بابا رام دیو کی کمپنی پتنجلی نے اخبارات میں اشتہار دے کر دعویٰ کیا ہے کہ اس کی دوائیں ٹائپ 1 ذیابیطس، تھائرائیڈ اور دمہ جیسی کئی بیماریوں کا علاج کر سکتی ہیں۔ ‘ایلوپیتھی کے ذریعے پھیلائی گئی غلط فہمیاں’ کے عنوان سے شائع ہونے والےاس اشتہار کو تمام ڈاکٹروں نے پورے طور پر گمراہ کن قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
نئی دہلی:ماضی میں ‘گمراہ کن’ اشتہارات دیے جانےکے بارے میں حکام کی طرف سے خبردار کیے جانے کے باوجود بابا رام دیوکی کمپنی پتنجلی نے اخبارات میں آدھے صفحے کااشتہار دے کر ایک اور تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔
اس اشتہار میں دعویٰ کیا گیا کہ اس کے برانڈ کی روایتی دوائیں ٹائپ 1 شوگر/ذیابیطس، تھائرائیڈ اور دمہ جیسی کئی بیماریوں کا علاج کر سکتی ہیں۔
‘ایلوپیتھی کے ذریعے پھیلائی گئی غلط فہمیاں’ کے عنوان سے شائع اشتہار کو کئی سینئر ڈاکٹروں نے ‘گمراہ کن’ اور ‘بالکل غلط’ قرار دیا ہے۔
یہ اشتہارات گزشتہ 4 دسمبر کو اخبارات میں شائع ہوئے تھے۔ اس سے پہلے بھی اخبارات میں یہ اشتہار شائع ہو چکا ہے۔
دی نیوز منٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق، پتنجلی کے اخبارات میں شائع ہونے والے ایک اشتہار میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بلڈ پریشر (بی پی)، شوگر اور تھائرائیڈ جیسی بیماریوں کے علاج کے لیے برسوں سے ایلوپیتھک ادویات لے رہے لوگوں کے لیے زندگی ‘جہنم’ بن گئی ہے۔
اشتہار میں کہا گیا ہے کہ ‘سائنسی تحقیق’ کے ذریعے وہ کروڑوں لوگوں کو ‘تمام بیماریوں سے نجات’ دے کر ان بیماریوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
اس اشتہار میں جس چیز نے ڈاکٹروں کو سب سے زیادہ حیران کیا ہے وہ کمپنی کا یہ دعویٰ ہے کہ پتنجلی ‘دنیا میں پہلی بار’ ٹائپ 1 ذیابیطس کا مکمل علاج کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
ڈاکٹروں کے مطابق آج تک ذیابیطس کا کوئی طبی طور پر تصدیق شدہ علاج نہیں ہے، تاہم اشتہار میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسے متوازن غذا کے ساتھ ‘انٹیگریٹو ٹریٹمنٹ’ کے ذریعے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔
پدم شری ایوارڈ یافتہ اور ڈاکٹر موہنس ذیابیطس اسپیشلٹی سینٹر کے چیئرمین ڈاکٹر وی موہن نے ٹوئٹر پر ٹائپ 1 ذیابیطس والے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اشتہار سے گمراہ نہ ہوں۔
اشتہار کی تصویر شیئر کرتے ہوئے ڈاکٹر موہن نے کہا، ‘اگر آپ انسولین لینا بند کرتے ہیں تو آپ کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ ابھی تک ٹائپ 1 ذیابیطس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ انسولین زندگی بچانے والا ہے۔ براہ کرم اسے جاری رکھیں۔
Those with type 1 diabetes please do not be misled by such misleading advertisements. It is risky to your life if you stop Insulin. As of now there is no cure for type 1 diabetes. Insulin is life saving. Please continue it #type1diabetes #insulin @Rssdi_official pic.twitter.com/ULFKMs1rrA
— Dr.V.Mohan (@drmohanv) December 4, 2022
ٹائپ 1 ذیابیطس ایک سنگین حالت ہے جہاں ایک شخص کا لبلبہ ہارمون انسولین پیدا کرنے میں ناکام رہتا ہے، جو شوگر (گلوکوز) کو توانائی پیدا کرنے کے لیے جسم کے خلیوں میں داخل ہونے میں مدد کرتا ہے۔
ایک اور ٹوئٹ میں انہوں نے کہا تھا، ‘میں آیوروید اور دیگر ہندوستانی نظام طب اور یوگا کا بہت احترام کرتا ہوں۔ وہ بہت سی بیماریوں کے لیے بہت اچھا کام کرتے ہیں۔ ہمیں مطالعہ کرنے اور مزید ثبوت تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کی دنیا سائنس اور شواہد پر مبنی ہے جس میں صرف ایلوپیتھی ہی نہیں ہونی چاہیے۔
I have the greatest respect for Ayurveda and other Indian systems of medicine and for Yoga. They work very well for many diseases . We need to do studies and generate more evidence . Today’s world is science and evidence based , which need not only be Allopathy.
— Dr.V.Mohan (@drmohanv) December 4, 2022
پتنجلی کے اشتہار کی مخالفت کرنے والے بہت سے دوسرے ڈاکٹروں میں میکس ہیلتھ کیئر میں اینڈو کرائنولوجی اور ذیابیطس کے صدر ڈاکٹر امبریش متل بھی تھے۔
انہوں نے ٹوئٹ کیا، اس اشتہار میں زیادہ تر بیانات صریح جھوٹ ہیں، لیکن کچھ دعوے سراسر خطرناک ہیں۔ ٹائپ 1 ذیابیطس کا علاج؟ انسولین کا استعمال نہ کریں؟؟ تمام ٹائپ 1 ذیابیطس کے مریضوں سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ انسولین نہ چھوڑیں۔ یہ جان لیوا ہو سکتا ہے۔
Today's newspaper-
Most statements in this ad are blatantly false. #misinformation
But some are downright dangerous
Curing type 1 #diabetes? Leaving insulin??
Request all type 1 DM NOT to give up #INSULIN
It can be fatal #DiabetesAwareness pic.twitter.com/mOhuENXUW1— Dr Ambrish Mithal (@DrAmbrishMithal) December 4, 2022
This is blatant fraud. Will the @DeptHealthRes @MoHFW_INDIA @CDSCO_INDIA_INF
take note? People could die if they follow this advice. pic.twitter.com/uhVELHoqtc— Pramesh CS (@cspramesh) December 4, 2022
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ پتنجلی اس طرح کا اشتہار شائع کر رہی ہے، جس میں مختلف بیماریوں کے علاج کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ اس سال جولائی کے اوائل میں کمپنی نے ملک کے کئی معروف انگریزی روزناموں میں اشتہارات شائع کیے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ ہندوستان کی کچھ بڑی غیر متعدی بیماریوں کا علاج کر سکتی ہے۔
غیر متعدی بیماریاں، جن میں دل کی بیماری، اسٹروک، کینسر، ذیابیطس اور پھیپھڑوں کی دائمی بیماری شامل ہیں، دنیا بھر میں ہونے والی تمام اموات میں سے 74 فیصد کے لیے اجتماعی طور پر ذمہ دار ہیں۔
دی وائر نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ پتنجلی کا اشتہار دو قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے،، ڈرگس اینڈ کاسمیٹکس ایکٹ 1940 اور ڈرگس اینڈ میجک ریمیڈیز ایکٹ 1954۔
ڈرگس اینڈ کاسمیٹکس ایکٹ کے پارٹ 9،قاعدہ 106(1) کے مطابق، ‘کوئی دوا شیڈول جے میں بیان کردہ کسی ایک یا ایک سے زیادہ مرض یا بیماریوں کو روکنے یا علاج کرنے کا دعوی نہیں کر سکتی، اور نہ ہی اس کے ممکنہ صارفین کو کوئی ایسا تصور دے سکتی ہے کہ یہ ان امراض یا بیماریوں کی روک تھام یا ان کا علاج کر سکتی ہے۔’
پتنجلی ویلنیس کے اشتہار میں بتائی گئی تمام بیماریاں شیڈول جے میں شامل ہیں۔
اس سال نومبر میں اتراکھنڈ آیوروید اور یونانی لائسنسنگ اتھارٹی نے پتنجلی پروڈکٹس بنانے والی دیویہ فارمیسی کو اپنی کچھ ادویات کی پیداوار بند کرنے کی ہدایت دی تھی۔ ان ادویات کو ذیابیطس، بلڈ پریشر، گلوکوما اور کولیسٹرول کے علاج کے لیے غلط طریقے سے مشتہرکیا جا رہا تھا۔
دیویہ فارمیسی کو پانچ دوائیوں کی پیداوار روکنے کی ہدایت دیتے ہوئے اس سے کہا گیا کہ وہ ان کی منظوری حاصل کرنے کے لیے اپنی ترمیم شدہ فارمولیشن شیٹ پیش کرے۔ تاہم، پابندی کے صرف دو دن بعد (12 نومبر) کو اتھارٹی نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا اور اسے ‘غلطی’ قرار دیا تھا۔
اس سے پہلے ستمبر میں سینٹرل کنزیومر پروٹیکشن اتھارٹی نے بھی پتنجلی سے مختلف بیماریوں کے علاج کا وعدہ کرنے والے اشتہارات کو ہٹانے کو کہا تھا۔
جولائی 2022 میں پتنجلی یوگ پیٹھ کی ایک یونٹ آیوروید دیویہ فارمیسی کمپنی پر اس کے اس کی آیورویدک مصنوعات کے گمراہ کن اشتہارات جاری کرنے پر آیورویداور یونانی سروسز (اتراکھنڈ) کے لائسنسنگ آفیسر نے ہری دوار کے ڈرگ انسپکٹر کو دیویہ فارمیسی کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت دی تھی۔
پتنجلی اپنی دواؤں کو لے کر پہلے بھی تنازعات میں رہا ہے
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال رام دیو اور ان کی کمپنی پتنجلی نے اپنی دوا ‘کورونیل’ کےکووڈ-19 کے علاج میں کارگر ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایلوپیتھی اور ایلوپیتھی ڈاکٹروں کے خلاف توہین آمیز ریمارکس دیے تھے، جس کے خلاف ڈاکٹروں کی مختلف تنظیموں نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔
اس سال جولائی میں رام دیو کی کمپنی نے عدالت کو بتایا کہ وہ کورونیل کی قوت مدافعت بڑھانے ، نہ کہ بیماری کے علاج کے بارے میں عوامی وضاحت جاری کرنے کوتیار ہے۔ تاہم، اگست کی سماعت میں اس نے جو وضاحت پیش کی، اس میں لکھا تھا:
‘یہ واضح کیا جاتا ہے کہ کورونیل قوت مدافعت بڑھانے کے علاوہ، ، خاص طور پر سانس کی نلی سےمتعلق اور تمام قسم کے بخار کے لیے،کووڈ کے مینجمنٹ میں شواہد پر مبنی معاون دوا ہے ۔’
اس میں یہ بھی کہا گیا تھا… ‘کورونل کا ٹیسٹ کووڈ-19 کے آثار والے مریضوں پر کیا گیا، جس کا نتیجہ ان پر کامیاب رہا۔ اس کو اس پس منظر میں دیکھیں کہ کورونیل کو علاج کہا گیا تھا۔ تاہم، بعد میں یہ واضح کیا گیا کہ کورونیل کووڈ کاصرف ایک سپلیمنٹری علاج ہے۔
عدالت نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا تھاکہ یہ وضاحت کے بجائے اپنی پیٹھ تھپتھپانے جیسا ہے۔
اس کے آگے کی سماعتوں میں عدالت نے کمپنی کی سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنی مصنوعات کو کووڈ کا علاج بتا کر گمراہ کر رہی ہے۔
اس کے بعد اگست کے آخری ہفتے میں ایک اور معاملے میں سپریم کورٹ نے ایلوپیتھک اور ایلوپیتھک ڈاکٹروں کی تنقید کرنے کے لیے رام دیو سے ناراضگی ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ وہ ڈاکٹروں کے لیے نازیبا الفاظ کے استعمال سے پرہیز کریں۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ مرکزی حکومت کو رام دیو کو جھوٹے دعوے اور ایلوپیتھک ڈاکٹروں کی تنقید کرنے سے روکنا چاہیے۔
قابل ذکر ہے کہ مئی 2021 میں سوشل میڈیا پر شیئر کیے گئے ایک ویڈیو کا حوالہ دیتے ہوئے آئی ایم اے نے کہا تھا کہ رام دیو کہہ رہے ہیں کہ ‘ایلوپیتھی ایک احمقانہ اور دیوالیہ سائنس ہے’۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ایلوپیتھک ادویات لینے کے بعد لاکھوں لوگ مر گئے۔ اس کے ساتھ ہی آئی ایم اے نے رام دیو پر یہ کہنے کا بھی الزام لگایا تھا کہ ڈرگ کنٹرولر جنرل آف انڈیا کی طرف سے کووڈ-19 کے علاج کے لیے منظور شدہ ریمڈیسیویر، فیبی فلو اور اس طرح کی دیگر دوائیں کووڈ 19 کے مریضوں کے علاج میں ناکام رہی ہیں۔
ایلوپیتھی کو احمقانہ اور دیوالیہ سائنس بتانے پر رام دیو کے خلاف وبائی امراض ایکٹ کے تحت کارروائی کرنے کے انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن (آئی ایم اے) اور ڈاکٹروں کی دیگر تنظیموں کی مانگ کے بعدمرکزی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن نے رام دیو کوایک خط لکھ کر اپنے الفاظ واپس لینے کی گزارش کی تھی۔
اس کے بعد رام دیو نے ایلوپیتھک دواؤں پر اپنا بیان واپس لے لیاتھا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)