میانمار میں روہنگیا باشندوں کا قتل، ’فوجی اعتراف محض آغاز‘

04:49 PM Jan 08, 2019 | عاطف توقیر/ ڈی ڈبلیو اردو

عالمی تنظیموں کے مطابق میانمار میں سکیورٹی دستوں کے ہاتھوں دس روہنگیا باشندوں کے قتل کا اعتراف سچائی کا محض ایک حصہ اور ریاست راکھین میں اس مسلم اقلیت کے خلاف سرکاری فورسز کی پرتشددکارروائیوں کی ایک ’چھوٹی سی مثال‘ ہے۔

انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں کا کہنا ہے کہ میانمار کی فوج کے سربراہ کی جانب سے راکھین ریاست میں دس روہنگیا مسلمانوں کے قتل کا اعتراف اس ریاست میں روہنگیا برادری کے خلاف انسانی حقوق کی پامالیوں کی صرف ’ایک چھوٹی سی مثال‘ ہے اور حقیقت اس سے کہیں زیادہ بھیانک ہے۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کے مطابق میانمار کی فوج کی جانب سے دن نامی گاؤں میں ملکی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں دس روہنگیا مسلمانوں کے قتل کا اعتراف اس برادری کے خلاف وسیع تر بنیادوں پر تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی کارروائیوں کا ایک نہایت چھوٹا سا حصہ ہے۔ یہ واقعہ گزشتہ برس سمتبر کی دو تاریخ کو پیش آیا تھا، جس میں میانمار حکومت کے مطابق کچھ سکیورٹی اہلکاروں نے مقامی بودھ بھکشوؤں کے ساتھ مل کر دس روہنگیا مسلمانوں کو قتل کر دیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ روہنگیا باشندوں کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کی بابت بین الاقوامی تحقیقات کی جانا چاہییں۔

انسانی حقوق کی تنظیم فورٹیفائی رائٹس کے شریک بانی اور چیف ایگزیکٹیو آفیسر میتھیو سمِتھ کے مطابق میانمار کی ریاست راکھین کے شمالی حصے میں اسی طرز کی خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دی گئی ہے، جہاں روہنگیا عسکریت پسندوں کے ایک حملے کے بعد فوجی کریک ڈاؤن کا آغاز ہوا تھا۔

راکھین سے فرار کے بعد بنگلہ دیش میں ایک روہنگیا مہاجر خاتون اپنے جسم پر تشدد کے نشانات دکھاتے ہوئے

گزشتہ برس اگست کے اواخر میں شروع ہونے والے اس کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ساڑھے چھ لاکھ سے زائد روہنگیا باشندے اپنا گھر بار چھوڑ کر ہمسایہ ملک بنگلہ دیش کی طرف ہجرت پر مجبور ہو گئے تھے۔ایک ای میل کے ذریعے میتھیو سمِتھ نے خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا، ’’قتل عام اور اجتماعی قبریں راکھین ریاست کے شمالی حصے کے تین قصبوں میں ایک بڑی تلخ حقیقت ہیں۔‘‘

 یہ بھی پڑھیں: فوج نے روہنگیا مسلمانوں کا قتل کیا، میانمار کا اولین اعتراف

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اس نے متعدد دیہات میں فوج کے ہاتھوں قتل عام، جنسی زیادتیوں  اور پورے کے پورے گاؤں نذر آتش کیے جانے سے متعلق ’واضح شواہد‘ جمع کیے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے علاقائی ڈائریکٹر برائے جنوب مشرقی ایشیا اور پیسیفک جیمز گومیز کا کہنا ہے کہ میانمار میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے متعلق شواہد پر مبنی دستاویزات جمع کی گئی ہیں۔

میانمار کی فوج پر اس کریک ڈاؤن کے دوران بہت سی روہنگیا مسلم خواتین کے ریپ کے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں

ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا کے لیے نائب ڈائریکٹر فِل رابرٹسن نے میانمار کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے حقائق کی جانچ کرنے والے کمیشن کو ملک میں داخلے کی اجازت دے اور احتساب کا راستہ ہموار کر کے اس بابت اپنی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔

واضح رہے کہ بدھ کے روز میانمار کی فوج کے سربراہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ دس روہنگیا مردوں کو یکم ستمبر کو ایک گاؤں میں گرفتار کیا گیا تھا، جب کہ ان سے تفتیش کے بعد انہیں اگلے روز ہلاک کر دیا گیا تھا۔

 

The post میانمار میں روہنگیا باشندوں کا قتل، ’فوجی اعتراف محض آغاز‘ appeared first on The Wire - Urdu.