہیں، یہ تب پتہ چلتا ہے جب نئے زمانہ کے نوجوانوں کی زبان میں لکھاہوا ریا کا ایک پیغام ‘Imma bounce’ملک کے ایک بڑے میڈیا ہاؤس کے ذریعے چلائے جا رہے ایک چینل کی سنسنی خیز بریکنگ نیوز بن جاتا ہے کہ کیسے ایک نوجوان خاتون چیک باؤنس کرنے کی سازش کر رہی تھی۔ جبکہ دراصل اس لفظ کا مطلب ‘میں نکل رہی/رہا ہوں’ [I’m leaving] ہوتا ہے۔
غیر ذمہ دارانہ وہاٹس ایپ پیغامات آج کل کی زندگی کا حصہ بن سکتے ہیں، لیکن میڈیا اداروں کے پاس آن لائن ٹرولز کی طرح سلوک کرنے کا کوئی بہانہ نہیں ہے۔ہم کچھ چینلوں پر ہنس سکتے ہیں، ان کا مذاق اڑا سکتے ہیں، لیکن سچائی یہی ہے کہ ان کی بدزبان اور غیر ذمہ دارانہ صحافت لوگوں کی زندگیاں تباہ کر رہی ہیں۔
ریا اس معاملے میں اپنی بات رکھتے ہوئے مضبوط دکھائی دے رہی ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ روزانہ کی یہ میڈیا لنچنگ انہیں اور ان کے گھروالوں کومتاثر نہیں کر سکتی۔اس طرح کی کوریج روکنے کے لیے سرکار سے ضابطہ بنانے کو کہنا اس مرض کی غلط تشخیص ہوگی اور اس بات کا بھی بہت کم امکان ہے کہ سیلف ریگولیشن کسی کام کا ہوگا۔
حالانکہ اس کاحل ہندوستانی ناظرین کے ہاتھوں میں ہے، جنہیں اپنے ٹی وی ری موٹ کا صحیح استعمال کرنا چاہیے اور ایسے چینلوں کو دیکھنا بند کر دینا چاہیے۔ ان سے صرف نفرت کا اظہار ہی وہ چیز ہے، جس سے کوئی فرق پڑ سکتا ہے۔