1929 میں قائم پارلے میں تقریباً ایک لاکھ لوگ کام کرتے ہیں۔ کمپنی کے کٹیگری ہیڈ مینک شاہ نے کہا کہ 2017 میں جی ایس ٹی نافذ ہونے کے بعد سے کمپنی کےسب سے زیادہ بکنے والے 5 روپے کے بسکٹ پر اثر پڑا ہے۔
نئی دہلی: ہندوستان میں بسکٹ بنانے والی بڑی کمپنیوں میں سے ایک پارلے پروڈکٹس پرائیویٹ لمیٹڈ اقتصادی بحران اور دیہی علاقوں میں مانگ میں کمی آنے کے بعد پیداوار میں کمی کی وجہ سے 10 ہزار لوگوں کی چھنٹنی کر سکتی ہے۔ بدھ کو کمپنی کے ایک افسر نے اس کی جانکاری دی۔خبر رساں ایجنسی رائٹرس کے مطابق، ایشیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت میں گراوٹ کی وجہ سے کار سے لےکر کپڑوں تک ہر طرح کی فروخت کم ہو گئی ہے۔ اس کی وجہ سے کمپنیوں کو اپنی پیداوار میں کمی کرنی پڑ رہی ہے اور وہ امید کر رہی ہے کہ معیشت کی رفتار کو بڑھانے کے لئے حکومت ہند کوئی قدم اٹھائےگی۔
کمپنی کے کٹیگری ہیڈ مینک شاہ نے بتایا، ‘ پارلے بسکٹ کی فروخت میں کمی کا سیدھا مطلب ہے کہ کمپنی کو اپنی پیداوار میں کمی کرنی پڑےگی، جس کی وجہ سے 8000-10000 لوگوں کی نوکریاں جا سکتی ہیں۔ ‘انہوں نے کہا، ‘ حالات اتنے برے ہیں کہ اگر حکومت نے فوراً کوئی قدم نہیں اٹھایا تو ہم یہ قدم اٹھانے کے لئے مجبور ہو جائیںگے۔ ‘
1929 میں قائم پارلے میں تقریباً ایک لاکھ لوگ کام کرتے ہیں۔ اس میں کمپنی کے 10 پلانٹ اور 125 تھرڈ پارٹی مینوفیکچرنگ یونٹ میں براہ راست اور معاہدے پر کام کرنے والے ملازم شامل ہیں۔شاہ نے کہا، ‘ 2017 میں جی ایس ٹی نافذ ہونے کے بعد سے پارلے کے پارلے جی بسکٹ جیسے برانڈ کی فروخت میں کمی آ رہی ہے۔ ٹکیس بڑھنے کی وجہ سے کمپنی کے سب سے زیادہ بکنے والے 5 روپے کے بسکٹ پر اثر پڑا ہے۔ کمپنی کو فی پیکٹ بسکٹ کم کرنے پڑ رہے ہیں۔ اس سے بسکٹ کی مانگ کم ہوتی جا رہی ہے۔ ‘
بہت زیادہ ٹیکس کی وجہ سے پارلے کو ہر پیکٹ میں بسکٹ کی تعداد کم کرنی پڑ رہی ہے، جس کی وجہ سے دیہی ہندوستان کے کم آمدنی والے گراہکوں کی مانگ پر اثر پڑ رہا ہے۔بتا دیں کہ، پارلے کے ریونیو کا آدھا سے زیادہ حصہ دیہی ہندوستان کے کم آمدنی والے گراہک سے آتا ہے، جہاں پر ملک کی دو تہائی آبادی رہتی ہے۔شاہ نے کہا، ‘ یہاں پر گراہک قیمت کو لےکر بہت سنجیدہ رہتے ہیں۔ وہ اس کو لےکر بےحد چوکنے رہتے ہیں کہ ایک طےشدہ قیمت میں ان کو کتنے بسکٹ مل رہے ہیں۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘ پارلے نے گزشتہ سال سرکار کی جی ایس ٹی کونسل کے ساتھ سابق وزار خزانہ ارون جیٹلی سے بات کی تھی اور ان سے ٹیکس کی شرحوں کا تجزیہ کے لئے کہا تھا۔ ‘غورطلب ہے کہ، پارلے کا سالانہ ریونیو 4 بلین ڈالر سے زیادہ کا ہے۔ اس کا ہیڈکوارٹرممبئی میں ہے۔ پارلے گلوکو کا نام پارلے-جی رکھنے کے بعد 1980 اور 90 کی دہائی میں یہ ملک بھر میں ایک مشہور بسکٹ بن گیا تھا۔ سال 2003 میں پارلے-جی کو دنیا کا سب سے زیادہ بسکٹ بیچنے والے برانڈ کے طور پر پہچان ملی تھی۔
شاہ نے کہا، ‘ ہندوستان کی اقتصادی ترقی میں سستی کی وجہ سے پہلے سے ہی اس کی اہم آٹو انڈسٹری میں ہزاروں لوگوں کی نوکری چلی گئی ہے اور یہ مانگ میں گراوٹ کو تیز کر رہی تھی۔ ‘مارکیٹ ریسرچ فرم نیلسن نے کہا کہ پچھلے مہینے ہندوستان کی کنزیومر گڈ انڈسٹری کو بحران کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ دیہی علاقوں میں خرچ میں کمی دیکھی گئی اور چھوٹے مینوفیکچررز کو اس سست معیشت میں مقابلہ جاتی فائدے کے مد نظر نقصان اٹھانا پڑا۔
حالانکہ، پارلے واحد اشیائےخوردنی پیداوار کمپنی نہیں ہے جس کی مانگ کم ہو رہی ہو۔پارلے کا اہم حریف برٹانیہ انڈسٹریز لمیٹڈ کے مینجنگ ڈائریکٹر ورون بیری نے اس مہینے کی شروعات میں کہا تھا کہ محض 5 روپے کا سامان خریدنے کے لئے گراہک دو بار سوچ رہے ہیں۔ایکسپرٹس کے ساتھ ایک کانفرنس میں بیری نے کہا تھا،’یقینی طور پر اکانومی میں کچھ سنگین مسئلہ ہے۔’