گزشتہ پانچ سالوں میں یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت نے خواتین، اقلیتوں اور اختلاف رائے کا اظہار کرنے والوں پر ہوئے جبر واستبدادکو نظر انداز کیا ہے یا اس عمل میں خود اس کا رول رہا ہے۔ اس صورتحال میں بھی ستم ظریفی یہ ہے کہ بی جے پی ریاست میں امن و امان کے خودساختہ ریکارڈ کو کامیابی کےطور پر پیش کر رہی ہے۔
علامتی تصویر، فوٹو : پی ٹی آئی
قانون کی حکمرانی کے معاملے میں اتر پردیش کو ئی مثالی ریاست نہیں ہے۔ بی جے پی حکومت کے پچھلے پانچ سالوں میں ایسےکئی واقعات رونما ہوئے ہیں، جہاں لاء اینڈ آر ڈر کے ادارے عوام کی توقعات پر پورا اترنے میں بالکل ناکام رہے ہیں۔
حکومت نے یا تو خواتین، اقلیتوں، غریبوں اور اختلاف رائے کا اظہار کرنے والوں پرہوئے جبرواستبداد کو نظر انداز کیا ہے ، یا پھرتشدد برپا کرنے میں خود اس کا اہم رول رہا ہے۔ اس صورتحال میں بھی ستم ظریفی یہ ہے کہ بی جے پی اترپردیش میں امن و امان کے اپنے ریکارڈ کو بڑی کامیابی کے طور پر پیش کر رہی ہے۔
اس کڑی میں 29 جنوری 2022 کو وزیر داخلہ امت شاہ نے سماج وادی پارٹی کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کو ان کے دور حکومت (2012-17) میں امن و امان کی خراب صورتحال کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے پانچ سالوں میں حالات بہت بہتر ہوئے ہیں۔
شاہ کا یہ دعویٰ؛ بنیادی طور پر دو وجہوں سے مشکوک جان پڑتا ہے۔
اول، شاہ کے اس بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ لاء اینڈ آرڈر کی سطح کا اندازہ لگانے کا ان کا طریقہ غلط ہے۔ لاء اینڈ آرڈر کے احترام کو ایک خوبی سمجھنے کے بجائے شاہ اپنے مقررہ معیاروں سےمطمئن نظر آتے ہیں،کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ بی جے پی حکومت نے سابقہ ایس پی حکومت سے بہتر کام کیا ہے۔
اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو قانون کی حکمرانی کا احترام مخصوص ہے، یا ہر ایک کے لیے مختلف ہے۔ اس طرح سے قانون کی حکمرانی کا ایک ایسا پیمانہ طے ہوتا ہے جو اس بات سےمتعین نہیں ہوتا کہ قانون کی حکمرانی ‘استثا سے پاک انسانی خصوصیت’ہے، بلکہ وہ جو اپنی سہولت سے طے کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر جرائم کی تعداد میں ذرا سی گراوٹ کا جشن منانا قانون کی حکمرانی کا مذاق اڑانا ہے۔اس سے عوام کی تکلیف کو کمترسمجھا جاتا ہے اور یہ موجودہ حکومت کی بیہودہ سوچ کو بے نقاب کرتا ہے۔ یہ قانون کی حکمرانی کے نام پر عوام کو دھوکہ دینے کا ایک غیر یقینی پیمانہ تیار کرتا ہے۔
ملک کے وزیر داخلہ کا اس طرح کا بیان نہ صرف ہندوستانی سیاست کی ایک پریشان کن تصویر پیش کرتا ہے بلکہ قانون کی حکمرانی کے لیے حکومت کے مخلصانہ عزم کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
دوم، شاہ کا یہ بیان اتر پردیش میں پچھلے پانچ سالوں کی حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ ذیل میں دی گئی تفصیلات اتر پردیش میں لاء اینڈ آرڈر کی خراب صورتحال کے ساتھ ساتھ ان افسوسناک صورتحال پر بھی روشنی ڈالتی ہےجو عوام پر مسلط کی گئی ہیں ۔
پولیس اختیارات کا غلط استعمال
سال 2020-21 میں نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے ملک بھر میں پولیس فورس کے ذریعے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے 11130 مقدمات درج کیے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق
اتر پردیش سے تھا۔
اقوام متحدہ کے چار خصوصی نمائندوں نے مارچ 2017 سے دسمبر 2018 کے درمیان اتر پردیش میں پولیس کے ذریعے انجام دیے گئے
مبینہ 59 قتل کے الزامات پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے ایسے 15 معاملوں کی مفصل رپورٹ حکومت ہند کو سونپی ۔
نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے 2017 اور 2021 کے درمیان پولیس حراست میں تشدد پر اتر پردیش حکومت کو پانچ نوٹس جاری کیے ہیں۔ لیکن حکومت نے ابھی تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا ہے۔
یہ سچائی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنادیتی ہے کہ نہ تو ہندوستان کے پاس اس طرح کے تشدد سے نمٹنے کا کوئی قانون ہے اور نہ ہی ہندوستان ‘مظالم اور دیگر ظالمانہ، غیر انسانی یا ذلت آمیز سلوک یا سزا کے خلاف اقوام متحدہ کے معاہدہ (1984)’ کا رکن ہے۔
نیشنل کمپین اگینسٹ ٹارچر کی
ایک رپورٹ کے مطابق، سال 2019 میں ہندوستان میں پولیس حراست میں ہوئیں 125 موتوں میں سے سب سے زیادہ 14 موتیں اتر پردیش میں ہوئیں۔
اختلاف رائے کا اظہار کرنے والوں کے خلاف کارروائی
جولائی 2020 میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی کنونشن کے آرٹیکل 21 پر اپنے
تبصرہ نمبر 37 میں زور دے کر کہا تھاکہ انٹرنیٹ کے ذریعے یا شخصی طور پر پرامن احتجاج کرنا ایک بنیادی انسانی حق ہے۔
اسی طرح سال 2012 میں
سپریم کورٹ نے بھی کہا ہے کہ احتجاج کا حق بنیادی حق ہے۔
لیکن اتر پردیش میں شہریت ترمیمی بل کے خلاف مظاہروں کے دوران ریاستی پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں کئی لوگ
مارے گئےتھے، حالانکہ انتظامیہ نے اس سے انکار کیا ہے۔ اس کے علاوہ
ہزاروں لوگوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا۔
نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن اور
اتر پردیش ہیومن رائٹس کمیشن دونوں نے شہریت ترمیمی بل کے خلاف مظاہروں کے دوران کی گئی کارروائی پر اتر پردیش پولیس کو نوٹس جاری کیا تھا۔
دستیاب اعداد و شمار کے مطابق، شہریت ترمیمی بل کے خلاف مظاہروں کے دوران اتر پردیش میں
انٹرنیٹ کو سب سے زیادہ بار بند کیا گیا تھا۔
زرعی قوانین کے خلاف حالیہ مظاہروں کے دوران کئی
گرفتاریاں اور ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ تاہم بعد میں ان قوانین کو مرکزی حکومت نے منسوخ کر دیا تھا۔
انکاؤنٹر
مارچ 2017 سے اگست 2021 کے درمیان اتر پردیش پولیس نے
انکاؤنٹر کے دوران 146 لوگوں کو مارا تھا۔
اس عرصے میں 8472 انکاؤنٹر ہوئے ، جن میں 3302 افرادپر پولیس نے فائرنگ کی اور انہیں زخمی کیا۔ ان میں سے کئی لوگ پیروں میں گولی لگنے کی وجہ سے معذور ہو چکے ہیں۔ اگست 2020 تک انکاؤنٹر میں مارے جانے والوں میں سے
37 فیصدی مسلم کمیونٹی سے تھے۔
جنوری 2019 میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے ان غیر عدالتی ہلاکتوں پر
تشویش کا اظہار کیا تھا۔ وہ خاص طور پر اتر پردیش پولیس انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کے تشدد بھڑکانے، تشدد کو جائز قرار دینے اور تشدد کی اجازت دینےسے متعلق بیانات پر فکر مند تھے۔
نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے انکاؤنٹرسے متعلق ہلاکتوں پر اتر پردیش حکومت کو کم از کم چار
نوٹس بھیجا ہے۔ سال 2018 میں سپریم کورٹ نے بھی فرضی انکاؤنٹر کے معاملے میں اتر پردیش حکومت کو
نوٹس بھیجا تھا۔
خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ
نیشنل کمیشن فار ویمن کے مطابق، سال 2021 کے پہلے آٹھ مہینوں میں ہندوستان میں خواتین کے خلاف جرائم کی شکایات میں
46 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان میں سے آدھے سے زیادہ کیس اتر پردیش سے تھے۔
اس دوران اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ
یوگی آدتیہ ناتھ نے انتہائی غیر سنجیدہ انداز میں کہا تھا کہ اتر پردیش میں عورتیں، بھینس اور بیل سب محفوظ ہیں۔ سال 2018 میں ملک میں خواتین کے خلاف سب سے زیادہ جرائم اتر پردیش میں ہوئے۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کےاعدادوشمار کےمطابق، سال
2018 میں خواتین کے خلاف جرائم کے 378277 واقعات میں سے سب سے زیادہ 59445 معاملے اتر پردیش سے تھے۔ اسی طرح سال
2019 میں بھی ملک میں سب سے زیادہ 59853 معاملے اتر پردیش میں تھے۔
اتر پردیش کے ہاتھرس ضلع میں ایک دلت لڑکی کےریپ اور قتل کے بعد اقوام متحدہ کے ایک عہدیدار نے بھی ریاست میں خواتین اور لڑکیوں کے تحفظ پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
ہندوستان میں اقوام متحدہ کے کنوینرنے
کہا کہ وہ ملک میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی تشدد سے بہت افسردہ اور فکر مند ہیں۔
ہاتھرس گینگ ریپ متاثرہ کے آخری رسومات کی ادائیگی کرتے پولیس اہلکار۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
اقلیتوں کو منظم طریقے سے نشانہ بنانا
ایک رپورٹ کے مطابق،2021 کے پہلے نو مہینوں میں ملک بھر میں عیسائیوں کے خلاف
تشدد کے 300 مقدمات درج کیے گئے۔ تمام ریاستوں میں سے اتر پردیش میں سب سے زیادہ معاملے درج کیے گئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر حملےدلت اور اور عیسائیوں پر ہوئے تھے۔
سال 2019 میں ملک میں ایس سی کے لوگوں کے خلاف سب سے زیادہ جرائم اتر پردیش میں ہوئے۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق، ملک میں ایس سی کے خلاف ہوئےجرائم کے 45852 مقدمات میں سے ایک چوتھائی معاملے اتر پردیش سے تھے۔
نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق، 2016-19 کے دوران کمیشن نے دلتوں اور اقلیتوں کے خلاف مظالم کے 2008 مقدمات درج کیے، جن میں سے 40 فیصد سے زیادہ اتر پردیش سے تھے۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے 2019 تک کے
دستیاب اعداد و شمار کے مطابق، 65 فیصد سے زیادہ قیدی ایسی سی ایس ٹی اور اوبی سی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ملک میں سب سے زیادہ قیدیوں کی تعداد اتر پردیش میں ہے۔ ایس سی ، اوبی سی اور ‘دیگر’ سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر قیدی بھی اتر پردیش میں ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی
رپورٹ کے مطابق، بی جے پی کے ارکان ریاست میں گائے کے گوشت کے استعمال اور مویشیوں کی تجارت کے خلاف چلائے جانے والے مہم کے ذمہ دار ہیں، جن کے اکثر شکار مسلمان اور دلت ہی ہیں۔
ذرائع ابلاغ اور صحافیوں پر پابندیاں
نومبر 2020 میں
ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو خط لکھا تھاکہ وہ پریس کی آزادی کے تحفظ اور صحافیوں کے حقوق اور سلامتی سےمتعلق مسائل پر مناسب اقدامات کریں۔ گلڈ نے چھ ایسےمعاملوں کونشان زد کیا جن میں صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا یا گرفتار کیا گیا تھا۔
رائٹس اینڈ رسک اینالیسس گروپ کی جون 2020 کی
رپورٹ کے مطابق، کووڈ-19 کی وجہ سے 25 مارچ 2020 سے 31 مئی 2020 کے درمیان لاک ڈاؤن کے دوران ملک بھر کے 55 صحافیوں کوکام کرنے کے دوران نشانہ بنایا گیا تھا۔
اس دوران صحافیوں پر سب سے زیادہ حملے اتر پردیش میں ہوئے تھے۔ صحافیوں پر حملوں اور اظہار رائے کی آزادی پر پابندیوں کے
واقعات بڑے پیمانے پر منظر عام پر آئے۔
فسادات اور جھوٹے مقدمات
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق،
2019 میں اتر پردیش میں 5714، سال
2018 میں 8908 اورسال
2017 میں 8990 فسادات کے معاملے درج کیے گئے تھے۔
دسمبر 2018 میں مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ ہنس راج گنگارام اہیر کے
لوک سبھا میں دیے گئے جواب کے مطابق، 2017 میں اتر پردیش میں فرقہ وارانہ فسادات کے 195 واقعات رونما ہوئے۔
سال 2018 اور 2020 کے درمیان اتر پردیش حکومت نے 120 معاملات میں قومی سلامتی ایکٹ، 1980 کو لاگو کیا۔ تاہم ان میں سے 94 مقدمات کو
الہ آباد ہائی کورٹ نے خارج کر دیا ہے۔ ان میں سے 41 معاملے گائے کے ذبیحہ سے متعلق تھے اور تمام ملزمان اقلیتی برادری سے تھے۔
عدالت نے اسے قومی سلامتی ایکٹ کا غلط استعمال مانا اور یہ بھی کہا کہ ان تمام ایف آئی آر میں لکھی گئی بہت سی باتیں ایک جیسی (کاپی اور پیسٹ) ہیں۔
فسطائی قوتوں کی تجربہ گاہ
پچھلے پانچ سالوں میں ہوئے جبرواستبداد کا یہ ایک سطحی گوشوارہ ہے۔ جو جماعت فرقہ وارانہ منافرت، اندھی حب الوطنی اورحاشیے پر پڑے لوگوں کے استحصال کے ذریعے اپنا پیٹ پالتی ہے، وہی ان کارناموں کا جشن منا سکتی ہے۔
اگر اتر پردیش اس مثالی طرز حکومت کا ماڈل ہے جسے بی جے پی لانا چاہتی ہے تو ہندوستان فسطائیت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اگر جمہوریت میں مندرجہ بالا واقعات کو عوامی سطح پر جائز اور صحیح بتایا جا سکتا ہے تو ایسی جمہوریت کا معیاریقینی طور پر مشکوک ہے۔
ہندوستان ایک برے دور سے گزر رہا ہے۔ اقلیت، خواتین، کارکن، وکیل، دانشور اور وہ تمام لوگ جو اپنے اختلاف کا اظہار کرنے کی جرأت کرتے ہیں خوف کے عالم میں جی رہے ہیں۔
پوٹیمکن ولیج(خامیوں پر پردہ ڈال کر سب ٹھیک دکھایا جائے) جیسانظر آتا یہ ملک ، ان طاقتوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہو چکا ہے جو ایک طویل عرصے سے ہندوستان کی روح کو تباہ کرنا چاہتی تھیں۔ اتر پردیش ان کی تجربہ گاہ ہے جس میں انہوں نے سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔
اگر دہلی کی طرف جانے والی سڑک لکھنؤ سے ہو کرگزرتی ہے تو اتر پردیش میں قانون کی حکمرانی کی سطح اس نفرت اور غلاظت کو ظاہر کرتی ہے جس میں اس ملک کو جھونکا جا رہا ہے۔
یوگی حکومت کے برے کارناموں کی ملک کے وزیر داخلہ کے ذریعےتعریف کرنا اس بات کی نشاندہی ہے کہ ہم کس دور میں جی رہے ہیں۔ جھوٹ بولنا ہندوستانی سیاست کا بنیادی جوہر بن چکا ہے۔اس لیے ترقی پسند قوتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس مکر و فریب کو بے نقاب کریں، اس بے رحم حقیقت کو بیان کریں اوربے آوازوں کی آوازبنیں۔
(مصنف ڈاکٹر رام منوہر لوہیا نیشنل لاء یونیورسٹی لکھنؤ میں پڑھاتے ہیں۔)
اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔