یہ ایک ڈاکٹر کے عزم اور حوصلے کی داستان ہے، یہ ایک خاندان کے مایوسی سے ابھرنے اور لوگوں میں امید کی جوت جگانے کی داستان ہے، یہ کرپشن اور ناانصافی و تعصب کے خلاف جدوجہد کی داستان ہے۔ یہ داستان پڑھی جانی چاہیے تاکہ لوگوں میں امید بندھے کہ انصاف کے لیے طاقتور لو گوں سے بھی لڑائی لڑی جا سکتی ہے، اور لڑ کر جیتی بھی جاسکتی ہے۔
ڈاکٹر کفیل خان کی کتاب کا سرورق
جب کبھی کہیں ڈاکٹر کفیل خان کا ذکر آجاتا ہے، یا ان کے تعلق سے کوئی خبر سامنے آجاتی ہے، تو دل سے دعا نکلتی ہے کہ اُن پر جو بیتی ہے کسی دشمن پر بھی نہ بیتے! حال کے دنوں میں ڈاکٹر کفیل خان کو یاد کرنے کی کئی وجوہ ہیں؛ ایک وجہ تو یہ ہے کہ شا رُخ خان نے اپنی بلاک بسٹر فلم ’جوان‘ میں جو کہانیاں پیش کی ہیں، اُن میں ایک کہانی ڈاکٹر ارم ( اداکارہ سانیا ملہوترا ) کی ہے، جو حقیقتاً ڈاکٹر کفیل خان کی کہانی ہے۔
فلم دیکھ کر ڈاکٹر کفیل خان نے شاہ رُخ خان کو ایک
خط لکھ کر اُن کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔ انہیں یاد کرنے کی ایک وجہ اور ہے، ان کی
انگریزی کتاب کا اردو ترجمہ ’
اسپتال سے جیل تک: گورکھپور اسپتال سانحہ۔‘
جب میں نے انگریزی میں یہ کتاب پڑھی تھی تو یہ خواہش، بلکہ شدید خواہش پیدا ہوئی تھی کہ اس کا اردو ترجمہ کیا جائے۔ لیکن اس خواہش کو عملی شکل نہیں دے سکا، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ کسی سے پتہ چلا تھا کہ خود ڈاکٹر کفیل خان نے اس کا اردو ترجمہ کروا لیا ہے۔ اب وہ کتاب اردو زبان میں شائع ہو کر آ گئی ہے۔
ڈاکٹر کفیل خان کی کتاب کا سرورق
ڈاکٹر کفیل خان کے تعلق سے میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ انہیں کیوں گرفتار کیا گیا تھا؟ ڈاکٹر کفیل خان نے، اسپتال میں آکسیجن کے ختم ہونے کے بعد، دوسری جگہوں سے آکسیجن کے سلینڈر ہی تو اکٹھے کرنے کی کوششیں کی تھیں، اور مقصد بھی نیک ہی تھا، بچوں کی جانیں بچانے کا! پھر ایسا کیا ہوا تھاکہ جس ڈاکٹر کو ’ہیرو‘ بنایا جانا چاہیے تھا اُسے ’ولن‘ بنا دیا گیا؟
میں اکثر یہ بھی سوچتا تھا کہ شاید ڈاکٹر کفیل خان کا مسلمان ہونا اُس کے آڑے آیا ہو، بھلا اترپردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ کی سرکار کیسے ایک مسلمان ڈاکٹر کو ’ہیرو‘ بنتے دیکھ سکتی تھی!ایک سوال یہ بھی اکثر دل و دماغ پر دستک دیا کرتا تھا کہ گورکھپور اسپتال سانحہ کے اُن ملزمین کے خلاف، جن کے چہرے مکمل طور پر عیاں ہیں، کارروائی کیوں نہیں کی جا رہی ہے، اور کیا کبھی کارروائی ہو گی بھی؟
ان سارے سوالوں کےجواب آج تک، حکومت اور حکام کی طرف سے نہیں ملے ہیں، اور ان کی طرف سے جو الزامات عائد کیے گیے تھے، یا کیے گیے ہیں، انہیں جواب نہیں مانا جا سکتا ہے۔ یہ سوالات خود ڈاکٹر کفیل خان کے دماغ میں بھی گردش کرتے رہے ہیں، اور انہوں نے اپنی کتاب میں ان سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔
کتاب کے انگریزی ایڈیشن پر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا کہ، ڈاکٹر کفیل کی کتاب بڑی حد تک مذکورہ سوالوں کے جواب بھی ہیں، ساتھ ہی اُن سوالوں کے بھی کچھ جواب سامنے لاتی ہے، جو عام طور پر دریافت نہیں کیے جاتے۔ سفید پوشوں کے کرپشن اور سرکاری اداروں میں مالی بے ضابطگیوں، اور ہر سطح پر ذات پات و مذاہب کی بنیاد پر برتے جانے والے تعصب سے متعلق سوالات۔
ڈاکٹر کفیل نے کستوربا میڈیکل کالج، منی پال، کرناٹک سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی ہے، بچوں کے امراض کے ماہر ہیں، ان کا تعلق گورکھپور سے ہے، وہ وہاں ریاستی سرکارکے زیرِ انتظام چلنے والے ’بی آر ڈی، میڈیکل کالج‘ میں جونیئر لیکچرار تھے، اسی کالج کے ’نہرو اسپتال‘ میں 10، اگست2017 کی شام لِکوڈ آکسیجن ختم ہو گئی تھی، اور63 کمسن بچے موت کی نیند سو گئے تھے۔
لاپروائی، غفلت اور سازش کاالزام ڈاکٹر کفیل پر لگا تھا، جبکہ یہ ڈاکٹر کفیل ہی تھے جو سب سے پہلے اسپتال پہنچے تھے اور آکسیجن کے سلینڈروں کی فراہمی کی کوشش کے ساتھ لِکوڈ آکسیجن کی فراہمی کی بھی ہر ممکنہ کوشش کی تھی، لیکن مجرم وہی بنا دیے گیے۔
کتاب کے ’مقدمہ‘ میں وہ لکھتے ہیں کہ؛
’آخر ایک ڈاکٹر کس طرح اپنی ڈیوٹی انجام دے سکتا ہے؟ آکسیجن موجود ہی نہ ہو تو مریضوں کی زندگیوں کو کیسے بچا سکتا ہے؟ ایک زندگی بچانے والے شخص کو راتوں رات ایک قاتل کی صورت میں کیسے پیش کیا جاتا ہے؟ زیادہ قیمتی کیا ہے؟ کسی بچے کی زندگی؟ یا کسی خاص شخص اور سیاسی پارٹی کی عزت و شہرت۔‘
کتاب میں ڈاکٹر کفیل خان نے اسپتال سانحہ کی تفصیلات کے ساتھ اپنی اور اپنے خاندان کی کہانی بھی بیان کی ہے، اور اپنی اسیری کی روداد بھی۔
کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے کا عنوان ’فرض‘ ہے۔ اس حصے میں، سات ابواب میں، نصف شب کے قریب موبائل پر اسپتال میں لِکوڈ آکسیجن کے ختم ہونے کے پیغام، اور اس پیغام کے نتیجے میں اسپتال کے لیے روانگی سے لے کر، اُن بچوں کے، جو ’انسفلائٹس‘ یعنی ’التہاب دماغ ‘ کے سبب اسپتال میں زیرِ علاج تھے، والدین کی التجا ’ڈاکٹر، میرے بچے کو بچا لو‘، اور آکسیجن کی تلاش کے لیے دوڑ بھاگ، صبح کی آمد، اموات اور مزید بچوں کو موت کے منھ میں جانے سے بچانے کے لیے لیے جانے والے فیصلوں، حکام کی طرف سے لِکوڈ آکسیجن کے ختم ہو جانے کی خبروں کی تردید اور گورکھپور میں یوگی حکومت کے خلاف عوامی احتجاج تک، اسپتال سانحہ کی تفصیلات دی گئی ہیں۔
اس حصہ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ لِکوڈ آکسیجن ڈیلر کو روپیوں کی ادائیگی نہ کیے جانے کے سبب آکسیجن سپلائی روکی گئی تھی، جبکہ بجٹ منظور تھا۔ ڈاکٹر کفیل نے اس حصے میں میڈیکل کالج اور اسپتال کے ذمے داران، ڈاکٹر صاحبان اور مختلف ڈپارٹمنٹ کے سربراہان کی لاپروائی اور غفلت کو، ایک ایسے پس منظر میں، جب ان کی اسپتال کو واقعی ضرورت تھی، اس کرب کے ساتھ بیان کیا ہے کہ سارا منظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔
ایک طرف بچوں کو بچانے کے لیے دوڑ بھاگ ہو رہی ہے، والدین بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں یا رو رہے ہیں، ذمےداران کو فون پر فون جا رہے ہیں، مگر وہ ہیں کہ اسپتال یا تو آنا نہیں چاہتے یا اگر کوئی آیا بھی ہے تو کوئی ذمہ داری لینے سے کترا رہا ہے، اور اگر نہیں آیا ہے تو موبائل پر ہی ہدایت دینا کافی سمجھ رہا ہے، اور بچے ہیں کہ دم توڑ رہے ہیں۔
اس حصے میں آکسیجن سلینڈروں کو حاصل کرنے کے لیے ڈاکٹر کفیل اور اُن کے اُن ساتھیوں کی، جو اسپتال میں بچوں کی نگرانی کر رہے تھے، تڑپ کو شدت سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔
اس حصے میں ایک باب میں، جس کا عنوان ہے ’الزام تراشی کے کھیل کی ابتدا‘ وزیر اعلیٰ یوگی کے حکم پر ڈی ایم کی انکوائری کی تفصیلات دی گئی ہیں، اکاؤنٹنٹ سے لے کر پرنسپل تک پر، الزام تراشی کی داستان بیان کی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ انکوائری کمیٹی نے یقین دہانی کی تھی کہ عملے کا جو بھی فرد تحریری طور پر سارا الزام پرنسپل پر عائد کرے گا، اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
اس سچ سے پردہ ہٹایا گیا ہے کہ ایچ او ڈی ڈاکٹر مہیما متل سے، جو آکسیجن کی کمی سے واقف تھیں، صرف یہ پوچھا گیا کہ انھوں نے کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا، بس! ایک جانب انکوائری ہو رہی تھی دوسری جانب میڈیا یہ سوال اٹھا رہا تھا کہ وزیراعلیٰ یوگی پانچ بار گورکھپور کے رکن پارلیامنٹ رہے، انھوں نے کیا کیا؟
بی جے پی حکومت پر سوال اٹھ رہے تھے۔ ریاست کے وزیرِ صحت اور وزیرِ اعلیٰ یوگی کے استعفے کے مطالبے شروع ہو گئے تھے۔ اور یہی وہ عوامل تھے جن کے سبب ایک ’ہیرو‘ کو ’ولن‘ بننا پڑا۔ کتاب کے ’مقدمہ‘ میں داکٹر کفیل خان نے چند باتیں لکھی ہیں جن سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس سانحہ سے پہلے ہی یوگی حکومت کو کھٹکنے لگے تھے۔
ایک تو حکام کو بار بار خط لکھ کر تجاویز دینا اور ان پر عمل کے لیے اصرار کرنا۔ اسپتال سانحہ سے قبل، وزیرِ اعلیٰ بننے کے بعد اسپتال میں یوگی کی آمد پر، ان کے سامنے اسپتال میں مریٖضوں کی بہتات، عملے کی قلت اور دوائیوں و آلات کی کمی کی شکایات کرنا، ساتھ ہی قومی دیہی صحت مشن کے کرمچاریوں کی کئی مہینے سے رکی ہوئی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے وزیرِ اعلیٰ سے گہار لگانا۔
یہ سب باتیں حکام اور حکومت کی نظر میں ڈاکٹر کفیل کے حق میں نہیں تھیں، اوپر سے یوگی اور ان کی حکومت کے خلاف احتجاج اور استعفیٰ کا مطالبہ، ایک ’ہیرو‘ کو ’ولن‘ بنانے کے لیے یہ وجوہ کافی تھیں۔ سانحہ کے تین دن بعد 13، اگست کے روز، وزیرِ اعلیٰ یوگی اور مرکزی وزیرِ صحت اسپتال کے دورے پر آئے، یہ دورہ ڈاکٹر کفیل کے لیے ایک عذاب ثابت ہوا۔
ڈاکٹر کفیل اور یوگی کے درمیان جو گفتگو ہوئی اس سے خوب اندازہ ہوجاتا ہے کہ حکومت نے یہ طے کر لیا تھا کہ ڈاکٹر کفیل کو بلی کا بکرا بنا نا ہے۔ گفتگو ملاحظہ کریں؛
’وزیرِ اعلیٰ نے بھی گھور کر دیکھا ، وہ بہت غصے میں تھے ، ان کا چہرہ غصے سے لال ہو رہا تھا ۔
’ تو تُو ڈاکٹر کفیل ہے؟ ‘انہوں نے پوچھا۔
’ جی ، سر ۔‘میں نے جواب دیا۔
’ تو نے سلینڈر کا انتظام کیا تھا؟‘
’ جی، سر ‘میں نے اعتراف کیا، لیکن جس طرح وہ مجھے ’تُو، تو‘ کر کے خطاب کر رہے تھے اس سے مجھے محسوس ہونے لگا کہ معاملہ ٹھیک نہیں ہے ۔
وزیراعلیٰ ایک کنسلٹنٹ کی طرف مُڑے اور پوچھا، ’یہ چار پانچ سلینڈر سے کتنی زندگی بچا لیں؟ ‘
کسی نے بھی جواب نہیں دیا لیکن میرے اندر سے ایک آواز چیخ کر کہہ رہی تھی کہ چار پانچ سلنڈر نہیں بلکہ 54 گھنٹوں میں 500 سلنڈر کا انتظام کیا تھا، مگر میری زبان خاموش رہی ۔‘
کتاب کے دوسرے حصے کا عنوان ’قید‘ ہے۔ اس حصے کےسات ابواب میں ڈاکٹر کفیل خان نے اپنی اسیری، خاندان کی پریشانیوں، مالی تنگدستی، سماجی دوری، دکان اور اثاثوں کی فروخت کا بڑے ہی رقت بھرے لہجے میں ذکر کیا ہے۔
اس حصے میں عدالتی کارروائی کا بھی ذکر ہے اور جیل کی ذلت بھری زندگی کا بھی۔ ڈاکٹر کفیل خان بتاتے ہیں کہ انہیں کس طرح ٹوائلٹ کی صفائی پر لگایا گیا اور کس کس طریقے سے پریشان کیا گیا، لیکن وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے، اور ان کے اخلاق نے اور ان کی ڈاکٹری نے لوگوں کے دل جیت لیے۔
اس حصے کے ایک باب میں جیل کی زندگی کی بدعنوانیوں اور ذات پات کے نام پر برتے جانے والے تعصب کا بھی تذکرہ ہے۔
کتاب کا تیسرا حصہ ’تلاش‘ کے عنوان سے ہے، یہ تین ابواب پر مشتمل ہے۔ اس حصے کے پہلے باب میں اسپتال سانحہ کے اسباب پر بات کی گئی ہے، کرپشن پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ڈاکٹر کفیل لکھتے ہیں؛
’جب ساری ریاستی مشینری نے مجھے جانا تو دو چیزیں ہوئیں۔ ایک یہ کہ میڈیا کی ایک بڑی تعداد نے، جس کو حکومت کی منظوری اور تعریف چاہیے تھی، میرے مسلمان ہونے کو ایک بڑا مسٔلہ بنانا شروع کر دیا اور اس کا مطلب یہ تھا کہ میں ایک امکانی طور پر دہشت گرد یا مجرم ہوں۔ دوسرے یہ کہ سیکولر اقدار کے حامل لوگوں نے اس بات پر اپنی برہمی اور غصے کا اظہار کرنا شروع کیا مجھے صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے شکار بنایا جا رہا ہے۔ ان دونوں امور نے دس اور گیارہ اگست کی درمیانی شب میں ہونے والے سانحے کا رُخ موڑ دیا جس نے لوگوں کی توجہ ہٹانے کا کام کیا ۔‘
اس حصے کے آخری باب میں ضمانت کی کوششوں اور چند ذاتی خطوط کا ذکر ہے۔ اور ڈاکٹر کفیل خان کے اپنی خاموشی توڑنے کے عزم کا بھی۔
چوتھے حصے کا عنوان ہے ’عزم و ارادہ‘۔ یہ حصہ واقعی عزم سے بھرا ہوا ہے، یہ عزم کہ سرکار کے سامنے جھکنا نہیں ہے، لڑنا ہے، ہر حال میں لڑنا ہے۔
پہلے باب میں ڈاکٹر کفیل کی فائل پڑھنے کے بعد جج کے ردعمل کا ذکر ہے، ’جونیئر ڈاکٹر ہونے کے طور پر جب کہ انہوں نے معصوم زندگیوں کو بچانے کی کوشش کی وہ سلاخوں کے پیچھے کیوں ہیں؟‘
پھر جیل سے رہائی، گھر واپسی اور بھائی پر گولیوں کی بوچھار اور دوبارہ جیل واپسی کی روداد بیان کی گئی ہے۔
ڈاکٹر کفیل جیل سے پھر باہر آ گئے ہیں، لیکن سرکار اور حکام انہیں نظر انداز کرنے کو تیار نہیں ہیں، انہیں میڈیکل کالج سے نکال دیا گیا ہے اور پولیس ان کی اور ان کے گھر والوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
یہ سب تو ہے لیکن ڈاکٹر کفیل طبی میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں، وہ این جی او چلا کر بچوں کا جگہ جگہ جا کر علاج کر رہے ہیں، ان کے ساتھ ہندو ڈاکٹر بھی ہیں۔ یہ ایک ڈاکٹر کے عزم اور حوصلے کی داستان ہے، یہ ایک خاندان کے مایوسی کی کگار سے ابھرنے اور لوگوں میں امید کی جوت جگانے کی داستان ہے، یہ کرپشن اور ناانصافی و تعصب کے خلاف جدوجہد کی داستان ہے۔ یہ داستان پڑھی جانی چاہیے تاکہ لوگوں میں امید بندھے کہ انصاف کے لیے، طاقتور لو گوں سے بھی لڑائی لڑی جا سکتی ہے، اور لڑ کر جیتی بھی جاسکتی ہے۔