اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف کے مطابق دنیا میں ہر پانچویں لڑکے کی شادی کم عمری میں ہی کر دی جاتی ہے۔ اٹھارہ برس کی عمر سے قبل ہی دلہا بنا دیے جانے والے ایسے بچوں کی سالانہ تعداد ایک سو پندرہ ملین بنتی ہے۔
اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں جن لڑکوں کو بالغ ہونے سے پہلے ان کے بچپن میں ہی شادی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے، انہیں دراصل مختلف سماجی روایات کے نام پر اور متنوع وجوہات کے باعث ان کے بچپن سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کی طرف سے جمعہ سات جون کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ بچپن کی شادیاں ایک ایسا سماجی مسئلہ ہیں، جو صرف لڑکیوں کو ہی نہیں بلکہ لڑکوں کو بھی بری طرح متاثر کرتا ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ اس طرح ہر سال یہ 115 ملین یا تقریباﹰ ساڑھے گیارہ کروڑ لڑکے نہ صرف بہتر تعلیم کے حصول سے محروم رہ جاتے ہیں بلکہ انہیں اپنے لیے روزگار کے بہتر مواقع کی تلاش میں بھی بہت مشکلات پیش آتی ہیں۔
اپنی نوعیت کی اولین رپورٹ
عالمی ادارہ برائے بہبود اطفال کی بین الاقوامی سطح پر سات جون کو جاری کردہ اس نئی رپورٹ کے مطابق تازہ ترین مطالعاتی جائزے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ عالمی سطح پر ہر پانچویں لڑکے کی شادی اس کی 15 ویں سالگرہ سے بھی پہلے کر دی جاتی ہے۔ یہ مطالعاتی جائزہ دنیا کے 82 ممالک میں مکمل کیا گیا اور ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اس میں اس امر کا جائزہ لیا گیا کہ بین الاقوامی سطح پر کم عمر لڑکوں کی شادیوں کی صورت حال کیا ہے۔
اس جائزے کے مطابق دنیا میں کم عمر لڑکوں کی سب سے زیادہ شادیاں وسطی افریقی جمہوریہ میں کی جاتی ہیں، جہاں یہ تناسب 28 فیصد بنتا ہے۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر نکاراگوآ کا نام آتا ہے جہاں یہ شرح 19 فیصد بنتی ہے جبکہ مڈغاسکر میں یہی شرح 13 فیصد ریکارڈ کی گئی۔
تعلیم اور روزگار بھی متاثر
یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہینریئٹا فور نے اس بارے میں اپنے بیان میں زور دے کر کہا کہ کم عمر بچیوں کی طرح کم عمر بچوں کی شادیاں بھی ان کی تعلیم اور عملی زندگی میں روزگار کے بہتر مواقع کے لحاظ سے منفی اثرات کا سبب بنتی ہیں اور ایسے بچوں کو یوں ان کے بچپن سے محروم کر دینے کی روک تھام انتہائی ضروری ہے۔
انہوں نے کہا، ”کم عمر بچوں کی شادیاں کر کے ان کے کندھوں پر بالغ انسانوں جیسی وہ ذمے داریاں ڈال دی جاتی ہیں، جن کے لیے وہ تب تک تیار نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ بچپن کی شادیاں ان بچوں کو جلد ہی والدین بھی بنا دیتی ہیں، جس کے نتیجے میں ان پر وقت سے بہت پہلے ہی اپنے بچوں کی کفالت کا بوجھ بھی پڑ جاتا ہے۔‘‘
765 ملین شادی شدہ بچے
اس جائزے کے مطابق عالمی سطح پر ابھی تک یہ تناسب زیادہ ہے کہ کم عمری میں شادیوں کے حوالے سے لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کی صورت حال زیادہ تشویش ناک ہے۔ یونیسیف کے مطابق اس وقت 20 سے لے کر 24 برس تک کی عمر کی خواتین میں سے 20 فیصد یا ہر پانچویں خاتون ایسی ہوتی ہے، جس کی شادی 18 سال سے بھی کم عمر میں ہو چکی ہوتی ہے۔
اس کے برعکس اس وقت 20 سے 24 سال تک کی عمر کے مردوں میں 18 برس سے بھی کم عمر میں شادی شدہ ہونے کا تناسب ہر 30 مردوں میں سے ایک بنتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر اس وقت دنیا میں نابالغ لیکن شادی شدہ لڑکوں اور لڑکیوں کی مجموعی تعداد تقریباﹰ 765 ملین یا ساڑھے 76 کروڑ بنتی ہے۔
اقوام متحدہ کے اس ادارے نے اس بات کو اپنا ایک مرکزی ہدف بنا رکھا ہے کہ دنیا بھر میں سن 2030ء تک بچوں کی کم عمری کی شادیوں پر مکمل پابندی عائد کر دی جانا چاہیے۔
(م م / ع ا / روئٹرز، ڈی پی اے)