ہندوستان کی وزارت دفاع کے ریسرچ ڈپارٹمنٹ یعنی ڈی آر ڈی او کے ڈائریکٹرکی سطح کے سائنسدان پروفیسر پردیپ کورولکر کی پاکستان کے لیے جاسوسی کے الزام میں گرفتاری پر ہندوتوا تنظیموں کو کیوں سانپ سونگھ گیا ہے؟
وی ڈی ساورکر کی یاد میں منعقد ایک تقریب میں پردیپ کورولکر۔ (فوٹو بہ شکریہ:ٹوئٹر/ @zoo_bear)
آزادی کے بہ مشکل ایک دہائی بعد ہی پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہروکے دور میں پہلے سےچلے آ رہے ہندوستانی فوج کے تکنیکی ترقی کے اداروں اور ڈیفنس سائنس آرگنائزیشن وغیرہ کو شامل کرکے 1958 میں تشکیل دیا گیا ڈی آر ڈی او (ڈیفنس سائنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن) جس کو ہندوستان کی وزارت دفاع کی ریسرچ ونگ کا درجہ حاصل ہے، وہ ان دنوں مختلف وجوہات سے سرخیوں میں ہے۔
معلوم ہو کہ ملک کے مختلف حصوں میں بنائی گئی اپنی پچاس سے زیادہ لیبارٹریوں کے ذریعے سیکورٹی کے لیے بے حد ضروری ‘اگنی’ اور پرتھوی سیریز کے میزائل، لائٹ کامبیٹ ایئر کرافٹ، تیجس؛ آکاش، جس کے تحت رڈاروں کےمختلف رینج بن رہے ہیں اور الکٹرانک وارفیئرسسٹم تیار کیا جا رہا ہے، وہاں ایک سینئر ڈائریکٹر لیول کا افسر جو ایک سائنسدان بھی ہے، پاکستان کے ساتھ جاسوسی کرنے کے الزام میں پکڑا گیا ہے، جس کا نام پ
روفیسر پردیپ کورولکر ہے۔
پونے کے نوتن مراٹھی ودیالیہ سے اسکولی تعلیم حاصل کرنے والے اس شخص کے بارے میں اس بات کے
پختہ شواہد ہیں کہ وہ گزشتہ اکتوبر سے پاکستان کی آئی ایس آئی کی کسی خاتون ایجنٹ کے ساتھ رابطے میں تھا اور وہاٹس ایپ، ٹیلی فون کال اور لیپ ٹاپ کے ذریعےخفیہ معلومات پاکستان کو بھیجتا تھا، اس کے موبائل، لیپ ٹاپ وغیرہ بھی تفتیشی افسران نے برآمد کر لیے ہیں اور اس کے بیرون ملک سفر کی تفتیش بھی جاری ہے۔
میڈیا: خاموشی کی سازش!
ہندوستان کا مین اسٹریم میڈیا اس اہم گرفتاری کے بارے میں کافی دیر تک خاموش رہا – جس نے ہندوستانی محکمہ دفاع کے اہلکاروں میں تشویش کی لہر دوڑا دی، صرف چند قومی اخبارات نے حقائق کو پیش کرنے کی زحمت کی اور چند صوبائی اخباروں نے سچ کو سامنے لانے کی بے باک کوشش کی ہے۔
ویسے تو مین سٹریم میڈیا کی یہ خاموشی پچھلے نو سالوں سے گویا اس کی پہچان بنی ہوئی ہے، جس کے تحت ملک کی حکمران جماعت کو مضطرب کرنے والے معاملات پر اس نے ایسا ہی رخ اختیار کیا ہواہے ۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ڈی آر ڈی او جیسے اہم ادارے میں، ڈائریکٹرکی سطح کے شخص- پردیپ کورولکر ڈائریکٹر، سسٹم انجینئرنگ لیبارٹری آف دی ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ اسٹیبلشمنٹ، کے عہدے پر فائز تھے، جس نے کئی ملٹری انجینئرنگ آلات اور ڈیزائن کی تیاری میں اہم رول ادا کیا تھا اور جو میزائل لانچرز اور سبسانک کروز آلات کی تیاری میں بھی شامل تھا – کی یہ گرفتاری، جو کہ ایک طرح سے پڑوسی ملک کی ہندوستان کے محکمہ دفاع میں ایک قسم کی دخل اندازی کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے، میڈیا کی نظروں سے اوجھل ہے۔
مین اسٹریم میڈیا کے رخ کااشارہ اسی وقت ملا تھا، جب ‘اے این آئی’ جو ہندوستانی خبر رساں ایجنسی ہے اور
اقتدار کے اداروں کے قریب سمجھی جاتی ہے، کی طرف سے اس معاملے میں پہلی رپورٹ جاری ہوئی۔ اسے غلطی سے کہہ لیں یا جان بوجھ کر، لیکن پوری رپورٹ میں ملزم
پروفیسر پردیپ کورولکر کا نام غائب تھا، صرف ان کی داڑھی والی تازہ ترین تصویر جاری کی گئی تھی۔ اس تصویر سے کیااشارے ملتے تھے،یہ سمجھنے کے لیے زیادہ ذہنی ورزش کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
قابل ذکر ہے کہ اس شخص کی مشکوک سرگرمیوں کے بارے میں تحقیقاتی ایجنسیوں کوبہت پہلے ہی اشارے مل گئے تھے اورجنوری کے مہینے میں ہی اس کا موبائل اور لیپ ٹاپ ضبط کر لیا گیا تھا۔ اور اس حقیقت کے باوجود کہ یہ انکشاف انتہائی سنگین نوعیت کا ہے، جس کے ہندوستان کے سیکورٹی شعبے پر طویل مدتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں،اس بات پر ابھی سے ہی شکوک و شبہات کے اظہار کیے جا رہے ہیں کہ کیا اس معاملے کی تحقیقات تہہ تک پہنچے گی یا اسے بھی لمبے وقت تک لٹکا کر رفع دفع کر دیا جائے گا۔
اتنا بڑا جرم اور صرف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات؟
سب سے اہم سوال اس سنگین معاملے کی تحقیقات سےمتعلق ہے۔ جیسے ہی معاملے کا انکشاف ہوا کہ پاکستان کے لیے جاسوسی کرنے والے پروفیسر پردیپ کورولکر کا نام سامنے آیا، تواس کی تحقیقات ریاست کے اے ٹی ایس یعنی انسداد دہشت گردی اسکواڈ کو سونپ دی گئی، جبکہ کیس کی کلید، ملزم کے غیر ملکی دوروں سے متعلق ہیں۔
اس معاملے کے بہانے اس بات کی بھی چھان بین ضروری ہے کہ کیا کرولکر کو مستثنیٰ قرار دیا جائے یا ان کے ساتھ رابطے میں رہنے والے بہت سے لوگ اس میں ملوث ہیں۔ کیا ریاستی سطح کا اے ٹی ایس اس طرح کی تحقیقات کرنے کا اہل ہے اور وہ اس میں ماہر ہے؟
ہمیں یاد ہوگا کہ 2008 کے دہشت گردانہ حملے کے بعد مرکزی سطح پر ایسے معاملات کی تحقیقات کے لیے این آئی اے (قومی تحقیقاتی ایجنسی) تشکیل دی گئی تھی – جسے اس معاملے میں زیادہ تجربہ کار سمجھا جاتا ہے۔ کیوں اس کی تحقیقات ابھی تک اس ایجنسی کے حوالے نہیں کی گئی؟
درحقیقت، نہ صرف اے ٹی ایس کی اپنی حدود ہیں، بلکہ جہاں تک مہاراشٹر اے ٹی ایس کا تعلق ہے، اس کے کام کاج میں پیشہ ورانہ اور منصفانہ نقطہ نظر کی کمی پر سوال اٹھتے رہے ہیں۔ یہ بات بھی تاریخ بن چکی ہے کہ مہاراشٹر اے ٹی ایس کے سربراہ جب ہیمنت کرکرے کی شہادت کے بعد کس طرح اس نے ہندوتوا دہشت گردی کے تمام معاملات کو گڈمڈ کر دیا تھا اور بعد میں اس میں ملوث ہر ملزم بری ہوتے چلے گئے تھے۔
دراصل، ہیمنت کرکرے نے عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد مالیگاؤں بم دھماکے کے واقعہ (2008) کی
تحقیقات کو جس طرح آگے بڑھایا تھا، اس نے قومی سطح پر پھیلے ہندوتوا دہشت گردی کے بڑے نیٹ ورک کو بے نقاب کیا تھا، جس نے ہندوتوا جماعتوں میں زبردست ہلچل مچا دی تھی۔
جیسے ہی یہ بات سامنے آئی کہ وہ کس طرح سماجی خدمت اور ہندو اتحاد کے نام پر سماج میں تشدد کو بڑھاوا دے رہا ہے، ان میں بےچینی بڑھ گئی تھی۔ اور پھر2008 کے دہشت گردانہ حملوں میں وہ بھی شہید ہو گئے۔
وہ کس طرح مارے گئے اس کا مکمل انکشاف کبھی نہ ہو سکا۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ جہاں تک ملزم پر لگائے گئے الزامات کا تعلق ہے،ان پر صرف آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت الزام لگائے گئے ہیں۔ نہ تو سیڈیشن کے الزام لگائے گئے ہیں اور نہ ہی قومی سلامتی سے کھلواڑ کےالزام عائد کیے گئے ہیں۔ اور یہ اس حقیقت کے باوجود کہ اس کی گرفتاری کے بعد جاری ہونے والے سرکاری بیان میں
واضح طور پر کہا گیا تھا کہ کس طرح کرولکر نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کرکے ‘حساس سرکاری خفیہ معلومات دشمن ملک کو پہنچائیں، جو ہندوستان کے لیے خطرہ بن سکتا ہے’۔
آخر میں یہ بات بھی کم اہم نہیں کہ اس کی گرفتاری کے بعد ہونے والی بحثوں میں بار بار
‘ہنی ٹریپ’ کا چرچہ ہو رہا ہے، یعنی موہ جال میں پھنسا کر کسی نے اس سے خفیہ باتیں نکال لیں۔ ناقدین کا خیال ہے کہ ہنی ٹریپ کی بحث ایک طرح سے بعد میں اس کی رہائی کے لیے زمین تیارکر سکتی ہے، جس میں یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ ملزم پھنس گیا تھا اور اس کا مقصد ملک کو نقصان پہنچانا نہیں تھا۔
ہندوتوا تنظیموں کو کیاسانپ سونگھ گیا ہے؟
اس انکشاف کے حوالے سے شاید سب سے عجیب وغریب خاموشی ہندوتوا کی بالادستی کےنظریے کے حامیوں کی نظر آتی ہے، جو کچھ نہیں بول رہے۔ اس قبیلے کی تمام تنظیمیں اور ان کی متعدد ذیلی تنظیمیں سب خاموش ہیں۔
ہر چھوٹے موٹے مسئلے میں پاکستان کا ہاتھ دیکھنے والے یا اپنے مخالفین اور ناقدین کو غدار کا درجہ دینے میں آگے رہنے والے دائیں بازو کے ہندوتوا قبیلے کی تمام تنظیموں کی یہ خاموشی، حیران کن ہے۔
نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے ایک سرکردہ رہنما اور وزیر نواب ملک جو– اس وقت ای ڈی کیس کے سلسلے میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں،پر داؤد ابراہیم کے ساتھ تعلقات کا جھوٹا الزام لگانے والے خود ساختہ محب وطن کو اس بڑی خبر سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ ڈی آر ڈی او کے ایک ڈائریکٹر کو پاکستان کے ساتھ جاسوسی کے الزام میں ٹھوس شواہد کے ساتھ پکڑا گیا ہے۔
اس معاملے میں نہ تو وزیر اعظم نریندر مودی کچھ کہہ رہے ہیں اور نہ ہی امت شاہ نے اپنا منہ کھولا ہے۔
‘دیش بھکت کورولکر’ کے عنوان سے شیوسینا کے ترجمان ‘سامنا’ میں ایک
اداریہ میں لکھا گیا ہے کہ کس طرح کورولکر قومی سطح پر دفاعی معاملات میں پالیسی سازی کے لیے بنائی گئی دس سائنس دانوں کی کمیٹی کے رکن ہیں،اس کے مطابق درحقیقت پچھلے کچھ سالوں سے ہندوتوا تنظیموں کی یہ کوشش رہی ہے کہ اہم عہدوں پر ہم خیال لوگوں کو بٹھایا جائے اور جب ایسا ہی کوئی شخص پکڑا گیا تو پی پاکستان کے لیے جاسوسی کے اس دھماکہ خیز واقعہ کے بارے میں نہ تو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور نہ ہی بی جے کچھ کہہ رہی ہے۔
وجہ کیا ہو سکتی ہے؟
کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ملزم کرولکر طویل عرصے سے ہندوتوا تنظیموں کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں؟ رپورٹس کے مطابق، وہ ہندوتوا پریوار کی مختلف ذیلی تنظیموں کے پروگراموں میں بھی حصہ لے چکے ہیں، ان کے پروگراموں میں سیکسوفون بھی بجایا ہے۔
درحقیقت، جب سے کرولکر کی پاکستان کی آئی ایس آئی ایجنٹ ہونے کی بات سامنے آئی ہے اور اسے گرفتار کیا گیا ہے، مراٹھی میڈیا اور دیگر صوبائی میڈیا نے بھی ان تنظیموں کے ساتھ اس کے تعلقات کی
تمام تصویریں جاری کی ہیں۔
مثال کے طور پر، ‘سواتنترئے ویر ساورکر’ کے اعزاز میں منعقدکسی تقریب میں
خطاب کرتے ہوئے نظر آتے ہیں یا یوٹیوب پر ایسے انٹرویوموجود ہیں جہاں وہ ایک ہندوتوا تنظیم کے ساتھ اپنی وابستگی کے بارے میں کھل کر بولتے ہیں جو کردار سازی کے لیے پرعزم ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ ان کے مطابق ان کا اس جماعت سےتعلق تین نسلوں سے ہے، ان کے دادا بھی تھے، والد بھی منسلک تھے اور یہی نہیں، اب ان کا بیٹا بھی اس تنظیم سے جڑا ہوا ہے۔
کچھ دن پہلے کانگریس پارٹی نے بھی ایک پریس کانفرنس کر کے سنگھ کے ساتھ کرولکر کے مبینہ
تعلقات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
پاکستان کے لیے جاسوسی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے
ویسے یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ہندوتوا نظریے کے لوگ پاکستان کے لیے جاسوسی کے الزام میں پکڑے گئے ہیں اور اسی طرح کی ملک مخالف کارروائیاں انجام دیتے رہے ہیں۔
ایک بی جے پی مقتدرہ ریاست مدھیہ پردیش سے اجاگر ہوا
دھرو سکسینہ کیس ابھی تازہ ہی ہے، جب ریاست کی اے ٹی ایس نے دھرو سکسینہ کی سربراہی میں11 لوگوں کے ایک جاسوسی نیٹ ورک کا پتہ لگایا، جو پاکستان کے لیے جاسوسی کرتا تھا۔ بتایا گیا کہ دھرو سکسینہ جو اس نیٹ ورک کا سربراہ تھا، وہ
بی جے پی کے آئی ٹی سیل کا ضلع کوآرڈینیٹر تھا۔ دھرو سکسینہ اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر- جن کے نام بلرام، موہت وغیرہ تھے – ہندوستانی فوج کی تعیناتی کے بارے میں اہم معلومات پاکستان کی آئی ایس آئی کو فراہم کرتا تھا۔
انہی دنوں سوشل میڈیا پر وہ تصاویربھی نشر ہوئی تھیں جن میں یہ وزیر اعلیٰ اور بی جے پی کے دیگر لیڈروں کے ارد گرد نظر آ رہا تھا۔ ایک تصویر میں شیوراج سنگھ چوہان کا لیکچر ہو رہا ہے اور دھرو وغیرہ لوگ کھڑے تھے، دوسری تصویر میں دھرو بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری کیلاش وجئے ورگیہ کے ساتھ موجود ہے۔
پچھلے سال سامنے آئے اس واقعہ کو بھی یادکر سکتے ہیں کہ بی جے پی کے اقلیتی سیل کا سربراہ لشکر طیبہ کا کارکن نکلا تھا۔ اطلاعات کے مطابق، طالب حسین شاہ نہ صرف بی جے پی کا سرگرم رکن تھا بلکہ جموں میں پارٹی کے سوشل میڈیا سیل کا انچارج بھی تھا۔ اس وانٹیڈ دہشت گرد کو جموں کے ریاسی علاقے کے گاؤں والوں نے دو اے کے 47 رائفلوں اور گولہ بارود کے ساتھ پکڑا تھا۔
کچھ ماہ قبل یشونت شندے – جو خود ایک طویل عرصے سے ہندوتوا گروپوں کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں-کی طرف سے عدالت میں داخل کردہ
حلف نامہ بھی آپ دیکھ سکتے ہیں، جس میں اس شخص نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی کہ اسے بھی
ناندیڑ بم دھماکے میں ہندوتوادیوں کے ملوث ہونے کے معاملے میں فریق بنایا جائے۔
اپنے
انٹرویوز کی ایک سیریز میں اس نے بتایا تھا کہ کس طرح اسےاس بات کی تربیت دی گئی تھی کہ وہ پاکستان میں جاکر خفیہ کارروائیوں کو انجام دے اور ہندوستان میں بم دھماکہ کرے جس کے لیے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرایا جا سکے۔ اس نے یہ بھی الزام لگایا تھاکہ 2003 اور 2004 میں اس کے ساتھی ٹرینیوں نے جالنا، پورنا اور پربھنی جیسے مہاراشٹر کے شہروں میں مساجد میں بمباری کی۔
یقیناًیہ ماننا غلط فہمی ہوگی کہ ڈی آر ڈی او کے ڈائریکٹر سطح کے افسر پردیپ کورولکر کی جاسوسی کے الزام میں گرفتاری یا دھرو سکسینہ گینگ کی ویسی ہی کارگزاری یا یشونت شندے جیسے لوگوں کی حرکتوں کو محض ان افراد تک ہی محدود کیا جاسکتا ہے اور اس کے پیچھے کوئی پیٹرن نہیں ہےیااس کے پیچھے کوئی تنظیمی کوشش نہیں ہے۔
اب بھلے ہی یہ مختلف ہندوتوا تنظیمیں- پھر چاہے وہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ہو، بی جے پی، وشو ہندو پریشد وغیرہ – کرولکر کی غداری کو لے کر اپنے منہ پر تالالگائے ر ہیں، لیکن جلد یا بدیر انھیں یہ واضح کرنا ہی پڑے گا کہ آخر کس وجہ سے ان کا نام نہاد’قوم پرست نظریہ’ ایسے لوگ پیدا کرتا ہے جو اپنے ملک کی خفیہ معلومات ‘دشمن قوم’ کو دینے سے نہیں ہچکچاتے۔
یہ دلیل زیادہ دیر نہیں چلے گی جیساکہ شاید اس معاملے میں بھی
اچھالا جا رہا ہے کہ ہزاروں لوگ ان کے یہاں آتے جاتے رہتے ہیں اور وہ ہر کسی کی ضمانت کیسے دے سکتے ہیں۔
(سبھاش گاتاڈے بائیں بازو کے کارکن، مصنف اور مترجم ہیں۔)